ویب ڈیسک — 

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ سیکیورٹی فورسز نے افغانستان سے ملحق ایک ضلع میں کارروائی کے دوران” کم از کم 30 شر پسند وں” کو ہلاک کر دیا ہے۔”

منگل کے روز جاری فوجی بیان میں کہا گیا کہ یہ ہلاکتیں جنوبی وزیرستان کے علاقے سروراکا میں عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر رات بھر کے دوران کی جانے والی ایک کارروائی میں ہوئیں۔ یہ آپریشن انٹیلیجینس کی اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔

ہلاک ہونے والے افراد کو ’’خوارج ‘‘ قرار دیا گیا ، جو حکومت کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا عسکریت پسند گروپ ٹی ٹی پی کے ارکان کے لیے استعمال کی جانے والی ایک مقامی اصطلاح ہے ۔

ٹی ٹی پی نے ان جھڑپوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، اور تشدد سے متاثرہ ضلع میں آزاد ذرائع سے حکومتی دعوؤں کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔




وزیرستان کے علاقے اور افغان سرحد کے ساتھ واقع قریبی اضلاع میں پاکستانی فوجیوں، پولیس افسروں اور مختلف سرکاری اداروں کو تقریباً روزانہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ہدف بنا کرکیے گئے حملوں کا سامنا ہوتا ہے ، جن میں سے بیشتر کی ذمہ داری ٹی ٹی پی قبول کرتی ہے۔

تشدد کے ان واقعات میں 2025 کے صرف پہلے دو ماہ میں درجنوں پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ جوابی کارروائیوں میں حالیہ دنوں میں اہم عسکریت پسند کمانڈروں سمیت ٹی ٹی پی کے متعدد کارندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی، جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج کیا گیا ہے، سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں اور تربیتی کیمپوں کا استعمال کرتی ہے۔

کابل میں طالبان حکومت جسے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے ، پاکستان کے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔




گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کے خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے ملک کے اندر اور افغان سرزمین سے اپنے حملوں میں "نمایاں اضافہ” کر دیا ہے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کابل "ٹی ٹی پی کو لاجسٹک اور کارروائیوں کے لیے جگہ اور مالی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔” رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عسکریت پسند گروپ نے افغانستان کے صوبوں کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے ہیں، جبکہ ٹی ٹی پی کے عملے کی بھرتیوں میں اضافہ کیا ہے جن میں افغان طالبان بھی شامل ہیں۔

طالبان حکومت نے اقوام متحدہ کے نتائج کو "غلط” اور حقیقت کے برعکس قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: عسکریت پسند کی جانب سے ٹی ٹی پی کہا گیا گیا ہے

پڑھیں:

سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ جمعے کو افغانستان میں چار افراد کو دی گئی سزائے موت کو اسلامی شریعت کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے ان چار افراد کو سرعام دی گئی سزائے موت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ سزائیں سن 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک ہی دن میں دی جانے والی موت کی سب سے زیادہ سزاؤں میں سے تھیں۔ موت کی سزائیں کب اور کہاں دی گئیں؟

افغانستان کی سپریم کورٹ نے چار افراد کو قتل کے جرم میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقتولین کے اہل خانہ نے ملزمان کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ سزائیں گزشتہ جمعے کو تین مختلف صوبوں نمروز، فراہ اور بادغیس کے اسٹیڈیمز میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے دی گئیں۔ طالبان کے جنگجوؤں نے بندوقوں سے فائرنگ کر کے ان سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔

اخوندزادہ کا موقف

اتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اخوندزادہ کا ایک 45 منٹ کا آڈیو پیغام جاری کیا، جو انہوں نے جنوبی صوبے قندھار میں حج انسٹرکٹرز کے ایک سیمینار کے موقع پر دیا تھا۔

اخوندزادہ نے کہا، ''ہمیں نظم و ضبط کے لیے اقدامات کرنے، نمازیں پڑھنے اور عبادات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام صرف چند رسومات تک محدود نہیں، یہ الہٰی احکام کا ایک مکمل نظام ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے لوگوں کو نماز کے ساتھ ساتھ سزاؤں پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا ہے۔ اخوندزادہ نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اقتدار یا دولت کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ ان کا مقصد ''اسلامی قانون کا نفاذ‘‘ ہے۔

انہوں نے ان سزاؤں پر عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی قوانین کی افغانستان میں ضرورت نہیں۔ سزاؤں پر عالمی ردعمل

اقوام متحدہ کی امدادی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی ''واضح خلاف ورزی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی سطح پر سزائیں خوف پھیلانے اور طالبان کے سخت گیر نظریے کو مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔

یو این اے ایم اے نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے شفاف عدالتی کارروائی، منصفانہ مقدمات اور ملزمان کے لیے قانونی نمائندگی کے حق کی ضرورت پر زور دیا۔

گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان سزاؤں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ انسانی وقار اور حق حیات سے بنیادی طور پر متصادم ہیں۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو ''شدید پریشان کن‘‘ اور ''بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔

اس تنظیم کی افغانستان ریسرچر فرشتہ عباسی نے کہا کہ یہ واقعات عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک آزاد احتسابی نظام قائم کرے تاکہ ''ان غیر قانونی اقدامات کے ذمہ داروں‘‘ کو جواب دہ بنایا جا سکے۔ طالبان کی سابقہ پالیسیاں

اخوندزادہ نے سن 2022 میں ججوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی شریعت کے تحت حدود اور قصاص کی سزاؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں۔

نومبر 2022 میں لوگر صوبے میں 12 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے، جو طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اس طرح کی سزا کا پہلا مصدقہ واقعہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے پہلے دور (1996-2001) میں بھی عوامی سطح پر دی جانے والی سزائیں عام تھیں اور موجودہ پالیسیاں اسی طرز کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں۔ عالمی تعلقات پر اثرات

اخوندزادہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب طالبان مغربی ممالک سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکہ نے طالبان کے تین سینئر رہنماؤں بشمول وزیر داخلہ، جو ایک طاقتور نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، کے سروں کے لیے رکھی گئی انعامی رقوم ختم کر دی تھیں۔ رواں سال طالبان نے چار امریکی شہریوں کو رہا کیا، جنہیں وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی ''نارملائزیشن‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی سطح پر سزاؤں نے طالبان کی ممکنہ بین الاقوامی قبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔

افغان عوام کے خدشات

افغانستان میں طالبان کے سخت گیر قوانین کے باعث خواتین کے حقوق، تعلیم اور آزادیوں پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ طالبان رہنما اخوندزادہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی ہے اور خواتین کی عوامی مقامات تک رسائی بھی محدود ہو چکی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • وزیر صحت مصطفی کمال کا آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی
  • جنوبی وزیرستان: مغوی پولیس اہلکاروں کی لاشیں مل گئیں
  • مصطفیٰ کمال نے آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعوی کردیا
  • جنوبی وزیرستان سے اغوا کئے گئے 2پولیس اہلکار قتل
  • مصطفی کمال کا آٹھ ماہ میں پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کا دعویٰ
  • اترپردیش میں مسلم لڑکی کا برقعہ زبردستی اتارا گیا، 6 ہندو انتہا پسند گرفتار
  • امریکی ٹیرف، پاکستانی برآمدات کے حجم میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی کمی کا خدشہ
  • یہ بھکاری ’’ ترقی ‘‘ کی جانب گامزن
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • متنازعہ وقف بل کے باعث پورا بھارت ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا