زمین زادوں کا آسمانی رشتہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
1960ء کی دہائی کی بات ہے۔ ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ ایوب خان مہمانوں کو برن ہال اسکول ایبٹ آباد لے گئے۔ ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچوں سے ہاتھ ملاتی ہوئی آگے بڑھ گئیں لیکن ان کے شوہر بچوں سے باتوں میں لگ گئے۔ پوچھا ’’بڑے ہوکر کیا بنوگے؟‘‘۔ بچوں نے جواب دیا ’’ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، آرمی افیسر وغیرہ وغیرہ‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔ لنچ پر انہوں نے ایوب خان سے کہا کہ ’’آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے‘‘۔ معزز مہمان نے اس کے بعد کیا کہا، ایوب خان نے کیا جواب دیا، ان باتوں کو ذرا دیر کے لیے یہیں چھوڑ کر آئیے معاشرے میں استاد کے کردار اور فضائل پر، زمین زادوں کے آسمانی رشتے پر بات کرتے ہیں۔ پہلے ایک شعر:
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ ایک اور موقع پر عالی مرتبتؐ نے فرمایا ’’تمہارے تین باپ ہیں۔ ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لایا۔ دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ ان سب میں افضل وہ ہے جس نے تمہیں علم دیا‘‘۔ سیدنا علیؓ ؓفرمایا کرتے تھے ’’میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھادے، اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے آزاد کردے‘‘۔
خلیفہ ہارون رشید نے امام مالکؒ سے حدیث پڑھنے کی درخواست کی۔ امام مالک ؒ نے فرمایا: ’’لوگ علم کے پاس آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے درس کے حلقے میں آجائو‘‘ ہارون رشید حلقہ درس میں آئے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ عظیم معلم نے دیکھا تو سختی سے کہا ’’خدا کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہل علم کا احترام کیا جائے‘‘۔ یہ سننا تھا کہ خلیفہ ہارون رشید استاد کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے۔ خلیفہ ہارون رشید کا یہی طرز عمل تھا کہ ان کے دوصاحبزادے جو امام نسائی کے شاگرد تھے۔ ایک بار اس بات پر جھگڑ پڑے کہ استاد کے پائوں میں جوتا کون پہنائے گا۔ تکرار کے بعد یہ طے پایا کہ دونوں ایک ایک جوتا استاد کے پائوں میں پہنانے کا شرف حاصل کریں گے۔ خلیفہ کو واقعے کی خبر ہوئی تو بصد احترام امام نسائی سے دربار میں آنے کی درخواست کی۔ امام تشریف لائے تو خلیفہ نے امام سے پوچھا ’’استاد محترم فی الوقت سب سے زیادہ عزت واحترام کے لائق کون ہے‘‘ خلیفہ کے سوال پر امام چونکے اور محتاط انداز میں جواب دیا ’’خلیفہ وقت ‘‘ہارون رشید مسکرایا اور کہا کہ ’’ہرگز نہیں سب سے زیادہ عزت کا مستحق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفہ کے بیٹے آپس میں جھگڑا کرتے ہیں‘‘۔
امام ابو حنیفہ ؒفرماتے تھے’’میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد اور والد محترم کے لیے دعا کرتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنے پائوں استاد محترم کے گھر کی طرف دراز نہیں کیے حالانکہ میرے اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں واقع ہیں‘‘۔ مولانا روم کا ارشاد ہے ’’مجھے آج بھی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہان میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ استاد کی دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کرلیتا ہے تو میں چلے میں بیٹھ کر استاد کے سکھائے ہوئے محبت کے چالیس اصولوں پر غور و خوص شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے استاد محترم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے کسی اور کونے میں کسی اور نام سے ایک اور تبریز نے جنم لیا ہوگا کیونکہ شخصیت تو بدل جاتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے‘‘۔
استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بناتا ہے۔ فاتح عالم سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ تھا۔ راستے میں ایک بپھرا ہوا برساتی نالہ آیا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان بحث شروع ہوگئی کہ پہلے نالے کے پار کون اترے گا۔ ارسطو کو بات ماننا پڑی اور پہلے سکندر نے نالہ پار کیا۔ استاد اور شاگرد دونوں نالے کے پار اترے تو ارسطو نے سختی سے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کیا تم نے مجھ سے پہلے نالہ پار کرکے میری توہین نہیں کی ہے؟‘‘۔ سکندر نے خم ہوکر انتہائی ادب سے کہا ’’نہیں استاد محترم! نالہ بپھرا ہوا تھا میں اطمینان کرنا چاہتا تھا نالہ پار کرنے کی صورت میں آپ کو نقصان نہ پہنچے کیونکہ ارسطو موجود ہوگا تو ہزاروں سکندر اعظم وجود میں آجائیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو پیدا نہیں کرسکتا‘‘۔
استاد ایک چراغ ہے جو راستوں کو روشن کرتا ہے، پھول ہے جو خوشبو پھیلاتا ہے، رہنما ہے جو منزل کی سمت گامزن کرتا ہے۔ معاشرے استاد کی عزت سے مقام پاتے ہیں، ترقی کرتے ہیں۔ اشفاق احمد زاویہ میں لکھتے ہیں کہ روم میں قیام کے دوران ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کراسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج مجھ سے سوال کرتا رہا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا۔ مجھے جج کو جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی بس میں یہی کہتا رہا کہ میں یہاں پردیسی ہوں۔ اس پر جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کرتے کیا ہیں، میں نے بڑی شرمندگی سے سر جھکا کر جواب دیا کہ جی میں ٹیچر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ جج اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سب کو حکم دیا ’’اے ٹیچر ان دی کورٹ‘‘ سب احترام میں اپنی کرسیوں سے کھڑے ہوگئے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں پھر جج نے انہیں یوں مخاطب کیا جیسے بڑے ہی شرمندہ ہوں۔ اسی شرمندگی میں جج نے کہا ’’جناب آپ استاد ہیں۔ ہم جو آج جج، ڈاکٹر، انجینئر جو کچھ بھی بنے بیٹھے ہیں وہ آپ اسا تذہ ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے، مجھے بہت افسوس ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کرآپ کو چالان ادا کرنا ہوگا کیونکہ بہر حال آپ سے غلطی ہوئی ہے مگر میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں‘‘۔
علامہ اقبال کے اسکول کے اساتذہ میں مولوی میر حسن بھی شامل تھے جن سے عقیدت اور احترام کا رشتہ اس قدر مضبوط تھا کہ علامہ اقبال کی علمی خدمات کی بنا پر جب ان کو انگریز حکومت کی جانب سے سر کا خطاب دینے کا اعلان ہوا تو علامہ اقبال نے کہا کہ وہ اس اعزاز کو صرف اور صرف اس شرط پر قبول کریں گے اگر ان کے استادِ محترم کو بھی شمس العلماء کے خطاب سے نوازا جائے گا۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے کہا گیا کہ خطاب ملنے کے لیے ضروری ہے کہ شخصیت کی کوئی تصنیف ہو۔ علامہ محمد اقبال نے فرمایا میں خود ان کی زندہ تصنیف ہوں۔ علامہ اقبال کا یہ جواب اس قدر پر تاثیر تھا کہ حکومت کو ان کی بات ماننی پڑی۔
اب آتے ہیں کالم کی ابتدا کی جانب۔ ملکہ برطانیہ کے شوہر نے ایبٹ آباد کے اسکول کے بچوں سے پوچھا آپ بڑے ہوکر کیا بنوگے۔ بچوں نے جواب دیا ’’ڈاکٹر، انجینئر، پا ئلٹ۔۔۔‘‘۔ لنچ پر انہوں نے صدر ایوب خان سے کہا ’’آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ میں نے بیس بچوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے‘‘ اس واقعے کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستان میں آج بھی بچوں کی ترجیحات میں ٹیچر بننا کہیں شامل نہیں۔ کیا بچوں کا یہ فیصلہ غلط ہے؟؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: استاد محترم علامہ اقبال ہارون رشید استاد کے جواب دیا ایوب خان بچوں سے کہا کہ سے کہا تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
کراچی پورٹ کی 40 ارب کی زمین 5 ارب میں دینے کا انکشاف
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/آن لائن) سینیٹر فیصل واوڈا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی پورٹ کی 40 ارب مالیت کی سرکاری زمین 5 ارب میں دی گئی۔چیئرمین سینیٹر فیصل واوڈا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ نے بھی شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی فیصل واوڈا نے اجلاس میں بڑا انکشاف کیا اور کہا کہ معاملات ڈنڈے کے زور پر ٹھیک کریں گے‘کراچی پورٹ کی 40 ارب کی سرکاری قیمت کی زمین 5 ارب میں دی گئی، کراچی پورٹ کی 500 ایکڑ زمین کی مارکیٹ ویلیو 60 ارب روپے سے زیادہ ہے، کراچی پورٹ کی زمین کی الاٹمنٹ کے سودے فوری روکے جائیں۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ کراچی پورٹ میں زمین کا الاٹمنٹ شفاف کریں گے، کراچی پورٹ میں زمین کی الاٹمنٹ میں میگا اسکینڈل ہے، کراچی پورٹ کی زمین کی الاٹمنٹ ایس آئی ایف سی کی مشاورت کریں گے، 5 ارب کی زمین دی ہے جس کی افیشل ویلیو 40 ارب بنتی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ بورڈ کی اجازت کے بغیر یہ زمین کیسے کسی کو منتقل کی گئی، وفاقی وزیر اور سیکرٹری نے اس معاملے پر لاعملی کا اظہار کر دیا۔ چیئرمین کمیٹی فیصل واوڈا نے زمینوں پر قبضے سے متعلق وزیر اعظم کو خط لکھنے کی ہدایت کردی۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر برائے میری ٹائم افیئرز قیصر شیخ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ مطمئن رہیں، 60 ارب روپے کی پورٹ قاسم کی اراضی کی منتقلی کے حوالے سے دو تین روز تک تحقیق کے بعد مؤقف دوں گا۔