وطن ِ ِعزیز کوکئی ایک خطرات کا سامنا ہے جن کا تدارک حکومتی ذمہ داری ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کو کئی ایک محاذوں پر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں عالمی مالیاتی اِداروں سے بروقت قرض ملنے سے دیوالیہ ہونے کے بڑھتے خطرات بڑی حد تک کم ہو ئے معاشی سرگرمیوں کی رفتار سست سہی لیکن بہتری کے آثارہیں اسی بناپر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ معیشت کو استحکام ہی نہیں ملا بلکہ ترقی کی طرف بھی رواں دواں ہے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزیدگراوٹ کا خطرہ بڑی حدتک کم ہوگیاہے عالمی مالیاتی اِداروں کے بروقت تعاون سے افراطِ زر میں بھی کمی آچکی ہے یہ مثبت اِشارے ہیں اگر حکومت نے پیش رفت جاری رکھی تو معاشی ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان جلد معاشی دلدل سے نکل سکتا ہے حکمرانوں کو چاہیے کہ پالیسیوں میں تسلسل رکھیں اور کسی کوکسی قسم کی رخنہ اندازی کاموقع نہ دیں علاوہ ازیں غربت ختم کرنا ہے تو وسائل کا رُخ اشرافیہ تک محدود رکھنے کی بجائے عام آدمی کی طرف موڑنا ہوگااورملک میں سیاسی استحکام لانا بھی ضروری ہے امن کی بحالی پر توجہ دینا ہوگی تاکہ معاشی پہیہ رواں دواں رہے یادرہے خوف ودہشت کے گہرے سائے حاصل معاشی پیش رفت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں خوش قسمتی سے اِس وقت حکومت اور اِداروں میں ہم آہنگی ہے صنعت وزراعت سمیت ہر شعبے میں مقتدرہ کا بھرپورتعاون حاصل ہے نیز فتنہ خوارج کی مکمل بیخ کنی میں پاک فوج کے کلیدی کردارکا ہرسطح پر اعتراف کیا جارہا ہے جس سے خوشحال و مستحکم پاکستان کی منزل حاصل کرنا ممکن لگنے لگاہے۔
فتنہ خوارج کی سرگرمیاں ملک کا اہم مسئلہ بن چکی ہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اِس فتنے کو انجام تک پہنچانے کے حوالے سے آمادہ و تیار ہیں اُن کی سنجیدگی اور یکسو ئی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو وہ ملکی بقاو سلامتی کے لیے ناگزیر تصور کرتے ہیں اگر ماضی میں بھی ایسی ہی سنجیدگی اور یکسوئی کا مظاہرہ کیا جاتا تو آج ملک دہشت گردی اور بدامنی کے عفریت سے نہ صرف چھٹکارہ پا چکاہوتا بلکہ معاشی استحکام کی منزل بھی حاصل کر چکا ہوتاخیر اب بھی تاخیر کا مداوا ممکن ہے اگر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں جنرل عاصم منیر کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ہمہ گیر پہلوئوں پر اِس اندازمیں کام کررہے ہیں جس سے نہ صرف دہشت گردوں خاتمہ ہو بلکہ دہشت گردی کی جڑیں بھی ہمیشہ کے لیے کاٹ دی جائیں پاک فوج کے بہادر جوان نقصانات کو خاطر میں لائے بغیر سُرعت سے دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو نشانہ بنا ر ہے ہیں دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کی چیخیں ظاہرکرتی ہیں کہ پاک فوج کی کارروائیاں اور نشانے درست ہیں۔
سیاسی عدمِ استحکام سے فتنہ خوارج کو سازگار ماحول ملا اور انھوں نے انسانی جانوں اور املاک کو بے دریغ نشانہ بنانا شروع کر دیا اِس دوران کچھ ناراض سیاسی عناصر نے فوج پر دشنام طرازی شروع کردی ایسا عمل کسی طور حب الوطنی کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دشمن کو دشمن اوردشمن کے دوست کو بھی د شمن سمجھناہی حب الوطنی ہے دشمن سے مقابلے کے لیے سیاسی اختلاف ِ رائے کو وقتی طور پر بالائے طاق رکھنا چاہیے مگر سوشل میڈیا پر کچھ سرگرم سیاسی کارکنوں نے حوصلہ افزائی کی بجائے اپنی فوج کوہی نشانے پر رکھ لیا جس سے دہشت گردی میں ملوث عناصرکے لیے خود کو مظلوم ثابت کرنے کابیانیہ بنانے میں مددملی حالانکہ محرومی بھی کسی صورت دہشت گردی کا جواز نہیں محرومیوں اور مظلومیت کا لبادہ اُڑھ کر دہشت گردی کرنے والے اغیارکے کارندے اور ناسور ہیں اسلام کے