WE News:
2025-02-20@22:19:49 GMT

ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

معاصر دنیا میں معیشت اور سیاست کا نظام ’فرضی شخصیت‘ کے تصور پر کھڑا ہے۔ ’کمپنی‘ ہی کو لے لیجیے جو قانون کی نظر میں ایک فرضی شخص ہے۔ ایک عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ شیئر ہولڈر کمپنی کے اثاثوں کے مالک ہوتے ہیں جبکہ قانون کی نظر میں اثاثوں کی مالک خود کمپنی  ہی ہوتی ہے۔ کمپنی کو ’کارپوریشن‘ بھی کہا جاتا ہے۔’ریاست‘ بھی قانون کی نظر میں ایک کارپوریشن ہے یعنی ایک فرضی وجود جسے بین الاقوامی قانون شخص مان کر اس پر ذمہ داریاں عائد کرتا اور اس کے لیے حقوق تسلیم کرتا ہے۔ فرضی شخصیت کا نظام چلانے والے افراد، جو ’حقیقی شخصیت‘ رکھتے ہیں،’فرضی شخصیت کے پردے‘ (corporate veil) کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں۔ جب تک دھوکا دہی یا کسی اور سنگین جرم کے باعث فرضی شخصیت کا یہ پردہ قانون چاک نہ کردے، اس کے پیچھے چھپے حقیقی اشخاص قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر

مغربی بین الاقوامی قانون کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار ریاست کی فرضی شخصیت کا پردہ چاک کرکے بعض ریاستی عہدیداروں پر فوجداری مقدمات چلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ٹوکیو (جاپان) اور نورمبرگ (جرمنی) میں ’بین الاقوامی فوجداری ٹریبیونل‘ قائم کیے گئے۔ تاہم چونکہ یہ ٹریبیونل ان ریاستوں نے بنائے تھے جو جنگ میں فاتح تھے اور ان میں صرف ان ریاستوں کے عہدیداروں پر مقدمات چلائے گئے جنہیں جنگ میں شکست ہوئی تھی اس لیے کئی اہل علم نے اس عمل کی اخلاقیات پر کئی سوالات اٹھائے۔ (مولانا مودودی نے اسے ’مفتوح فاتح کی عدالت میں‘ کا معنی خیز عنوان دیا تھا۔) تقریباً نصف صدی بعد اس عمل کی اخلاقی حیثیت نسبتاً بہتر ہوئی جب 1990ء کی دہائی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے سابق یوگو سلاویا کے لیے اور پھر روانڈا کےلیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبیونل بنائے۔ اس کے بعد بعض ریاستوں نے 1998ء میں اقوامِ متحدہ سے باہر ’معاہدۂ روم‘ کے ذریعے ساری دنیا کےلیے ’بین الاقوامی فوجداری عدالت‘ قائم کی۔ 60 ریاستوں کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق  کے بعد اس عدالت نے جولائی 2002ء میں کام شروع کیا۔ اس عدالت نے بعض ریاستی اور حکومتی سربراہان کے خلاف بھی مقدمات سنے اور گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں (ماضی میں سوڈان کے صدر عمر البشیر ؛ تازہ ترین مثال اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی ہے)۔

ان ریاستی یا حکومتی عہدیداروں کے خلاف کارروائی ’بین الاقوامی فوجداری قانون‘ کے ذریعے ریاست کی فرضی شخصیت کا پردہ چاک کرنے کے بعد ہی ممکن ہوئی۔ جب تک یہ پردہ برقرار رہا، قانون ان افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا تھا۔ اسی طرح اگر کمپنی دیوالیہ ہوجائے تو کمپنی کے ڈائریکٹروں یا شیئر ہولڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی اور ان کی ذمہ داری محدود ہوتی ہے۔

معاصر دنیا کے قانونی نظام کی درست تفہیم کےلیے ’فرضی شخصیت‘ کی طرح اس ’محدود ذمہ داری‘ کے تصور کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے درج ذیل مثال پر غور کریں:

