کہتے ہیں کہ جب تک لالچی اور بے وقوف لوگ موجود ہیں فراڈیئے بے روزگار نہیں ہو سکتے۔ 35 برس قبل اپنے بچپن میں فراڈ کے بارے میں پہلی بار تب سنا تھا جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے ایریا میں ایک آدمی نے قسطوں پرالیکٹرونکس کے سامان کی دکان کھولی۔ چند آئٹم رکھے اور بکنگ شروع کر دی۔ ایک صبح دکان کا شٹر تالا کے بغیر دیکھ کر لوگوں کو تشویش ہوئی۔ شٹر اوپر کر کے دکان دیکھی تو خالی تھی فراڈیا بکنگ کے پیسے اور اپنا سامان لے کر غائب ہو چکا تھا۔ شاید بیس پچیس لوگ اس کا شکار بنے ہوں گے۔ لیکن انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے آنے سے آن لائن ایپس ذریعے دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی سے بھی رابطے کی سہولت نے فراڈ اور فراڈیوں کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ ایک ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں فاریکس اور کرپٹو کے ذریعے رقم دوگنی کرنے یا کسی بڑی رقم کے حصول کے چکر میں لوگ ہر سال 50 ارب ڈالر سے زائد رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ای کامرس کی جعلی ویب سائٹس اورنقلی مصنوعات سے نقصانات کا اندازہ ٹریلین ڈالرز تک جاتا ہے۔ آن لائن فراڈ کے ایسے نت نئے اور عجیب طریقے ایجاد ہو چکے کہ اب یہ کام کسی آرٹ سے کم نہیں۔ فراڈ کرنے والے باقاعدہ آرٹسٹ ہیں۔ جو معصوم لوگوں کو پہلے لالچ کے شیشے میں اتارتے ہیں اور انھیں لوٹ کر وہی شیشہ چکنا چور کر دیتے ہیں۔ میں خود بھی ان ایپس، بشمول فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر، ریڈ نوٹ، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کا بوقت ضرورت استعمال کرتا ہوں۔ اب بنیادی چیز میرا ڈیٹا، لوکیشن اور تصاویر ان ایپس پر موجود ہیں۔ کچھ پرائیویسی کے با وجود میں ان سب کی پہنچ میں ہوں۔ فراڈ گینگز جو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ تحقیقی مقصد سے میں نے کچھ ذاتی تجربات کئے ہیں جو آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ ان ایپس پر خوبصورت اور سماجی طور پر ایکٹو مغربی خواتین کی تصاویر چوری کر کے انسٹا گرام یا فیس بک پر اکاؤنٹ بنائے جاتے ہیں۔ ان اکاؤنٹس کے ذریعے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی جاتی ہے۔ ریکوئسٹ قبول کرنیکی صورت میںمیسنجر کے ذریعے بات چیت کا آغاز کیا جاتا ہے۔ فراڈ کی دنیامیں اس عمل کو فشنگ کہاجاتا ہے۔ لڑکی کے چہرے کے پیچھے چھپا مرد نہایت دلفریب اندازمیں اپنائیت جتاتا ہے۔ ایک آدھ دن میں اپنے واٹس ایپ یا ٹیلی گرام نمبر پر بات چیت جاری رکھنے کی
