سنیارٹی پر 5 ججز سے کوئی تنازع نہیں، ذرائع اسلام آباد ہائیکورٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سنیارٹی ایشو پر خط لکھنے والے پانچ ججز سے کوئی تنازع نہیں، یہ قانونی ایشو ہے جسے عدالت نے طے کرنا ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا تمام فوکس کیسز جلد نمٹانے پر ہو گا۔ انہوں نے واضح ہدایات جاری کر دی ہیں کہ سائلین کو جلد انصاف کی فراہمی کو اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے۔
ٹیکس کیسز ، کیسز کا بیک لاگ ختم کرنے اور مسنگ پرسنز کے کیسز ترجیحات میں شامل ہوں گے۔ ضمانت کے کیسز میں غیر ضروری تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔
بعض ججز کی جانب سے اچانک چھٹی پر جانے اور سماعت کے لیے مقرر کیسز کی کاز لسٹ پیشگی اطلاع کے بغیر کینسل کر کے کیسز ری لسٹ کرنے کی پریکٹس ختم کی جائے گی جبکہ ججز کورٹ آفیشلز پر اپنی کورٹ میں کم کیسز لگانے کا دباؤ نہیں ڈال سکیں گے۔
ٹیکس کیسز نمٹانے کے لیے جسٹس بابر ستار اور جسٹس ثمن رفت امتیاز پرمشتمل ڈویژن بینچ قائم ہو گا۔ اسلام آباد ہائی میں اب اپیلیں آؤٹ آف ٹرن نہیں بلکہ اپنی باری پر لگیں گی۔
ادھر سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد یار ولانہ کو ایک سال کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیا رجسٹرار تعینات کر دیا گیا ہے۔ ایڈیشنل رجسٹرار مقصود احمد سیکرٹری ٹو چیف جسٹس اور نور محمد مرزا قائم مقام چیف جسٹس کے پرسنل سٹاف افسر مقرر کر دیے گئے ۔ مقصود احمد لاہور ہائیکورٹ سے جسٹس سرفراز ڈوگر کے ساتھ آئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد
پڑھیں:
ہمارے چیف جسٹس کو کام کرنے سے روکا جائے، ہائی کورٹ کے پانچ جج مدعی بن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے
سٹی42:ججوں کی سیاست نے ججوں کو پہلے خط بازی میں الجھایا، اب جج خود اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف مدعی بن کر عدالت میں پہنچ گئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے جس میں انہوں نے دوسری ہائی کورٹس نے ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلے کے بعد اپنے چیف جسٹس مسٹر جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس کی حیثیت سے کام کرنے سے روکنے کی استدعا کی ہے۔
ریڈ کراس آج شیری بیباس اور اس کے دو بچوں کی میتیں اسرائیل لائے گی
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو گزشتہ دنوں اسلام ااباد ہائی کورٹ کا عبوری چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔ جسٹس سرفراز ڈوگر سنیارٹی لسٹ پر سب سے اوپر ہیں لیکن سپریم کورٹ میں ان کے خلاف مدعی بن جانے والے پانچ ججوں کو اعتراض ہے کہ یہ سینئیر موسٹ جسٹس ایک دوسری ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں۔ آئین ایک ہائی کورٹ سے جج کو دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے کے اختیارات دیتا ہے جن کو استعمال کر کے مجاز اتھارٹی نے جسٹس ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا۔
چیمپئینز ٹرافی ، ہوم گراؤنڈ میں شکست پر شائقین کرکٹ نے بابر اعظم پر تنقید کے نشتر چلا دیے
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے 49 صفحات پر مشتمل درخواست آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3کے تحت دائر کی ہے۔ آئین بنانے والوں نے آرٹیکل 1849(3) کو بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے آئین میں شامل کیا تھا لیکن اس کا استعمال عموماً طاقتور ترین طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہی ہوتا رہا ہے۔ آئین میں 26 ویں ترمیم کے ذریعہ حکومت نے آئینی تنازعات کے کیسز کے عام شہریوں کے لٹکے ہوئے مقدمات پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لئے سپریم کورٹ میں ہی الگ آئینی بینچ بنا دیا ہے۔
دنیا میں سب سے سخی گاؤں کی سادہ سی کہانی
سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق شامل ہیں۔
پانچ ججوں کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ" قرار دیاجائے کہ صدرکو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں ہیں"، "مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا"، "جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کام سے روکا جائے۔"
پانی کی بوتلوں پر مختلف رنگ کے ڈھکن ؛ کیا پیغام چھپا ہے ؟؟
اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف پانچ ججوں کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ جسٹس خالد سومرو اور جسٹس محمد آصف کو بھی جوڈیشل کام سے روکا جائے۔
پانچ ججوں نے درخواست میں صدر مملکت، وفاق اور جوڈیشل کمیشن سمیت رجسٹرار سپریم کورٹ، سندھ، بلوچستان اور لاہور ہائیکورٹس کے رجسٹرار کو فریق بنایا ہے۔
آئین کا عمومی فہم رکھنے والے کہتے ہیں کہ صدر مملکت کے خلاف کوئی مقدمہ کسی عدالت میں دائر نہیں کیا جا سکتا لیکن اس درخواست مین انہیں مدعا علیہ بنانے والے عام لوگ نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج ہیں۔
راکھی ساونت کا مفتی قوی کو انکار؛ 20 افراد کو عمرے پر بھجوا دیا
جسٹس سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی برحق؛ جسٹس عامر فاروق کا تحریری فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے گزشتہ ہفتہ سنکدوش ہونے والے چیف جسٹس عامر فاروق نے ان ہی 5 ججز کی "سنیارٹی ری پریزنٹیشن" مسترد کر دی تھی، مسٹر جسٹس سرفراز ڈوگر کو ان کے واقعتاً سینئیر موسٹ جج ہونے کی بنا پر سنیارٹی میں سینئر پیونی جج بنانے پر 5 ججز نے "ری پریزنٹیشن" فائل کی تھیں۔
جسٹس عامر فاروق نے وجوہات کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی نئے ججوں کی بذریعہ ٹرانسفر آمد سے پہلے والی سنیارٹی بدلنے کے خلاف 5 ججز کی ری پریزنٹیشن مسترد کرنے کے تحریری فیصلے میںججز کی تعیناتی، تبادلے اور ججز کے حلف سے متعلق آئین کی متعلقہ شقیں ڈسکس کی تھیں اور بھارتی سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے کا حوالہ بھی شامل کیا تھا ۔
چیف جسٹس عامر فاروق کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہو کر اسلام آباد ہائی کورٹ آنے والے جج مسٹر جسٹس سرفراز ڈوگر نے 8 جون 2015کو بطور جج ہائیکورٹ حلف اٹھایا، جسٹس خادم حسین سومرو 14 اپریل 2023 کو سندھ ہائیکورٹ کے جج بنے جبکہ جسٹس محمد آصف نے 20 جنوری 2025 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت صدر نےججز کو ٹرانسفر کیا، صدر نے ججز کو چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹس (ججوں کو بھیجنے اور ججوں کو وصول کرنے والی ہائی کورٹس) کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کیا، تینوں ججز ٹرانسفر سے قبل اپنی متعلقہ ہائیکورٹس میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
Waseem Azmet