مزید پڑھیے: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات

نجم اور ثاقب نے شراکت کا کاروبار شروع کیا اور اسے ’النجم الثاقب فرم ‘ کا نام دیا لیکن اس فرم کے پاس سرمایے کی کمی تھی۔ چنانچہ ’النجم الثاقب فرم‘ نے شمس کو شراکت میں حصہ دار بننے کی دعوت دی ۔ شمس نے کہا: ’میں کاروبار میں شراکت نہیں کرسکتا اور نہ ہی تمہارے خسارے میں حصہ دار بننا چاہتا ہوں؛ لیکن تم میرے دوست ہو؛ اس لیے میں تمہیں 50 لاکھ روپے قرض کے طور پر دے سکتا ہوں جس پر میں سود نہیں لوں گا؛ لیکن جب تمہارا منافع ہو تو اس منافع میں 7 فیصد مجھے بھی دو۔‘ اس تجویز کو نجم اورثاقب نے قبول کیا۔ اتنے میں ان کا ایک اور دوست قمر بھی پہنچ گیا۔ اسے جب اس معاملے کا علم ہوا تو اس نے بھی انہی شرائط پر نجم اور ثاقب کو 25 لاکھ روپے فراہم کرنے کی ہامی بھری۔

قانون کی نظر میں شمس اور قمر میں کوئی بھی’النجم الثاقب فرم‘ میں شریک نہیں ہے، نہ ہی ان میں کوئی اس فرم کے اثاثوں کا مالک ہے۔ اسی طرح شمس اور قمر آپس میں بھی شریک نہیں ہیں۔ اسلامی قانون کی رو سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ وہ دونوں اس فرم کے خسارے کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، اس لیے منافع میں جو حصہ لے وہ رہے ہیں وہ ’ربا‘ ہے۔ اب اسی مثال کو تھوڑا تبدیل کرتے ہیں۔

نجم اور ثاقب نے شراکتی کاروبار کرنے کے بجاے’النجم الثاقب کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ بنا لی۔ جب شمس اور قمر کو خبر ہوئی تو شمس نے اس کمپنی کے 50 لاکھ کے شیئر جبکہ قمر نے 25 لاکھ کے شیئر خرید لیے۔ منافع ہوا تو تمام اخراجات کی ادائیگی کے بعد شمس اور قمر دونوں کو ان کے شیئرز کے حساب منافع دیا گیا۔ کیا یہ صورت پچھلی صورت سے مختلف ہے؟

قانون اس معاملے کو یوں دیکھتا ہے کہ شمس اور قمر نے ’النجم الثاقب کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ نام کے ایک ’شخص ‘ کو انہی شرائط پر رقم دی جن پر پہلی صورت میں انہوں نے نجم اور ثاقب نامی ’2اشخاص‘  کو رقم دی تھی۔ پس جیسے پہلی صورت میں حاصل ہونے والا منافع ربا تھا، بعینہ اسی طرح اس صورت میں حاصل ہونے والا منافع بھی ’ربا ‘ ہے۔  اہم بات یہ ہے کہ اس منافع کے ربا ہونے کی بنیادی وجہ کمپنی کو’شخص‘ ماننا ہے۔

بعض لوگوں کو یہاں یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہےکہ شیئر ہولڈر ’اپنے شیئر کی حد تک‘ کمپنی کے خسارے کے لیے ذمہ دار ہوں گے اور وہ اسی کو ’محدود ذمہ داری‘ سمجھتے ہیں۔ اس غلط فہمی کی توضیح کےلیے پچھلی مثالوں  کی روشنی میں غور کریں:

مزید پڑھیں: 26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی

نجم اور ثاقب نے شراکت کا کاروبار شروع کیا اور اس ’النجم الثاقب فرم‘ میں شمس نے شریک بننے سے تو گریز کیا لیکن 50 لاکھ روپے قرض اس شرط پر دیے کہ اسے اس منافع میں 7 فیصد دیا جائے۔ نجم  اور ثاقب نے اپنی فرم کے لیے ایک دکان سے کچھ سامان خرید لیا جس کی قیمت کی ادائیگی 6 مہینوں میں کرنی تھی۔ بدقسمتی سے ’النجم الثاقب فرم‘  کا کاروبار خسارے کا شکار ہوا  اور اس کے پاس ادائیگی کے لیےرقم باقی نہیں رہی۔  کیا اس صورت میں دکان دار اس رقم کی ادائیگی کے لیے شمس سے مطالبہ کرسکتا ہے؟  ہر گز نہیں کیونکہ دکان دار نے سامان نجم اور ثاقب کو دیا تھا، نہ کہ شمس کو اور شمس تو ’النجم الثاقب فرم‘ میں شریک ہی نہیں  تھا۔ اس لیے اس فرم کے قرض خواہوں کے سامنے اس کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔

