Jasarat News:
2025-02-20@21:15:16 GMT

طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح

میاں بیوی کسی بھی خاندان اور سماج کی بنیادی اکائی ہیں، زوجین جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو خاندان وجود میں آتا ہے، شادی محض دو افراد نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہے۔ دنیا میں پہلا رشتہ ہی میاں بیوی کا رشتہ ہے، تہذیب وتمدن کی بقا وسلامتی اور ارتقا اسی رشتے کا مرہونِ منت ہے، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو انسان کو جذباتی، نفسیاتی اور سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں باہمی الفت و محبت پیدا ہوتی ہے، خاندان ہی سے فرد کو شناخت ملتی ہے، حسب، نسب اور اقدار متعین ہوتی ہیں، تعلیم و تربیت، اخلاقیات، بنیادی قدریں خاندان کے وجود ہی سے فروغ پذیر ہوتی ہیں، کسی بھی معاشرے میں تہذیبی قدریں اور ثقافتی روایات اسی ادارے کے وجود سے آگے منتقل ہوتی ہیں، فرد میں حقوق و فرائض کی ادائیگی اور احساسِ ذمے داری پیدا ہوتی ہے، گویا یہ ایک ایسی بنیادی اکائی ہے جو فرد کے ساتھ ساتھ سماج کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے خاندان کی یہ بنیادی اکائی آج خطرے سے دوچار ہے۔ ملک میں طلاق و خلع کے جو اعداد وشمار بتائے جارہے ہیں انہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رپورٹ انتہائی تشویش ناک ہے کہ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں 35 فی صد اضافہ ہوا ہے صرف کراچی میں پچھلے چار سال میں خلع کے مقدمات کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ ادارہ شماریات کے جاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ 99 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ کراچی میں سال 2020 میں کراچی کی فیملی کورٹس میں ازدواجی رشتہ ختم کرنے کے 5 ہزار 8 سو کیسز دائر ہوئے جبکہ 2024 میں یہ تعداد 11 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسری جانب گیلپ پاکستان کی جانب سے سروے میں حصہ لینے والے ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال ہے کہ غیر ضروری خواہشات اور عدم برداشت طلاق اور خلع کے معاملات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر پوری دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے، ترکیہ میں اس حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک اپنے شریک حیات پر توجہ دینے کے بجائے اپنا زیادہ وقت موبائل فون میں گم ہو کر گزارتا ہے تو اس سے شادی متاثر ہوتی ہے۔ پوری دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں طلاق کی شرح اپنے عروج پر ہے، گلوبل انڈیکس کے اعداد وشمار کے مطابق، امریکا اور کینیڈا میں طلاق کی شرح 45 فی صد ہے، ورلڈ بینک اور او ای سی ڈی کے مطابق، دنیا میں سب سے زیادہ طلاق کی شرح پرتگال میں ہے، جہاں یہ حیران کن طور پر 92 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اسپین میں طلاق کی شرح 85 فی صد ہے، جبکہ لکسمبرگ، فن لینڈ، بلجیم، فرانس اور سویڈن میں یہ شرح 50 فی صد کے قریب ہے، جبکہ ایشیائی ممالک میں بھی حالیہ برسوں میں طلاق کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم، یورپی ممالک کے مقابلے میں یہ تعداد اب بھی کافی کم ہے۔ طلاق اور خلع کے نتیجے میں خاندان تو بکھرتا ہے ہی مگر اس سے سب سے زیادہ متاثر بچے ہوتے ہیں، بچوں پر اس کے جذباتی، نفسیاتی، اور سماجی طور پر ناقابل ِ تلافی اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں، ان میں احساسِ محرومی، ڈپریشن، اور مزاج میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، والدین کے درمیان علٰیحدگی کے نتیجے میں وہ جذباتی و نفسیاتی بحران اور خلا پیدا ہوتا ہے جس کی تلافی کسی طور ممکن نہیں ہوتی۔ آج دنیا عملاً گلوبلائز ہوچکی ہے، ہر فرد جدید طرزِ زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے۔ خواتین کی مکمل خودمختاری اور روایتی ازدواجی ذمے داریوں سے آزادی کا رجحان بڑھ رہا ہے معاشرے میں فیمنزم کے مغربی ماڈل کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، خواتین کو گھریلو ذمے داریوں سے نکال کر اسے معاشی دوڑ میں شامل کرنے کو تہذیب یافتہ ہونے کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، مغربی تہذیب و ثقافت اور قدریں مسلم معاشروں پر اثر انداز ہورہی ہیں، ایک طرف مسلم دنیا پر مغرب کی عسکری یلغار ہے تو دوسری جانب تہذیبی اور ثقافتی جنگ بھی جاری ہے، اور ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلم معاشرے کو سیکولرائز کرنے کی مہم جاری ہے، مغرب اپنی تہذیب اور ثقافت کو مسلم معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہا ہے، کہا جارہا ہے یہ تہذیبی تصادم ہے، کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح مسلم دنیا میں مغربی تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جائے، عالمی مالیاتی اداروں کی امداد کو بھی مغرب کی ثقافت کو قبول کرنے سے نتھی کردیا گیا ہے۔ سوشل انجینئرنگ کے ذریعے مسلم اقدار وروایات کو پامال کرنے کا کھیل جاری ہے، اس عمل کے نتیجے میں خاندانی اقدار کمزور ہورہی ہیں اور ہمارا خاندانی نظام ایک چیلنج سے دوچار ہوگیا ہے۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ معاشرے میں عدم برداشت کا بڑھتا ہو رجحان ہے، ذرا ذرا سی بات پر طیش میں آنا اور غصے کی حالت میں بڑے فیصلے کرنا عام بات ہوگئی ہے، ہماری سماجی قدریں غیر محسوس انداز میں بدل رہی ہیں، جس کے نتیجے میں زوجین میں ذہنی مطابقت کم ہورہی ہے، آزادانہ زندگی گزارنے کا تصور فروغ پا رہا ہے، نئی نسل بزرگوں کی روک ٹوک اور قدغنوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، وہ خود انحصاری کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اپنے فیصلے خود کرنے کے آرزو مند ہیں اور یہ روش تعلیمی اداروں اور ٹی وی ڈاراموں سے عام ہو رہی ہے، مشترکہ خاندانی نظام ایک نعمت ضرور ہے مگر یہ خاندان کے لیے ٹوٹ پھوٹ کا باعث نہیں ہونا چاہیے، طلاق کی وجوہات میں ایک اہم وجہ خواتین کی مالی اور اقتصادی خودمختاری بھی بتائی جارہی ہے، اعلیٰ تعلیم اور معاشی خودمختاری کی وجہ سے ناخوشگواری کو قبول کرنے کے بجائے طلاق کو ترجیح دی جارہی ہے۔ رہی سہی کسر ٹی وی ڈراموں اور موبائل نے پوری کردی ہے، کچے ذہن کے حامل نوجوان اس کا منفی استعمال کر رہے ہیں، موبائل نے حرام رشتوں کی قربتوں کو فروغ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کی تقلید سے بچا جائے، خاندان کی اہمیت کو سمجھا جائے، قرآن نے جو قانونی احکامات دیے ہیں ان کا دوتہائی حصہ خاندان سے جڑے مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام حقوق و فرائض کے مجموعے کا نام ہے، اسلام نے ایک مستحکم خاندان کی تشکیل کے لیے جو اصول مرتب کیے ہیں بدقسمتی سے انہیں فراموش کردیا گیا ہے، تعلقات میں بگاڑ کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے جب فرد اپنے فرائض پورے نہیں کرتا یا حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے، شادی سے قبل خطبہ نکاح میں بھی تقویٰ،حقوق و فرائض کی پاسداری اور زوجین کے درمیان محبت والفت پر زور دیا گیا ہے جو ایک مستحکم خاندان کی تشکیل کے لیے لازمی امر ہے۔ زوجین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ شادی محض کسی جذبے کی تسکین کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ذمے داری بھی ہے، روز مرہ کی زندگی کے معاملات میں تلخیاں درآنا ایک فطری امر ہے، ان تلخیوں کو فراموش کرنا، تبادلہ خیال اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے، زوجین اگر انا کی فصیل کھڑی کردیں گے تو اس سے فاصلے پیدا ہوں گے مزید رنجشیں جنم لیں گی جس کے نتیجے میں بات طلاق اور خلع تک پہنچے گی، اس لیے ضروری ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے احساسات و جذبات، ضروریات اور باہمی عزت و احترام کو کسی طور نظر انداز نہ کریں، اس ضمن میں علماء و مشائخ بھی اپنا کردار ادا کریں اور اس رشتے کی حساسیت اور اہمیت سے معاشرے کو آگاہ کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں طلاق کی شرح طلاق اور خلع کے نتیجے میں خاندان کی جارہی ہے دنیا میں ہوتی ہے کرنے کے خلع کے کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

