’’تارے زمین پر‘‘ 2007ء کی ایک بھارتی فلم تھی جس کے پروڈیوسر عامر خان تھے۔اس میں آٹھ سالہ درشیل سفاری بطور ایک طالب علم جبکہ عامرخان اس کے استاد کے طور پرجلوہ گر ہوئے تھے۔ اس کے لکھاری امول گپتا تھے۔ایسی فلمیں بہت کم بنتی ہیں جن میں معاشرتی مسائل اور ان کے حل سے متعلق توجہ دلائی جائے۔ فلم تارے زمین پر انہیں فلموں میں سے ایک بہترین فلم ہے جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی جانب بھرپور توجہ دلائی گئی۔ 2007 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم کا مرکزی کردار ایشان (درشیل سفاری) آٹھ سال کا بچہ جو کہ ڈسلکشیا (پڑھنے لکھنے میں دشواری) میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے استاد اور والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی کا شکار رہتا ہے، سکول کے باقی بچے اس کی اس کمی کا مذاق بناتے ہیں اور اسے شدیت ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔وہ بچہ اساتذہ کا سخت رویہ برداشت کرتا ہے وہیں اس کا ٹیچر اس کے مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ اس کے ٹیچر کی کوشش اور محنت سے نہ صرف ایشان ٹھیک سے پڑھنے لکھنے لگتا ہے بلکہ خود میں مخفی صلاحیت یعنی پینٹنگ کے ذریعے ایشان نہ صرف اپنی صلاحیت سے واقف ہوتا ہے بلکہ دوسروں میں بھی خود کو منوا لیتا ہے۔
دوستو مدعا فلم ’’تارے زمین پر‘‘ نہیں بلکہ وہ طالب علم ہیں جو اپنی کسی کمی یا خامی کی بنیاد پر دوسرے طلبا سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔اساتذہ اور ساتھی طلبا کے طنز تنگ آکر یاتو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا پھر مایوس ہوکر دنیا کو ہی چھوڑ جاتے یعنی خود کشی کرلیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں اگر کوئی طالب علم ناکام ہوتا ہے یا کم نمبر لیتا ہے توشدید تنقید کی زد میں آتا ہے اور درد ناک انجام مایوسی اور اس کی موت پر ہوتا ہے اور والدین کے ہاتھ بس ا یک خط آتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارت میں ایک طالبہ نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ہونے والے ٹیسٹ میں ناکامی پر دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 18 سالہ طالبہ کی لاش اس کے ہاسٹل کے کمرے سے ملی تھی۔ جہاں ٹیسٹ کی تیاری کے لیے مقیم تھی۔تاہم اس واقعے میں سبق آموزکمرے سے ملنے والی ایک تحریر تھی،اس میں طالبہ نے لکھا تھا کہ ممی پاپا، پلیز مجھے معاف کردیں، میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ یہ ہمارے رشتے کا اختتام ہے۔ آپ دونوں رونا نہیں۔ آپ نے مجھے بہت پیار دیا لیکن میں آپ کے خوابوں کو پورا نہ کر پائی۔ افسوس۔۔ صد افسوس۔ وہ طالبہ زندگی کا خاتمہ کرنے سے قبل ایک بار صرف ایک بار والدین سے شیئر تو کرتی شائد کوئی متبادل آپشن مل جاتا، شائداس کے والدین اوراس کے خواب ادھورے نہ رہتے۔
ناکامی، اکثر ایک مشکل اور مایوس کن تجربہ ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ کامیابی کے راستے کی پہلی سیڑھی بن سکتی ہے۔ جب ہم ناکامی کا سامنا کرتے ہیں، تو یہ دراصل ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کہاں غلط ہو سکتے ہیں، ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے، اور کس طریقے سے ہم اپنی کوششوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ناکامی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ناکامی کے بعد اٹھنا اور دوبارہ کوشش کرنا انسان کی ہمت اور عزم کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ کامیابی صرف مستقل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تھامس ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنسدان نے اپنی ناکامیوں کو کامیابی کی طرف بڑھنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ ایڈیسن نے 1000 بار بجلی کے بلب کو بنانے میں ناکامی کا سامنا کیا، مگر انہوں نے کہامیں باربار ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے صرف 1000 طریقے تلاش کیے جو کام نہیں کرتے۔ اس کا مطلب تھا کہ ہر ناکامی دراصل کامیابی کے قریب پہنچنے کا ایک قدم ہے۔
صاحبو قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق ناکامی کا خوف اور کامیابی کی توقعات میں اضافہ طلبا پر شدید دباؤ ڈالتا ہے۔ خاص طور پر ایسے نوجوان جو تعلیمی نتائج پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ جب وہ ان توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے، تو وہ خود کو مایوس اور بے وقعت محسوس کرتے ہیں، جس سے ذہنی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں والدین، اساتذہ اور دیگر متعلقہ افراد کا اہم کردار ہے کہ وہ طلبا کی مدد کریں، ان کی ذہنی صحت کا خیال رکھیں اور انہیں ناکامی کو کامیابی کے راستے کی ایک اہم تعلیم سمجھنے کی ترغیب دیں۔