اب اس دوسری مثال پر غور کریں جس میں نجم اور ثاقب نے شراکتی کاروبار کرنے کے بجاے ’النجم الثاقب کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ بنائی۔ فرض کریں کہ شمس نے اس کمپنی کے 50 لاکھ کے شیئر خرید لیے اور ان کی قیمت بھی ادا کردی۔ اس کے ایک اور دوست طارق نے 25 لاکھ کے شیئر خرید لیے لیکن صرف 20 لاکھ کی ادائیگی کردی جبکہ 5 لاکھ کے شیئر کی قیمت اس کے ذمہ واجب الادا رہ گئی۔ اس کمپنی نے کاروبار کی غرض کے لیے قمر سے سامان خریدا اور طے ہوا کہ قیمت کی ادائیگی 6 مہینوں میں ہوگی۔ بدقسمتی سے اس کمپنی کا کاروبار خسارے کا شکار ہوا  اور کمپنی 6 مہینوں کی مدت میں قمر کو ادائیگی نہیں کرسکی۔ کیا اس صورت میں قمر اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے شمس اور طارق سے مطالبہ کرسکتا ہے؟  ہر گز نہیں  کیونکہ قمر نے سامان ’النجم الثاقب کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ‘ نام کے ایک ’شخص‘  کو فروخت کیا تھا، نہ کہ شمس اور طارق کو۔ اس لیے ان دونوں میں کوئی بھی اس کمپنی کے قرض خواہوں کے سامنے ذمہ دار نہیں ہے!

سوال یہ ہے کہ پھر ’محدود ذمہ داری‘ کا مفہوم کیا ہے؟  قانون کی رو سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ کمپنی کے ارکان کمپنی کے سامنے، نہ کہ اس کمپنی کے قرض خواہوں کے سامنے، ان شیئرز کی حد تک ذمہ دار ہیں جو انہوں نے خریدے تو ہیں لیکن ان کی قیمت ادا نہیں کی۔ قانون کے الفاظ ہیں:  ’ان کے پاس موجود شیئرز پر باقی رہنے والے مقدار کی ادائیگی کی حد تک (دیکھیے کمپنیز ایکٹ کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 20، اور دفعہ 294، ذیلی دفعہ 1 کی شق ڈی)۔ چنانچہ  شمس اور طارق میں کوئی بھی کمپنی کےقرض خواہوں کے سامنے ذمہ دار نہیں ہے؛ البتہ طارق کمپنی کے سامنے ان شیئرز کی قیمت کی حد تک ذمہ دار ہے جو اس نے خریدے تو تھے لیکن ان کی قیمت ادا نہیں کی تھی، اور شمس نے چونکہ تمام شیئرز کی قیمت ادا کردی تھی اس لیے اس کی ذمہ داری کمپنی کے سامنے بھی صفر ہے۔ یہ لازمی نتیجہ ہے کمپنی کو ’شخص‘ فرض کرنے کا۔ اس لیے فرضی وجود، کےلیے شخصیت مان لینے سے مسئلہ حل ہوتا نہیں، بلکہ زیادہ گمبھیر ہوجاتا ہے۔

فرضی شخصیت اور محدود ذمہ داری کے ان تصورات کے متعلق رچرڈ پوزنر (Richard Posner) کی رائے پیش کرنا مناسب ہوگا۔ پوزنر مایہ ناز قانونی فلسفی ہیں اور 1981ء سے 2017ء تک امریکا میں 7ویں سرکٹ کے کورٹ آف اپیل کے جج رہے۔ وہ ’قانون کے معاشی تجزیے‘ میں مہارت رکھتے ہیں اور Economic Analysis of Law کے عنوان سے ان کی کتاب اس موضوع پر بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں وہ کمپنی/کارپوریشن کا مقصدِ وجود یوں واضح کرتے ہیں کہ جس کاروبار میں بنیادی اہمیت محنت کی ہوتی ہے، نہ کہ سرمایے کی، اس کو عام طور پر مشارکت یا انفرادی کاروبار کے طور پر تشکیل دیا جاتا ہے؛ جبکہ کارپوریشن بنیادی طور پر ’بہت زیادہ مقدار میں سرمایہ اکٹھا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا ایک طریقہ‘ ہے۔ محدود ذمہ داری کی حقیقت واضح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’یہ تجارتی ناکامی کے خطرات ختم کرنے کا طریقہ نہیں، بلکہ ان خطرات کو کاروبار میں سرمایہ لگانے والے افراد سے ان لوگوں کی طرف منتقل کرنے کا طریقہ ہے جو کارپوریشن کو اپنی مرضی سے یا بغیر اپنی مرضی کے قرض دیتے ہیں؛ یہی لوگ ہوتے ہیں جو کارپوریشن کی ناکامی کا نقصان برداشت کرتے ہیں‘۔ ذمہ داری کی کسی اور کی طرف منتقلی یہ ہے حقیقت فرضی شخصیت اور محدود ذمہ داری کے تصورات کی۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ ایک سنگین آئینی بحران کے دہانے پر