نام پر اسلامی ریاست کے خلاف ہتھیاراُٹھاناجب حرام ہے تو ایسے فتنوں کونابود کرناہی محب الوطنی ہے پاک فوج کا عزم پاکستانیوں کی امنگوں کے عین مطابق ہے خوشی کی بات یہ ہے کہ ایسے ماحول میں جب سوشل میڈیا پر سرگرم کچھ عناصر عسکری قیادت پر دشنام طرازی میں مصروف ہیں تو پاک فوج کی تائید میں بھی خاصی بڑی تعداد میں رضاکارانہ کام کرنے والے فعال نظر آنے لگے ہیں یہ عوامی حمایت بہت حوصلہ افزا ہے فتنہ خوارج کے خاتمے میں پاک فوج کی بڑھتی عوامی حمایت اِس امر کی عکاس ہے کہ ملک کی غالب اکثریت پاک فوج سے نہ صرف پیار کرتی ہے بلکہ اِس اِدارے کا احترام کرتی ہے اور وطن دشمن عناصر کی سرکوبی پر تمام مکاتبِ فکر متفق ہیں اور فتنہ خوارج کے خلاف کارروائیوں میں عسکری قربانیاں اور کردار تسلیم کرتی ہے یہ جذبہ ظاہر کرتا ہے کہ بیرونی یا اندرونی عوامل عوام اور فوج میں خلیج پیداکرنے جیسی اپنی مذموم سازشوں میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
یہ ثابت ہو چکا کہ بلوچستان اور کے پی کے میں جاری دہشت گردی اندرونی اور بیرونی عوامل کی مرہونِ منت ہے محرومی اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھے کچھ ناراض اور راہ گم کردہ عناصر بیرونی پشت پناہی سے ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہے ہیں اگردہشت گردوں کوحاصل بیرونی پشت پناہی ، وسائل کی فراہمی اورتربیت کے ساتھ اندرونی سہولت کاری کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو پاکستان امن وآشتی کا گہوارہ بن سکتا ہے لیکن افغان حکمران طالبان کا مطمع نظر دولت ہے بھارت جیسا پاکستان کا ازلی دشمن طالبان کی جبلت سے آشنا ہے وہ کشمیر میں جاری اپنی کارروائیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو غیر مستحکم کرناچاہتا ہے اِس مقصدکے لیے دولت کے حریص طالبان کی اُسے معاونت حاصل ہے ایک سے زائد بار افغان شہریوں کا دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونا معاونت کی تصدیق اور بھارت و طالبان کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتا ہے اِن حالات کا تقاضا ہے کہ پاک فوج ہر پہلو کو ذہن میں رکھ کر منصوبہ بندی کرے جنرل عاصم منیر نے رواں ہفتے قوم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی جس کا تمام مکاتبِ فکر کی طرف سے حوصلہ افزاردِ عمل آیا ہے اور واضح ہوگیاکہ قوم کو پاک فوج کی قربانیوں کا مکمل ادراک اوراحترام ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ فتہ خوارج کوعبرتناک انجام سے دوچار کرنے کا عمل جاری رکھاجائے اور ناراض عناصر کو بھی قومی دھارے میں لایا جائے کیونکہ اگرمعاشی طورپر مضبوط و مستحکم ہوناہے تو امن ناگزیرہے خوف اور دہشت گردی کے ماحول میں معاشی سرگرمیوں کوجاری نہیں رکھا جا سکتا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: فتنہ خوارج پاک فوج کی کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی سپورٹ بند کرے، غزہ میں جنگ بندی کرائے، حافظ نعیم الرحمن
امیر جماعت نے کہا کہ 22اپریل کو آب پارہ سے امریکی ایمبیسی کی طرف مارچ ہوگا، حکومت جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش نہ کرے، فیملیز اور بچوں کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا۔ وائٹ ہاس کے سامنے احتجاج ہوسکتا ہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیوں نہیں ہوسکتا؟ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 20اپریل کو اہل فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسلام آباد میں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہوگا، 22 اپریل کو پورے پاکستان میں ہڑتال کی جائے گی، دنیا بھر کی اسلامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے میں ہیں، یقین ہے کہ اسی روز عالمی سطح پر بھی متفقہ احتجاج کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان میں غزہ مارچ کر رہے ہیں۔ امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی سپورٹ بند کرے، غزہ میں جنگ بندی کرائے۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کہتا ہوں امریکا سے نہ ڈریں۔ ملک کی حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے لائن لگا کر نہ کھڑے ہوں۔ قوم سے ان تمام مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں جس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جانتے ہیں ملک میں مشکل حالات ہیں، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس کے باوجود بھی ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ غزہ میں اپنے بہن بھائیوں کے لیے آواز اٹھائیں، پورا کے پی اور شمالی پنجاب اسلام آباد مارچ میں شرکت کرے، جنوبی پنجاب کے عوام جمعہ کو ملتان پہنچیں، تمام تاجر تنظیمیں ہڑتال کے لیے متفق اور متحد ہو جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
امیر جماعت نے کہا کہ 22اپریل کو آب پارہ سے امریکی ایمبیسی کی طرف مارچ ہو گا، حکومت جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش نہ کرے، فیملیز اور بچوں کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا۔ وائٹ ہاس کے سامنے احتجاج ہوسکتا ہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیوں نہیں ہوسکتا؟ فلسطینیوں کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کر ے گا،اگر ہم احتجاج چھوڑ دیں تواس سے اسرائیل نواز قوتوں کی مدد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ پوری قوم غزہ کے عوام کے لیے نکل رہی ہے،لاہور اور کراچی میں تاریخی احتجاج ہوئے، لوگ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور اس نفرت کی زد میں پاکستان میں موجود امریکا کے غلام بھی آچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے اسرائیل غزہ میں بچوں کا نشانہ لے کر ان کو قتل کررہاہے یہ سفاک دشمن ہے ان کو خون پسند ہے نہتے لوگوں پر بم گرانا پسند ہے،اس سب میں امریکہ اسرائیل کی سرپرستی کررہاہے،امریکہ کی تعمیر میں ریڈ انڈین کا خون شامل ہے،امریکہ نے جاپان پر بم پھینکے ہیں، امریکہ دنیا بھر میں حکومتوں کے تختے الٹتا ہے، امریکہ نے الجزائر میں جمہوری حکومت کو بننے نہیں دیا، حماس کی حکومت غزہ میں بننے نہیں دی گئی،اسرائیل کے خلاف حماس قانونی حق استعمال کررہاہے قابض فوج سے اسلحہ سے لڑا جاسکتا ہے، حماس کو کہا جارہاہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے یہ کبھی نہیں ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ مسلم حکمرانوں کو سامنے آنا ہوگا، اسرائیل کو امریکہ اور مسلم حکومت نے طاقت دی ہے، جنگ میں ہارنے کے بعد وہ بچوں کو مار رہا ہے۔ پاکستان لیڈنگ رول ادا کرے، فوجی سطح پر بھی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ورنہ سب کا نمبر آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں امریکہ کی مذمت کیوں نہیں کررہی ہیں جو پاکستانی اسرائیل گئے، ان کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ہے، ہمیں بتایا جائے،حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خون کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔ فلسطینیوں کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا، اگر ہم احتجاج چھوڑ دیں تو اسرائیل نواز قوتوں کی مدد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان، ترکی اور سعودی عرب پر مزید دبا ڈالا جا سکتا ہے، اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہ کیا جائے، بلکہ وہ ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں انھیں بھی اپیل کی جائے کہ صہیونی ریاست سے تعلقات منقطع کریں۔