قدرت نے اپنے تمام نظاموں کے لیے ایک مخصوص وقت اور ترتیب بنائی ہے۔ درخت کے بیج کا پھل بننے تک، انسان کا بچپن سے نوجوانی اور پھر بلوغت تک کا سفر، ہر چیز کے لیے قدرت کا ایک وقت متعین ہے۔ اسی طرح، ہماری زندگی میں بھی قدرت کے ٹائم زون کی اہمیت ہے۔ہم جتنا جلدی یا جلدی نہیں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی ہم اپنے قدرتی راستے سے ہٹ سکتے ہیں۔قدرت کا ٹائم زون ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ ہم جب وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرتے ہیں تو کامیابی خود بخود حاصل ہوتی ہے۔ جیسے زمین پر کاشت کیا گیا بیج دھیرے دھیرے بڑھتا ہے، ویسے ہی ہماری محنت اور عزم بھی وقت کے ساتھ نتیجہ دیتی ہے۔ کامیابی ہمیشہ ایک دن میں نہیں آتی، بلکہ یہ مسلسل کوشش، صبر اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
قدرت کے ٹائم زون کو سمجھنا یہ بھی سکھاتا ہے کہ زندگی میں تبدیلیاں قدرتی عمل ہیں۔ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سفر رک چکا ہے یا ہم کامیابی کے قریب نہیں پہنچ رہے، لیکن قدرت کا قانون یہ ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے، اور اس وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔کامیابی صرف محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ صحیح وقت پر صحیح موقع پر محنت کی جائے۔ اس لیے قدرت کے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرنا کامیابی کا راز ہے۔ اگر آپ درخت لگانے کا سوچیں، تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اسے چند دنوں میں پھل دینے کا حکم دوں گا۔ آپ اسے وقت دیں گے اور قدرت کے عمل کو تسلیم کریں گے کہ درخت وقت کے ساتھ بڑھتا اور پھل دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح، زندگی میں ہماری محنت بھی وقت لیتی ہے۔ کبھی کبھار ہمیں جلدی یا فوری نتائج کا خواہش ہوتی ہے، لیکن اگر ہم قدرت کے اصولوں کو تسلیم کریں اور اس کے مطابق چلیں، تو کامیابی خود بخود آئے گی۔قدرت کا ٹائم زون ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کامیابی کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا، مگر یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے آنے کے وقت کو تسلیم کریں اور قدرت کے اصولوں کے مطابق اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: وقت کے ساتھ کامیابی کے کے مطابق کرتے ہیں ٹائم زون ہوتا ہے ہوتی ہے قدرت کا قدرت کے کرتا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
سیالکوٹ ایئرپورٹ کے لیے سنگ میل : پنجاب اسمبلی نے PRA سروسز ٹیکس میں چھوٹ کی قرارداد منظور کر لی
سیالکوٹ (نیوز ڈیسک)اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سیالکوٹ اور اس کے عوام نے ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ایک تاریخی پیش رفت کے طور پر، پنجاب اسمبلی نے سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پنجاب ریونیو اتھارٹی (PRA) کے تحت خدمات پر عائد ٹیکس میں چھوٹ کی سفارش کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ یہ اقدام خطے کی معاشی ترقی اور برآمدات کے فروغ کی جانب ایک نمایاں قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ اہم کامیابی معزز خواجہ منشاء اللہ بٹ صاحب کی مسلسل محنت اور قیادت کا نتیجہ ہے، جنہوں نے سیالکوٹ کے مفادات کے تحفظ اور ترقی کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی۔ اس قرارداد کی منظوری سے سیالکوٹ ایئرپورٹ کو دیگر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (PCAA) کے ہوائی اڈوں کے برابر مواقع میسر آئیں گے، جس سے نہ صرف ایئرپورٹ کی آپریشنل کارکردگی میں بہتری آئے گی بلکہ علاقائی سطح پر تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کو بھی فروغ ملے گا۔
اس موقع پر خواجہ محمد آصف صاحب کی قائدانہ رہنمائی اور مستقل تعاون پر بھی گہرے شکریے کا اظہار کیا گیا، جنہوں نے ہر قدم پر سیالکوٹ کے لیے راہنمائی اور حمایت فراہم کی۔ ان کے علاوہ دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز جنہوں نے اس اقدام کی کامیابی میں کردار ادا کیا، ان کا بھی شکریہ ادا کیا گیا۔
یہ پیش رفت نہ صرف سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے لیے ایک نیا باب کھولتی ہے بلکہ پورے خطے کے لیے ترقی، روزگار اور تجارتی مواقع کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔ سروسز ٹیکس کی اس ممکنہ چھوٹ سے خطے میں پائیدار ترقی اور معاشی خوشحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
مزیدپڑھیں:جرمنی کا ویزا، پاکستانی شہریوں کے لئے بڑا اعلان