قومی سیاست کو عمران خان سے پاک کئے بغیر…
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
بلاول بھٹو زرداری قومی سیاست میں ایک نوجوان کردار کے طور پر بڑے احسن طریقے سے آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے بیانات، ان کی تقاریر متوازن اور مناسب ہی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہوتی ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے فکری و نظری کردار کے احیاء کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں عمران خان ایک اہم سیاستدان، لیڈر، کلٹ رہنما کے طور پر اپنا آپ منوا چکے ہیں۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2011ء میں مینار پاکستان کے جلسے تک پھر 2018ء میں حکومت میں آنے اور اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں رخصتی تک عمران خان اپنی سیاسی عمر پوری کر چکے ہیں۔ انہوں نے جو کہا، جو کیا، جو بویا وہ قوم دیکھ چکی ہے۔ اب وہ مکافات عمل کا شکار ہیں۔ چلا رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، ریاست کو بددعائیں دے رہے ہیں، اسے ناکام بنانے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد وحید انتشار، انتشار اور صرف انتشار ہے۔ بات ہو رہی تھی قومی سیاست کے ایک نوجوان کردار، بلاول بھٹو کی۔ جی ہاں ان کا ایک حالیہ بیان انتہائی اہم اور فکر انگیز بھی ہے اور ان کی سیاسی بصیرت کا اظہار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران سے جمہوری کردار کی امید نہیں، پاکستان کی سیاست کو ان سے پاک کرنا ہوگا۔ آج ملک کا نوجوان مایوس ہے تو اس میں بانی پی ٹی آئی کا کردار ہے۔‘‘
بلاول بھٹو نے کیا خوب بات کی ہے کہ عمران سے جمہوری کردار کی امید نہیں ہے۔ عمران خان کا سیاست میں آنے سے پہلے بطور کرکٹر اور ٹیم کیپٹن کردار دیکھ لیں۔ اس میں رعونت، ڈکٹیٹر شپ، من مانی جیسی صفات نظر آئیں گی۔ 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام کی تاریخ دیکھیں تو اس کے قیام میں ہماری اس وقت کی فوجی جنتا شامل تھی۔ شاید تحریک انصاف کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی ایک فوجی جرنیل ہی تھے، انہیں بنانے، چلانے اور اقتدار میں لانے والے سب فوجی کردار ہی تھے۔ انہیں سیاست فوجیوں نے سکھائی۔ جنرل پاشا سے لے کر جنرل فیض حمید تک، ان کے سارے ذہن ساز فوجی جرنیل ہی تھے۔ ان کی ذہنی ساخت اور سیاسی تربیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سے جمہوری کردار کی امید نہیں ہے۔ عمران خان روز اول سے ہی نفرت و انتشار کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ ہر ایک پر تنقید، ہر ایک کے خلاف نفرت انگیزی، طعن و تشنیع اور گالم گلوچ کرنا عمران خان کا وتیرہ رہا ہے۔ پارلیمان میں آنے کے بعد بھی انہوں نے بطور اپوزیشن صرف گالم گلوچ کا وتیرہ ہی اپنائے رکھا۔ شہبازشریف اور دیگر جماعتوں کے قائدین سے ہاتھ ملانا تک گوارہ نہیں کیا۔ میاں نوازشریف ہوں یا شہبازشریف، آصف علی زرداری، محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان۔ انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔ ہر ایک کا نام لے لے کر تضحیک کی۔ عمران خان غیرملکی صہیونی عناصر کے ایجنٹ کے طور پر سیاست میں لائے گئے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید مرحوم و مغفور نے کہا تھا اور اس وقت کہا تھا جب عمران خان کا سیاست میں آنے کا دور دور تک امکان نہیں تھا پھر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بچہ جمورا بن کر اقتدار میں آئے۔ انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کو کمزور کریں گے، ہر شئے برباد کریں گے، وہ ایسا کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ہر سطح پر تفریق کے ایسے بیج بوئے ہیں کہ وہ اب برگ و بار لا رہے ہیں۔ انہیں ذمہ داری دی گئی کہ وہ سیاست دانوں کی مٹی پلید کریں۔ انہوں نے یہ کردار انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی انہوں نے یہ کردار بطریق احسن نبھایا ہے۔ انہوں نے کسی ایک کو بھی نہیں بخشا کہ جس کی پگڑی نہ اچھالی ہو، سرعام رسوا نہ کیا ہو۔ اپریل 2022ء میں اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے اپنی محسن، مربی اور مددگار عسکری اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھ لیا ہے۔ ویسے تو ان کا روز اول سے ہدف ہی فوج تھی اور اب بھی ہے، انہیں سیاست میں لانے کا مقصد وحید ہی پاکستان کو کمزور کرنا تھا اور ایسا کرنے کے لئے فوج کو کمزور کرنا ضروری ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی دیوار کھڑی کئے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ڈیوٹی بڑی تندہی سے انجام دے رہے ہیں اس لئے بلاول بھٹو کا کہنا کہ عمران سے جمہوری کردار کی کوئی امید نہیں، سو فیصد درست نظر آتا ہے۔ اگر پاکستان میں جاری سیاست کو درست سمت میں لے جانا ہے تو پاکستانی سیاست کو عمران خان سے پاک کرنا ہوگا، بالکل درست ہے۔ باقی یہ مذاکرات، یہ ڈیل کی باتیں وغیرہ وغیرہ سب ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ عمران خان اپنے دیئے گئے ہدف پر لگا ہوا ہے وہ جیل میں ہو یا بنی گالہ اور زمان پارک میں، اسے ملک سے باہر بھی بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہ سیاست میں گندگی اور غلاظت پھیلاتا رہے گا کیونکہ اسے مامور ہی اس کام کے لئے کیا گیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ قومی سیاست کو عمران خان سے پاک و صاف کر دیا جائے۔
جہاں تک نوجوانوں میں ناامیدی اور مایوسی کی بات ہے تو اس میں دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی، سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت، پاکستان کا چار دہائیوں سے افغان جنگوں میں فرنٹ لائن ریاست کا کردار، دہشت گردی کا فروغ اور ایسے ہی دیگر عوامل نے عمومی صورتحال کو دھندلا دیا ہے۔ ریاست اپنا کردار درست انداز میں ادا نہیں کر پائی ہے۔ ایسے ہی عوامل نے مل جل کر نوجوانوں میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔ ایسی صورتحال عمران خان کے پاکستان دشمن ایجنڈے کے لئے انتہائی سازگار ثابت ہوئی۔ عمران خان نے اپنے زور خطابت، سوشل میڈیا نیٹ ورک اور بیرون ممالک روابط کے ذریعے پاکستان کے ناکام ریاست کے تصور کو اجاگر کیا اور نوجوانوں میں جاری نظام کے خلاف نفرت پیدا کی جب 2018ء میں عمران خان خود حکومت میں آئے تو 44ماہی دور حکمرانی میں نوجوانوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جس سے نوجوانوں میں مایوسی اور بھی بڑھی۔ آج صورتحال ایسی ہے کہ 24کروڑ عوام میں 67فیصد 30سال اور اس سے کم عمر کے نوجوان ہیں۔ ریاست نے انہیں کوئی مثبت بیانیہ نہیں دیا۔ عمرانی بیانئے کے سحر میں انہیں شدید مایوسی کا سامنا ہے۔ اسی عامل کی طرف بلاول بھٹو نے نشاندہی کی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف عمرانی سیاست سے نوجوانوں کو باخبر کیا جائے بلکہ انہیں مثبت بیانئے کی طرف لایا جائے، انہیں ملک و قوم کی تعمیر کیلئے آمادہ پیکار کیا جائے لیکن سب سے پہلے انہیں امید دلائی جائے، حوصلہ دیا جائے، قومی سیاست کو عمران خان سے پاک کیا جائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سیاست کو عمران خان سے پاک ان سے جمہوری کردار کی نوجوانوں میں بلاول بھٹو قومی سیاست سیاست میں امید نہیں ان سے پاک انہوں نے رہے ہیں کے لئے
پڑھیں:
سائنس نہیں سیاست کے باعث سنیتا ولیمز اور بَچ وِلمور خلا میں اٹکے ہوئے ہیں، ایلون مسک
ٹیسلا، ایکس اور اسپیس ایکس کے مالک اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستِ راست ایلون مسک نے کہا ہے کہ سُنیتا ولمیمز اور ساتھی خلاباز بَچ وِلمور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اٹکے ہوئے ہیں تو اِس کی ذمہ دار سائنس ہیں بلکہ سیاست ہے۔ سابق صدر جو بائیڈن نے اس حوالے سے وہ سب کچھ نہیں کیا جو ہر حال میں کیا جانا چاہیے تھا۔ اِن دونوں خلابازوں کی واپسی میں مضحکہ خیز حد تک تاخیر ہوچکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایلون مسک نے کہا کہ سابق صدر بائیڈن نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ سنیتا وِلیمز اور بَچ وِلمور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں پھنس کر رہے گئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ چلی تھی۔ اب سرد جنگ کا دائرہ خلا تک پھیل گیا ہے۔ زمین کی سیاست خلائی معاملات میں بھی جھلک رہی ہے۔ اس بار معاملہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن اور ارب پتی آجر ایلون مسک کے درمیان ہے۔ ایلون مسک کو صدر ٹرمپ نے حکومتی اداروں اور محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اخراجات گھٹانے والے ادارے DOGE کا سربراہ بنایا ہے۔ ایلون مسلک اپنے منصب کو توپ کا درجہ دے کر جس تِس پر گولا باری کر رہے ہیں۔ اب جو بائیڈن اِس توپ کے نشانے پر ہیں۔ ایلون مسک اُن پر تنقید کرتے رہے ہیں، اب لہجہ تلخ تر ہوتا جارہا ہے۔