وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہو کر سنگل ڈیجٹ پر آ گئی ہے اب اس خوشخبری پر عوام کو دل تھام کر بیٹھنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے مزید ’’چشم کشا‘‘ انکشافات سن کر ان پر شادیٍ مرگ کی کیفیت نہ طاری ہو جائے۔ تاہم یہ عقدہ کھل نہیں سکا کہ محترم وزیراعظم کو یہ طلسماتی و ہو شربا اعداد و شمار کون فراہم کرتا ہے۔
جہاں تک ایک عام آدمی کا سوال ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے۔ ہر پاکستانی اس وقت مہنگی ترین بجلی، پیٹرول اور گیس خرید رہا ہے جن کی قیمتیں وفاقی حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی بالواسطہ یا براہ راست انہی تینوں اشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف گیس پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل ہوشربا اضافہ اور دوسری جانب 50 سے زائد بلا واسطہ اور براہ راست ظالمانہ ٹیکسوں کے نظام نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اس وقت دو وقت کی روٹی پورا کرنا ایک عام پاکستانی کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ ایسے میں صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی عام عوام کی پہنچ سے بہت دور نکل چکی ہیں۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ ایسے بے سروپا دعوے کرتے وقت حکومت کے ارباب اختیار کے ماتھے پر عرق ندامت تک نہیں آتا۔ نہ جانے وہ ایسی باتیں کرنے کا حوصلہ کہاں سے لے آتے ہیں۔
دو خبروں نے بے جان حکومتی دعووں اور اصل حقائق میں موجود تفاوت کو خوب آشکار کیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق جنید نامی یوٹیلٹی سٹور کے ڈیلی ویجز ملازم نے ملازمت جانے پر خود کشی کر لی جبکہ دوسری خبر کے مطابق ہر حدود و قیود سے آزاد نیپرا کے افسران نے اپنی تنخواہوں میں کیبنٹ کی منظوری کے بغیر ہی تین گنا سے زائد اضافہ کر لیا ہے یوں ان کی تنخواہیں سپریم کورٹ کے ججز سے بھی زیادہ ہو چکی ہیں۔ یعنی کچھ افسران 30 تیس لاکھ روپے ماہانہ وصول کریں گے۔ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ کیسے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے قومی خزانے پر بیکار کریسی اور ارباب اختیار شب خون مارتے ہیں اس سے قبل یہ کام ملک کی پارلیمان بڑی مہارت سے کر چکی ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب محترم وزیراعظم اس امر کا اعتراف کر رہے تھے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے صنعت و حرفت کا پہیہ چلانا ممکن نہیں۔ جب تک کاسٹ آف پروڈکشن کم نہیں ہو گی ملیں اور فیکٹریاں نہیں چلیں گی۔ ان کی یہ بات تو درست ہے اگر بجلی اور پٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی تو کاسٹ آف پروڈکشن بھی کم ہو گی۔ ملیں اور فیکٹریاں چلیں گی، پیداوار بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ یوں بیرون ملک سے ڈالر پاکستان آئیں گے اور پاکستان آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا قرضہ اتارنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
ایسے میں یہ نوید بھی بڑے فخر سے سنائی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف کا ایک بہت بڑا وفد پاکستان آ رہا ہے جس سے اگلے 10 سال کے لیے 40 ارب ڈالر کے مزید قرضے کی راہ ہموار ہو گی۔ حقائق تو یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے مزید قرضے کا مطلب عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ۔ اس سے یہ امر بھی طشت ازبام ہو چکا ہے کہ معیشت کی بہتری کے حکومتی دعووں میں جان نہیں ہے۔ حکومت یہ جان چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے چکانے کے لیے مزید قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سارے عمل کا بوجھ پاکستانی عوام پر آئے گا بے دردی سے ان کی پیٹھوں پر مزید ٹیکسوں کی شکل میں مہنگائی کے تازیانے برسائے جائیں گے، پہلے ہی اس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لگ بھگ دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ جانیں آگے چل کر پھر کیا ہو گا۔
