آسمان کی نامہربانیوں اور قدرتی آفتوں سے محفوظ رہنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ قوم اﷲ و تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، اجتماعی توبہ و استغفارشاید ابر کرم کا باعث بن جائے۔ گو موسمیات والوں نے آیندہ چند دنوں میں بارشوں کی خبر دی ہے مگر یہ خبریں ہم پہلے بھی سنتے رہتے ہیں ، اگر ملک کے چند حصوں میں بارش ہو بھی گئی تو باقی زمینوں کا کیا بنے گاجہاں فصلیں بارش کی منتظر ہیں۔ شہروں میں بیٹھ کر آپ اس اذیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو دیہات میں کسانوں پر گزر رہی ہے ۔
خشک سالی نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔ مگر افسوس کہ موسم پر کسی کا اختیار نہیں اور موسم کی اس خوفناک تبدیلی نے ہمارے خواب پریشاں کر دیے ہیں ۔گاؤں سے اچھی فصل کی خبریں موصول ہورہی تھیں اورخود مجھے امید تھی کہ اس دفعہ پہاڑوں کے صاف پانی سے پروان چڑھتی خوش ذائقہ اور قوت سے بھر پور گندم لاہور میں دوستوں کو تحفہ دوں گا۔ لیکن زراعت ہمیشہ آسمان کی محتاج رہتی ہے ۔
زراعت کے تمام اصولوں کی پابندی کریں، خوب محنت کریں لیکن فصل کی زندگی کا ہر لمحہ قدرت کی مہربانی کا محتاج رہتا ہے، یہ کوئی فیکٹری نہیں ہوتی کہ ایک طرف سے خام مال ڈالیں اور دوسری طرف سے تیار مال نکال لیں ، یہ زراعت ہے جو موسم کی مہربانی کے ساتھ قدم بقدم چلتی ہے، ذرا سی نامہربانی ہوئی تو قدم اکھڑ گئے ۔
کسی کارخانے کو اگر آگ لگ جائے تو انشورنس والے مدد کو آجاتے ہیں مگر فصل کی انشورنس نہیں ہوتی اور کی تباہی صرف اور صرف کاشت کار کو برداشت کرنی پڑتی ہے، حکومت اگر کبھی بڑا کمال کرے تو بلا سود قرض کا اعلان کر دیتی ہے، جس کے پاس دو وقت کے کھانے کا نہ ہو وہ بلاسود قرض لینے کی ہمت کیسے کرے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم دعویٰ تو زرعی ملک کا کرتے ہیں اوراسمبلیوں میں براجمان فیصلہ سازوں کی اکثریت کا تعلق بھی دیہات سے ہوتا ہے مگر وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایسی مراعات کے پیچھے دوڑتے ہیں جن کی مدد سے وہ شہری بن سکیں، ان کا مطمع نظر صرف کوئی کارخانہ لگانا، شہر میں بڑا بنگلہ بنانا اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم رہ جاتا ہے۔
ہمارے اصل حکمرانوں کا تعلق چونکہ شہروں سے ہوتا ہے، اس لیے ان کی توجہ صرف شہروں پر مرکوز رہتی ہے اور دیہات ان کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں اور دیہات سے منتخب ہو کر آنے والے نمایندے بھی انھی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ ہم ایک کوتاہ نظر قوم ہیں جو بار بار اپنے لیڈروں کے کھلے فریبوں کا شکار ہوتے ہیں مگر ووٹ پھر بھی انھی کو دیتے ہیں۔
موسم کی تبدیلی کے اثرات پر ابھی تک ہماری حکومت کی جانب سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آسکی ۔ موسمیات کے ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ خوفناک خوش سالی نے عملاًہماری زراعت کی کمر توڑ دی ہے ۔ حکومت پنجاب کی جانب سے چولستان میںگرین پاکستان کے نام سے ایک زراعتی منصوبے کی داغ بیل ڈالی گئی ہے اور اس منصوبے کے افتتاح کے موقع پر ہمارے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے پنجاب کو پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس قرار دیا ہے جب کہ محترمہ مریم نواز نے اس منصوبے کو صوبے کے کسانوں کی ترقی میں نئے سفر کا آغاز قرار دیا ہے۔
چولستان کے وسیع و عریض ریگستان کو سبزہ زار میں تبدیل کرنے کا یہ منصوبہ بلاشبہ ڈوبتی زراعت کے لیے انقلاب کی بنیاد بن سکتا ہے اگر حکومت کاشتکاروں کی صحیح معنوں میں داد رسی کرے۔ چولستان کے ریگستان کو آباد کرنے کے لیے گرین پاکستان کے سائے تلے کاشتکاروں کو قرضہ جات کے بجائے رعائتی نرخوں پر زراعت سے متعلقہ مشینری،ڈیزل، کھاد، بیج اور ادویات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے جس کا وعدہ محترمہ مریم نواز نے کیا ہے ۔
میری وزیر اعلیٰ سے گزارش ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ان زرعی ماہرین کو اس منصوبے میں شامل کیا جائے جو نئی زمینوں کی آباد کاری کا تجربہ رکھتے ہوں تا کہ گرین پاکستان کے پلیٹ فارم سے شروع کیے اس منصوبے کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے ، اس کے لیے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیںلیکن اگر یہ منصوبہ بھی کسی سرکاری بابو کے حوالے کر دیا گیا تو پھر اس کی کامیابی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ، پنجاب کو پاکستان کا حقیقی معنوں میںزرعی پاور ہاؤس بنانے کے لیے حکمرانوں کی نیک نیتی کی ضرورت ہے جو کسانوں کو عزت دے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ کے قسط وار ناکام منصوبے
اسلام ٹائمز: عربی اور غربی اتحادیوں کی شمولیت کیساتھ جاری کئے گئے امریکہ کے پچھلے منصوبے ناکام رہے ہیں۔ جبری ہجرت کا منصوبہ جسے شروع سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اور واضح مخالفت کا سامنا ہے اور جسے خود صہیونی بھی قابل عمل نہیں سمجھتے، یہ منصوبہ بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے مقاصد حاصل کرنیکے لئے حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ تحریر: علی رضائی