دعوت دیتا ہے۔ یہ نمبر عموماً امریکہ کا ہوتا ہے جس سے یہ یقین پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ خاتون امریکا یا کینیڈا سے ہے۔ پاکستانی مردوں کی اکثریت گوری چمڑی پر ہر وقت فریفتہ رہتی ہے۔ خیر وہ اپنا تعارف ایک بینک آفیسر کے طور پر کرانے کے بعد دو سے تین ملین ڈالر کے ایک ایسے لاوارث اکاؤنٹ کے بارے میں بتاتی ہے جسے کچھ ڈاکیومینٹیشن کے بعد دونوں کے درمیان نصف کی شرط پر دیا جا سکتا ہے۔ اب کسی شخص کو بیٹھے بٹھائے پندرہ لاکھ ڈالر (پونے بیالیس کروڑ روپے) مل رہے ہوں تو ایک باردماغ ضرور چکرا جاتا ہے۔ پھر کچھ جعلی ڈاکیومینٹیشن پراسیس جس پر وہ جعلی خاتون اپنی طرف سے ایک لاکھ ڈالر خرچ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس میں کئی رازداری کے مراحل بھی آتے ہیں۔ نوٹوں کی گڈیاں گننے اور پیک کرنے کی فوٹیج بھی دی جاتی ہے۔ اب یہاں مسئلہ ان پیسوں کو پہنچانے کا آتا ہے۔ کیونکہ اس رقم کو بنک کے ذریعے نہیں بھیجا جا سکتا لہٰذا اسے پہنچانے کا ذمہ ایک کارگو کا ہوتا ہے۔ یہاں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔ اب وہ مطالبہ کرتی (دراصل کرتا) ہے کہ یہ پیسے تم نے دینے ہیں۔ ساتھ میں کچھ محبت، پاکستان کی سیر کی خواہش وغیرہ وغیرہ۔ یہ رقم کوئی لگ بھگ 1500 ڈالر ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کرمیں نے اس فراڈیئے سے پوچھا کہ میں رقم تمہیں کیسے دوں تو اس نے فوراً ایک اکاؤنٹ نمبر بمعہ بینک کوڈ دیا۔ یہ مسلم کمرشل بینک کا لوکل اکاؤنٹ تھا۔ میں نے گوگل پر اس برانچ کو سرچ کیا تو یہ جی 14 اسلام آبادمیں واقع تھی اور اکاؤنٹ کسی اقبال نامی شخص کا تھا۔ جب میں نے جانچ کے سارے عمل کو مکمل کرلیا تو اس فراڈیئے کو ایک بار ویڈیوکال پر بات کرنے کی دعوت دی جو اس نے بہانہ سازی کے ذریعے قبول نہیں کی۔ خیرجب اس کا پول کھلا تو اس نے فوری طورپر وہ سوشل اکاؤنٹ بند کر دیا اور سم پر بھی بلاک کر دیا۔ لوٹنے کا ایک اور طریقہ واردات آپ نے اکثر دیکھا ہوگا۔ پاکستان میں آجکل آن لائن گھر بیٹھے روزانہ 2 ہزار سے پچاس ہزار کمائیں کے ڈیجیٹل اشتہار سامنے آتے ہیں۔ اب یہ بڑی پر کشش آفر ہے۔ کم ازکم 60 اور زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ مہینہ۔ یہ فراڈ دراز یا اس جیسی بڑی آن لائن شاپنگ ایپس کے نام پرکیا جاتا ہے۔ آپ جب رابطہ کرتے ہیں تو آپ کو ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈکیا جاتا ہے۔ جہاں معمولی ٹاسک جیسا کہ یوٹیوب چینل سبسکرائب کر کے تصویر بنا کر بھیجیں تو آپ کے جاز کیش یا ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں 300 روپے فی ٹاسک فوراً مل جاتے ہیں۔ آپ کا کانفیڈنس بڑھ جاتا ہے۔ پھر ساتویں ٹاسک کو کمیونٹی انوسٹمنٹ ٹائپ نام دے کر 5ہزار سے لے کر 40 ہزار کی انوسٹمنٹ پر 70 پرسنٹ پرافٹ کی آفرکی جاتی ہے۔یعنی 5 ہزار دو تو 8500 ملے گا۔ لیکن جیسے ہی آپ پیسے بھیجیں گے یہ اکاؤنٹ اور نمبر غائب ہو جائے گا۔ روازنہ کی بنیاد لاکھوں روپے لوگوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ بے روزگار نوجوان، خواتین اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگ ان فراڈیوں کے نشانے پر ہیں۔ ہماری ٹیلی کام (سیلولر) کمپنیوں کی ڈیٹا پروٹیکشن اور فراڈ کی کو روکنے کی صلاحیت پرپہلے بہت سے سوالات موجود ہیں۔ فیس بک اور واٹس جیسی سوشل میڈیا ایپس پر نان کسٹم پراڈکٹس کے نام پرآپ کو میسجز ملتے ہیں۔ جہاں لاکھوں کی اشیا جیسا کہ فریج،ایل ای ڈی، مہنگے آئی فون، سامسنگ کا فولڈنگ فون وغیرہ آپ کو چند ہزار میں دینے کی آفر ملتی ہے۔ اب اگر کسی کو 80 انچ کی ایل ای ڈی دس ہزار، 4 ڈور فریج 15000،سام سنگ فولڈنگ 6 آپ کو 20000 اور آئی فون 16 پرو 25000کا ملے تو انسان سوچتا ہے کہ چپکے سے یہ ساری چیزی خرید لوں۔ دینے والے کی شرط ہوتی ہے کہ کیونکہ یہ سمگلنگ کا مال ہے تو آدھی پے منٹ ایڈوانس ہو گی جس میں چمن یا کسی علاقہ غیر سے کوریئر چارجز بھی شامل ہیں۔ جیسے ہی پے منٹ ہوتی ہے سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ رقم کے ساتھ آپ کو آئی فون نہ ملنے کا دکھ بھی ہوتا ہے۔دوسرآپ شکایت بھی نہیں کر سکتے کیونکہ آپ تو سمگلنگ کا مال خرید رہے ہوتے ہیں۔ جعلی آن لائن ویب سائٹس پر خریداری بلین ڈالرز کا فراڈ ہے۔ جہاں آپکے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی معلومات ملتے ہی آپ کے اکاؤنٹ سے ساری رقم چرا لی جاتی ہے۔ اس لئے کوشش کریں کہ صرف مصدقہ ویب سائٹس کا استعمال کریں۔ مشکوک روابط سے پرہیزکریں۔ پے منٹس کے لئے سکیورٹی سافٹ وئیرز کا استعمال کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ راتوں رات امیر ہونے کی بجائے محنت اور ایمانداری پریقین رکھیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ متعلقہ اداروں ذریعے عوامی بیداری کہ مہم چلائیں۔لوگوں کو لٹنے سے بچنے کے طریقے بتائیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے ٹیلی کام آپریٹرز جو اربوں روپے سالانہ منافع کما رہے ہیں اپنے سسٹمز کو فول پروف بنائیں۔ بنک بھی اس سلسلے میں معاونت فراہم کریں۔ اصل کام ایک عام آدمی کا تحفظ ہے جو اپنے حالات بہتر کرنے کی کوشش میں لٹ جاتا ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: موجود ہیں کے ذریعے لوگوں کو ا ن لائن جاتی ہے جاتا ہے ہوتی ہے
پڑھیں:
پانی کی بوتل کے ڈھکن میں چھپا راز، نیلے، پیلے، سیاہ، سبز ڈھکن کیا پیغام دیتے ہیں؟
لاہور:منرل واٹر کی بوتلیں پینا رواج بن چکا مگر کبھی آپ نے غور کیا کہ ان کے ڈھکن مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں؟
’’نیلے‘‘ ڈھکن کا مطلب ہے، پانی معدنیات سے قدرتی چشموں سے حاصل کیا گیا۔
’’سیاہ‘‘ ڈھکن والی بوتل کا پانی القائن ہے، جسے صحت کیلئے بہترین قرار دیا جاتا ہے۔
’’پیلے‘‘ ڈھکن کے پانی میں وٹامن اور الیکٹرولائسیز شامل ہیں جبکہ سبز ڈھکن کا پانی فلیور رکھتا ہے۔
سفید ڈھکن کا پانی نلکے یا زیرزمین سے حاصل کیا جاتا ہے جس کو آلائشوں سے پاک کرنے کیلئے پروسیس کیا جاتا جبکہ سرخ ڈھکن کا پانی سپارکلنگ یا کاربونیٹڈ ہوتا ہے۔