ایسے میں پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب خان کا کہنا ہے کہ حکومت کس کو بے وقوف بنا رہی ہے، کون سی معیشت چل رہی ہے؟ موجودہ حکومت کے دور میں 2 لاکھ سرمایہ دار اور 20 لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر جا چکے جبکہ 29 ارب ڈالر ملک سے گیا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی نہ ہونے سے سرمایہ کاری زیرو ہے، حکومت کس کو بے وقوف بنا رہی ہے، کون سی معیشت چل رہی ہے؟ حکومت کا جو شخص کہتا ہے کہ مہنگائی کم ہوئی ہے، وہ بازاروں میں میرے ساتھ چلے۔ میرا اسے کھلا چیلنج ہے آؤ میڈیا ٹیم کے ساتھ آر اے بازار یا پشاور چلتے ہیں مہنگائی میں کمی کے جھوٹے دعوے کا پول کھل جائے گا یہ صفحہ ہستی کے سب سے جھوٹے لوگ ہیں۔
خیر وفاقی حکومت کے دعوے اپنی جگہ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کے اندر مریم نواز کے اقدامات سے اشیائے خور و نوش خاص طور پر سبزی اور پھلوں کی قیمتیں یقینا کم ہوئی ہیں۔ اگرچہ اس شعبہ میں بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے پھر بھی ابھی تک تو دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر منڈی میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں کم بھی ہیں تو دکاندار اور ریڑھی فروش آج بھی منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کو اس حوالے سے نوٹس لے کر رمضان المبارک کے مہینے سے قبل اپنے میکنزم کو مضبوط کرنا چاہیے۔ چکن کا ریٹ بھی اس وقت زیادہ ہے اس سے بھی کم ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کی قیمتیں حکومت کے ہے کہ ا ا ہے کہ رہی ہے
پڑھیں:
صرف رمضان نہیں مستقل پیکیج کی ضرورت
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بغیر رمضان پیکیج لائیں گے۔ انھوں نے اس سلسلے میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔ ان ہدایات میں کہا گیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بغیر رمضان پیکیج تیار کیا جائے تاکہ کرپشن اور خراب مال کی شکایات دوبارہ سامنے نہ آئیں یہ معاملہ پہلے کی طرح نہیں چل سکتا۔
وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی اسٹورز میں کرپشن اور خراب مال کی جو بات کی ہے وہ درست ہے کیونکہ حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بڑھاتی اور رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کو مزید رقم اور سبسڈی دیتی رہی جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ پریشانی اور ذلت برداشت کرنا پڑتی تھی اور حکومت کی طرف سے عوام کو ہر سال رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے جن مراعات کا اعلان کیا جاتا تھا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ یوٹیلیٹی کارپوریشن کے افسروں اور نچلے عملے کو پہنچتا تھا۔
حکومت رمضان المبارک میں زیادہ استعمال میں آنے والی خوردنی اشیا کے کم نرخوں پر فروخت کا جو ریلیف عوام کو دینا چاہتی تھی وہ اشیا متعلقہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر نایاب ہوتیں جب کہ وہ تاجروں کو خفیہ طور فروخت کر دی جاتی تھیں ۔
وزیر اعظم کا یہ فیصلہ درست ہے کیونکہ یوٹیلیٹی اسٹورز عوام کے لیے بے مقصد ہو چکے تھے جہاں عوام کو گھنٹوں خوار ہونے کے بعد بھی مطلوبہ اشیا سستے نرخوں پر نہیں ملتی تھیں اور حکومت کو ہر سال بڑی رقم فراہم کرنے کا مقصد پورا ہونے کے بجائے یوٹیلیٹی کارپوریشن میں کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے مفت میں بدنامی ہی ملتی تھی اور یہ سلسلہ سالوں سے جاری تھا اور یوٹیلیٹی اسٹورز قومی خزانے پر بوجھ بن چکے تھے۔