2016 سے لیکر اب تک ٹرمپ نے مقبوضہ فلسطین کے لیے منصوبے پیش کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کام بھی کیا۔ گزشتہ منصوبوں کی نئے پروجیکٹ یعنی "غزہ سےجبری نقل مکانی" سے ایسی ہی نسبت ہے، یعنی ناکامی۔ پہلے دور حکومت میں "ٹرمپ کا امن منصوبہ" یا "صدی کی ڈیل" ایک بڑامنصوبہ تھا۔ اس کا مقصد غاصب اسرائیل اور فلسطین کے اصل مالک فلسطینی عوام کے درمیان صلح اور امن پر مبنی ماحول تیار کر کے ایک کمزور اور بے اختیار فلسطینی ریاست کا قیام تھا، تاکہ عربوں اور فلسطینیوں سے 80 سال سےقابض اسرائیل کے ناجائز قبضے اوروجود کو قانونی طور پر تسلیم کروایا جا سکے۔
اس مقصد کے حصول کا راستہ صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر آگئےا۔ اس کے بعد "ابرہام پیکٹ" کے تحت ٹرمپ کی طرف سے بالخصوص سعودی عرب اور صیہونیوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پیش کیا گیا۔ صدی کی ڈیل اور دو ریاستوں کی تشکیل فلسطینی عوام کے لیے خیانت پر مبنی منصوبہ ہے۔ فرض کریں کہ غیر ملکی افواج آپ کے ملک پر قابض ہیں اور 8 دہائیوں کی جنگ اور ہزاروں لوگوں کے قتل کے بعد اب وہ آپ سے اس قبضے کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ کو بغیر کسی اختیار کے ایک بہت ہی قلیل سا علاقہ دیا جاتا ہے۔
صیہونی تو ایک معمولی ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور پورے فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے عوام کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔لہٰذا تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بعض عرب ممالک کی پیشگی شرط یہ تھی کہ فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اپنےمنصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ٹرمپ نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امارات اور بحرین جیسے ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل بھی ہو گئے۔ لیکن یہ امریکی منصوبہ یہیں پر رک گیا۔ اگلا منصوبہ جو اسرائیل اور امریکہ نے مشترکہ طور پر فلسطینی عوام کے خلاف جاری کیا وہ غزہ میں قتل عام تھا۔
7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی فوج نے تقریباً 50,000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اس جنایت اور مجرمانہ آپریشن کے ذریعے نیتن یاہو کا بنیادی ہدف حماس کی مکمل تباہی اور خاتمہ تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، نیتن یاہو نے 20 دسمبر 2023 کو اسرائیلی جنگی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ہم جنگ کو آخر تک جاری رکھیں گے، حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی،جب تک ہم اپنے مقرر کردہ تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتے یعنی حماس کو تباہ کرنا، یرغمالیوں کو آزاد کرنا اور غزہ کی جانب سے اسرائیل کو ہرقسم کے خطرے کو ختم کرنا شامل ہے۔
نتن یاہو نے کہا کہ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم رک جائینگے، وہ سچائی سے بہت دور ہے، حماس کے تمام دہشت گرد شروع سے آخر تک مارے جائیں گے۔ بالآخر یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا اور حماس کے مجاہدین غزہ میں ابھی مسلح ہیں اور غزہ ان کے پاس ہے، اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی غزہ سے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں "زبردستی منتقل" کرنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا لیکن اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اب ٹرمپ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اس منصوبے سے غزہ اور حماس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔
حالانکہ مقصد کو نیتن یاہو 50 ہزار لوگوں کے قتل عام سے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ملکیت حاصل کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں، بلاشبہ وائٹ ہاؤس اس منصوبے کے ذریعے حماس کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسرائیل انہیں مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ کا جبری ہجرت کا منصوبہ اتنا ناقابل قبول ہے کہ عرب ممالک بھی اس پر بول پڑے۔ وہی ممالک جنہوں نے ابراہام معاہدے کے منصوبے میں ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا۔ جبری نقل مکانی کا سنتے ہی سعودی عرب نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
اس منصوبے کو عالمی سطح پر بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر اور اردن جو کہ امریکی امداد کے وصول کنندہ ہیں اور بہت سے معاملات میں اپنے موقف اور مطالبات کو بغیر مخالفت کے تسلیم کرلیتے ہیں، انہوں نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ یورو نیوز کے مطابق جرمنی نے ٹرمپ کے اس منصوبے کے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غزہ سے فلسطینی شہری آبادی کو بے دخل کرنا نہ صرف ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے، بلکہ اس سے نئے مصائب اور نفرت بھی جنم لے گی، فلسطینی عوام کی شرکت کے بغیر کوئی بھی حل نہیں ہونا چاہیے۔
فرانس نے یہ بھی کہا ہے کہ فلسطینی آبادی کی جبری منتقلی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور فلسطینیوں کی جائز امنگوں پر حملہ اور دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹرمپ اور عربی اور غربی اتحادیوں کی شمولیت کیساتھ جاری کئے گئے امریکہ کے پچھلے منصوبے ناکام رہے ہیں۔ جبری ہجرت کا منصوبہ جسے شروع سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اور واضح مخالفت کا سامنا اور جسے خود صہیونی بھی قابل عمل نہیں سمجھتے ہیں، یہ منصوبہ بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے مقاصد حاصل کرنیکے لئے حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