اگر آج ہماری بہادر فوج نہ ہوتی تو ہمارا حال عراق، لبنان اور شام سے بھی بدتر ہوتا، گورنر سندھ

برطانوی شہر بریڈفورڈ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران کامران ٹیسوری نے کہا کہ پاکستان ہم سب کا ہے، اس کا وقار اور عزت برقرار رکھنا ہماری ذمے داری ہے، ہمیں اپنے ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کا کہنا ہے کہ پاک فوج پاکستان کی سلامتی، استحکام اور ترقی کی ضامن ہے، اگر آج ہماری بہادر فوج نہ ہوتی تو ہمارا حال عراق، لبنان اور شام سے بھی بدتر ہوتا۔ سندھ کے گورنر کامران خان ٹیسوری نے برطانوی شہر بریڈفورڈ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ انہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل حافظ عاصم منیر کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمارے سپہ سالار ناصرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں بلکہ معیشت کے استحکام اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ گورنر سندھ نے کہا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا قیام پاکستان میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا اقدام ہے، جو ملک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے گا۔

کامران ٹیسوری نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اوورسیز پاکستانی ناصرف ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے حقیقی سفیر بھی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ برطانیہ اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو وہاں کے قوانین کی پاسداری کے ساتھ اپنی اعلیٰ اقدار اور ثقافت کا عملی نمونہ پیش کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کا کردار انتہائی اہم ہے، حکومت ان کے مسائل حل کرنے اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد پر گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ نے کہا کہ ہمیں اس مقدس مہینے کو اتحادِ رمضان کے طور پر منانا چاہیے تاکہ پاکستان کے استحکام اور روشن مستقبل کے لیے ہم سب متحد ہو کر کام کریں۔

متعلقہ مضامین

  • پنجابی بولتے ہوئے ’شرمندگی محسوس ہوتی‘ ہے!
  • خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں: سپریم کورٹ
  • خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں، سپریم کورٹ
  • اگر آج ہماری بہادر فوج نہ ہوتی تو ہمارا حال عراق، لبنان اور شام سے بھی بدتر ہوتا، گورنر سندھ
  • سوڈان: پھیلتی خانہ جنگی میں انسانی حقوق کی بڑھتی پامالیوں پر تشویش
  • (کراچی میں ٹریفک حادثات پر حکومتی اے پی سی)جماعت اسلامی کاہر متاثرہ خاندان کو1 کروڑ روپے دینے کا مطالبہ
  • شادی کے طویل ترین دورانیے کا ریکارڈ اپنے نام کرنے والا جوڑا
  • 2017ء میں میری بات مان لی ہوتی تو 5 سال تک کشکول لے کر نہ پھرنا پڑتا، اسحاق ڈار
  • معروف کرکٹر جے پی ڈومنی اور اہلیہ کے درمیان طلاق ہوگئی