اب حکومت جس نئی پالیسی کے ذریعے عوام کو ریلیف دینا چاہ رہی ہے وہ پالیسی سرکاری افسر بنائیں گے اور سرکاری عملے کے ذریعے ہی حکومت عوام کو ریلیف دلائے گی مگر حکومت کا کوئی محکمہ عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتا تو وہ سرکاری ریلیف عوام تک کیسے پہنچے گا یہ سب سے اہم سوال ہے اور حکومت کی نئی پالیسی کا حشر بھی کہیں یوٹیلیٹی اسٹورز جیسا نہ ہو جو عوام کے لیے تکلیف دہ بن چکے تھے جس کی وجہ سے حکومت کو نئی پالیسی لانے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے مگر ایسی کوئی گارنٹی نظر نہیں آ رہی کہ عوام کو حقیقی طور ریلیف مل سکے۔
ملک کے تاجروں اور اکثر ناجائز منافع خوروں نے مسلمانوں کے مقدس ترین ماہ رمضان کو اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور رمضان کی آمد سے قبل ہی رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور نرخ بڑھا دیے جاتے اور رمضان کو دنیاوی کمائی کا ذریعہ بنایا جا چکا ہے۔ رمضان میں نرخ بڑھانے کے مذموم کاروبار کے ساتھ سال بھر جمع کی گئی خراب اور مضر صحت اشیا بھی ملاوٹ کرکے فروخت کر دی جاتی ہیں جنھیں چیک کرنے کا ذمے دار محکمہ چیک ہی نہیں کرتا۔
بدقسمتی سے ملک کے بڑے تاجروں نے ہی نہیں بلکہ عام دکانداروں، پتھارے اور ریڑھی والوں نے بھی رمضان کو سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور وہ رمضان ہی کو کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے اور ایک ماہ میں گیارہ ماہ کی کمائی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھیں کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان میں کوئی انسانیت یا احساس ہے اور برسوں سے رمضان ان مسلمان کہلا کر لوٹنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
غیر مسلم ممالک کے تاجر اپنے ہر تہوار اور مسلمانوں کے مقدس ماہ کا احترام کرتے ہوئے اشیائے ضرورت کے نرخ اور فروخت عام کر دیتے ہیں مگر پاکستان جیسے اسلامی ملک کہلانے والے ملک میں اس کے برعکس ہوتا ہے کیونکہ ناجائز منافع خوروں کے نزدیک رمضان المبارک دینی کمائی کے بجائے دنیاوی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس میں مسلمان کہلانے والے ہی رمضان میں اپنے ہی مسلمانوں کو بے دردی سے لوٹتے آ رہے ہیں۔
ملک میں ایسے مخیر حضرات بھی ہیں جو زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں اور بعض ادارے اور لوگ مل کر مفت افطاری، شربت اور روزہ کشائی کا فراخ دلی سے اہتمام کرتے ہیں۔ درد دل اور رمضان کا احترام اور احساس رکھنے والے رمضان میں حقیقی بچت بازار یا ضروری اشیا خصوصاً پھل اسٹال لگواتے ہیں جہاں بازاروں سے کم نرخوں پر یہ اشیا فروخت کرائی جاتی ہیں۔
مرکزی مسلم لیگ، سیلانی فاؤنڈیشن جیسے بڑے ملک گیر اداروں کی طرح چھوٹے فلاحی ادارے اور مخیر حضرات بھی رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی لوگوں کو کسی منافع کے بغیر عوام کو ارزاں نرخوں پر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا پھل اور سبزیاں فروخت کراتے ہیں حکومت ایسے اداروں اور مخیر حضرات کے ذریعے بھی رمضان میں سرکاری ریلیف فراہم کرا سکتی ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ صرف بعض سبزیاں آلو، گوبھی، مٹر، دھنیا وغیرہ کے نرخوں میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی پیداوار ہے حکومتی اقدامات نہیں۔ صوبائی حکومتوں میں اب سندھ حکومت نے ناجائز منافع خوروں کے خلاف الگ تھانے بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی دوسروں کو بھی تقلید کرنی چاہیے تاکہ مہنگائی میں جکڑے لوگوں کو ناجائز منافع خوروں اور مہنگائی کے عذاب سے نجات مل سکے۔