اس بحث کی روشنی میں ریاست، حکومت اور شہریوں کے قانونی تعلق پر غور کی ضرورت ہے۔  قانون کا مفروضہ یہ ہے کہ ریاست کے وسائل کی ملکیت ریاست نامی فرضی شخص کے پاس ہے۔  کئی ریاستوں کے قانونی نظام میں ریاست کو ہی قانون اور حقوق کا سرچشمہ مانا جاتا ہے؛ قانون ریاست کی مرضی کے اظہار کا نام ہے؛ لوگوں کو حقوق ریاست دیتی ہے؛ ریاست سے باہر حقوق کا کوئی تصور نہیں اور لوگوں پر ریاست کے ساتھ وفاداری لازم ہے؛ ریاستی اہلکار ریاست کی فرضی شخصیت کے پردے کی وجہ سے قانون کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں؛ اور ریاستی اہلکاروں کی غلطیوں کی ذمہ داری کسی اور کی طرف منتقل کی جاتی ہے۔

کیا ہم نے قرارداد مقاصد اور آئین کے ذریعے ان مفروضوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی سیاست کا نظام فرضی شخصیت نظام معیشت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی سیاست کا نظام فرضی شخصیت نجم اور ثاقب نے شراکت بین الاقوامی فوجداری قرض خواہوں کے سامنے ریاست کی فرضی شخصیت النجم الثاقب فرم قانون کی نظر میں فرضی شخصیت کا لاکھ کے شیئر اس کمپنی کے شمس اور قمر کی ذمہ داری کی ادائیگی ادائیگی کے کا کاروبار اس فرم کے میں کوئی شروع کیا ہوتے ہیں کی حد تک یہ ہے کہ نہیں ہے کی قیمت نہیں کی کے خلاف کرنے کا ہوتی ہے کے پاس اس لیے کے قرض کہ شمس کے لیے اور اس

پڑھیں:

دورانِ اداکاری آواز تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا: عمران عباس

معروف پاکستانی اداکارہ زارا نور عباس اور اداکار عمران عباس نے انڈسٹری میں اپنی سادگی کے راز سے پردہ اٹھا دیا۔

زارا نور عباس اور عمران عباس نے ایک پروگرام میں شرکت کی جس میں دونوں فنکاروں نے شوبز انڈسٹری کی چمک دمک کے باوجود اپنی اصل شخصیت کو برقرار رکھنے کے بارے میں گفتگو کی۔

زارا نور عباس نے بتایا کہ میں جیسی ہوں ویسے ہی رہتی ہوں، انڈسٹری میں لوگ آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چیزیں کافی حد تک بناوٹی ہوتی ہیں اور لوگ اس کے مطابق آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میں نے اس سے دوری اختیار کی اور خود پر اعتماد برقرار رکھا ہے۔

عمران عباس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ میں نے عوام اور ماحول کے مطابق جدوجہد کرنی چھوڑ دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بہت سے اچھے ڈراموں میں کام کرنے کے باوجود سوشل میڈیا پر لوگوں کی رائے لمحوں میں بدل سکتی ہے، لہٰذا میں صرف اپنے کام پر توجہ دیتا ہوں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔

عمران عباس نے بتایا کہ مجھے اداکاری کے دوران اپنی آواز تبدیل کرنے جیسے مشورے دیے گئے، لیکن میں اپنی اصل شخصیت میں ہی راحت محسوس کرتا ہوں اور اداکاری یا حقیقی زندگی میں کسی قسم کی بناوٹ نہیں لاتا۔

یہ گفتگو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دونوں فنکار شوبز انڈسٹری کی چمک دمک کے باوجود اپنی اصل شخصیت اور سادگی کو برقرار رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مریم نواز کی کارکردگی صرف ٹک ٹاک تک محدود ہے، رہنماپیپلزپارٹی
  • صرف 45 منٹ کیلئے ملک کا صدر بننے والی شخصیت کون؟
  • ریاست اور اداروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا، علی امین گنڈاپور
  • نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا: علی امین گنڈا پور کا ریاست اور اداروں کو پیغام
  • چیمپئنز ٹرافی کی سکیورٹی کیسے ہوگی؟ گراؤنڈ میں فوجی مشقوں کی ویڈیوز
  • ریاست کو عارف علوی کیخلاف کارروائی،مراعات واپس لینے کا حق ہے،رانا ثنا اللہ
  • خطے میں شرانگیزی کے نتائج صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہینگے، لبنانی صدر
  • اسد قیصر کو حفاظتی ضمانت مل گئی، 8 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم
  • دورانِ اداکاری آواز تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا: عمران عباس