لاہور ہائیکورٹ: صنم جاوید کی درخواست خارج
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
لاہور (آن لائن) لاہور ہائیکورٹ میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جاری شوکاز نوٹسزاور ضمانتی مچلکے منسوخ کرنے کیخلاف سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید کی درخواست خارج کر دی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر آپ نے نئے ضمانتی مچلکے جمع کرا دیئے ہیں تو عدالت کو بتائیں۔ وکیل صنم جاوید خان نے کہا کہ ٹرائل کورٹ ضمانتی مچلکے کینسل کرنے کا فیصلہ واپس لینے سے ہچکچا رہی ہے،ایک ہی وقت میں کیس میں تین کارروائیاں ٹرائل کورٹ نہیں کر سکتی، ٹرائل کورٹ نے صنم جاوید کے ضمانتی مچلکے کینسل کر دیئے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ضمانتی مچلکے صنم جاوید
پڑھیں:
”بیڈ ٹچ“ میں ملوثبھارتی فوج کے کرنل کی سزا کیخلاف درخواست مسترد
ممبئی ہائیکورٹ نے بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل کی کورٹ مارشل کے تحت 5 سال قید کی سزا کے خلاف درخواست مسترد کردی ۔
بھارتی میڈیارپورٹ کے مطابق ممبئی ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے کرنل کی سزا کے خلاف درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ بچی نے عدالت میں جس طرح بتایا کہ کرنل نے ان کے والد کے کمرے سے جانے کے بعد ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا وہ بالکل واضح ہے۔
بینچ نے کرنل کی جانب سے آرمڈ فورسز ٹریبیونل کی جانب سے جنوری 2024 کو 5 سال کی سزا کو برقرار رکھنے کے خلاف پٹیشن کو مسترد کردیا۔
مارچ 2021 میں جنرل کورٹ مارشل (جی سی ایم) نے کرنل کو چھوٹی بچی کو جنسی حملے کا نشانہ بنانے کا مجرم قرار دیا تھا۔ فوجی عدالت نے ان کو متعلقہ قانون کے مطابق کم از کم سزا (پانچ سال قید) سنائی تھی۔
فوجی افسر نے ہائیکورٹ میں موقف اپنایا کہ انہوں نے غلط نیت سے نہیں بلکہ پدرانہ شفقت سے بچی کو ہاتھ لگایا تھا اور ان کا بوسہ لینے کے لیے کہا تھا تاہم عدالت نے ان کی وضاحت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بچی کی جانب سے ”بیڈ ٹچ“ کو جس طرح بیان کیا گیا عدالت کو اس پر یقین کرنا چاہیے۔
عدالت نے متاثرہ بچی نے ملزم کی وضاحت کہ ان کی جانب سے بچی کو پکڑنا محص پدرانہ شفقت کا اظہار تھا، کو مسترد کردیا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ بچی ملزم سے پہلی مرتبہ مل رہی تھی اور ملزم کی جانب سے بچی کا ہاتھ پکڑنے، ان کے جسم کو ہاتھ لگانے اور ان سے بوسہ لینے کا کہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بچی نے فوراً اس ”بیڈ ٹچ“ کا اپنے والد کو بتایا اور ان شواہد کی بنیاد پر عدالت کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ جی سی ایم اور ٹریبیونل کے فیصلے سے اختلاف کرے۔
ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ اسے جنرل کورٹ مارشل اور ٹریبیونل کے فیصلے میں کوئی غلطی نظر نہیں آئی۔