Express News:
2025-04-16@02:47:36 GMT

تپن بوس امن کا پیامبر اور انسانیت کا علمبردار

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

جب بھی دو ملکوں کے تعلقات کی بات کی جاتی ہے تو بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ایک سنگین موضوع کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سیاست اورکئی دیگر عوامل نے ان تعلقات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، مگر ایسے میں کچھ شخصیات اُبھرتی ہیں جو اس پیچیدہ صورتِ حال کو ایک نیا زاویہ دیتی ہیں اور ان میں ایک اہم نام تپن بوس کا تھا۔

یہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی بلکہ امن انسانیت اور حقوقِ انسانی کے حوالے سے ایک روشن پیغام بھی دیا تھا۔ میری چند ملاقاتیں تپن بوس سے ہوئیں اور ان ملاقاتوں کے دوران جو گفتگو اور خیالات ان سے سننے کو ملے وہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔

تپن بوس کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کے پیغام کو ایک سنجیدہ مشن کے طور پر لے کر چل رہے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی تو نہ صرف جنوبی ایشیا کا منظر بدل جاتا بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی امن کے نئے امکانات روشن ہوتے۔ تپن بوس نے ہمیشہ کہا تھا کہ دونوں ملکوں کی محبت اور نفرتوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ممکن ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عوامی سطح پر بات چیت اور مکالمہ شروع ہو۔

جب میں پہلی بار تپن بوس سے ملی تو ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی۔ وہ نہ صرف ایک مہذب اور ذہین شخص تھے بلکہ ان میں ایک گہری محبت اور امن کا پیغام بھی تھا۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ اس بات کی جھلک تھی کہ ایک دن بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کو نہ صرف سمجھیں گے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ گزرے وقتوں کی غلط فہمیاں بھی دورکر پائیں گے۔

اس ملاقات میں تپن بوس نے مجھے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ تحفے کے طور پر دیا تھا۔ ان کتابوں کا نام تھا ’’سیج سیریز: ہیومن رائٹس آڈٹ آف پیس پروسیسز۔‘‘ یہ کتابیں نہ صرف بھارت اور پاکستان کے امن کی حقیقت کو اجاگرکرتی ہیں بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والے امن معاہدوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھی تفصیل سے بیان کرتی ہیں۔

’’سیج سیریز‘‘ کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے میں نے یہ پایا کہ تپن بوس نے نہ صرف ایک فکری لائحہ عمل دیا تھا بلکہ ایک عملی راستہ بھی تجویزکیا تھا جس کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کیا جا سکتا تھا۔ ان کی تحریریں اور خیالات ایک نئے افق کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں جہاں سرحدیں صرف جغرافیائی حدود تک محدود ہوں گی اور جہاں دلوں میں محبت اور انسانیت کا راج ہوگا۔

تپن بوس کا یہ یقین تھا کہ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آئیں تو نہ صرف ان دو ممالک کی ترقی کی راہیں کھلیں گی بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں استحکام آئے گا۔ ان کے نزدیک بھارت اور پاکستان کا رشتہ محض دو ممالک کا تعلق نہیں بلکہ ایک ثقافتی تاریخی اور جغرافیائی رشتہ تھا جو ہزاروں سالوں پر محیط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کو سمجھیں ان کے درمیان ثقافتی روابط قائم ہوں اور دونوں طرف سے نفرت کی دیواروں کو گرا کر ایک نیا آغازکیا جائے۔

ان ملاقاتوں کے دوران تپن بوس نے کئی بار اس بات پر زور دیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کے لیے سب سے اہم چیز عوامی سطح پر گفتگو اور مکالمہ ہے۔ ان کے مطابق حکومتوں اور سیاستدانوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنا اور عوامی سطح پر تعاون بڑھانا ہی وہ راستہ تھا جس سے امن کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ یہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب میں نہ صرف امن کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ انسانی حقوق کی پاسداری پر بھی زور دیا۔

’’سیج سیریز ہیومن رائٹس آڈٹ آف پیس پروسیسز‘‘ کی کتابوں میں تپن بوس نے عالمی سطح پر امن کی کوششوں کا جائزہ لیا تھا اور ان کے نتائج کا تجزیہ کیا تھا۔ ان کے مطابق امن کے عمل میں انسانی حقوق کا تحفظ ایک لازمی جزو ہونا چاہیے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک کسی معاہدے یا عمل میں عوامی حقوق کی پاسداری نہیں کی جائے گی تب تک وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ان کی تحریریں اس بات کا پختہ ثبوت تھیں کہ وہ نہ صرف امن کے حامی تھے بلکہ تپن بوس ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ عالمی سطح پر ہونے والی جنگوں اور تنازعات کی جڑیں بیشتر اوقات اس بات میں ہوتی ہیں کہ مختلف ممالک کے درمیان تعاون اور سمجھوتہ نہیں ہوتا۔ اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے اختلافات کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو دنیا کے دوسرے خطے بھی ان کی پیروی کر سکتے تھے اور یہ عالمی امن کی جانب ایک اہم قدم ہوتا۔

 تپن بوس کے نظریات اور خیالات نہ صرف بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بہتری کی جانب ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے تھے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن محبت اور انسانیت کے اصولوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔ ان کی کتابیں ان کا کام اور ان کا پیغام آج بھی اس بات کا غماز ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جو نہ صرف عالمی امن کے لیے کام کر رہے تھے بلکہ انسانیت کے لیے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھتے تھے۔

تپن بوس کا رخصت ہونا بہت بڑا سانحہ ہے۔ ان کی کمی نہ صرف محسوس کی جائے گی بلکہ اس خلا کو پر کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم ان کا پیغام ان کے خیالات اور ان کی کتابیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ وہ امن کے علمبردار تھے اور ان کی جدوجہد کی روشنی ہمیشہ ہمارے راستوں کو منورکرتی رہے گی۔

میرے پاس تپن بوس کی کتابوں کا یہ مجموعہ آج بھی موجود ہے اور جب میں ان کی کتاب کے صفحات کو پلٹتی ہوں، مجھے یہ یاد آتا ہے کہ ایک دن بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں وہ مثبت تبدیلی آئے گی جس کا تپن بوس نے خواب دیکھا تھا۔ ان کی باتیں ان کی تحریریں اور ان کی ملاقاتیں ہمیشہ میری یادوں کا حصہ رہیں گی اور میں یہ یقین رکھتی ہوں کہ اگر دونوں ممالک نے ان کی سوچ اور پیغام کو سمجھا تو ہندوستان اور پاکستان ایک مختلف مقام پہ کھڑے ہوں گے جہاں امن ہوگا اور ہمارا آنے والا کل تابناک ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھارت اور پاکستان کے تعلقات ممالک کے درمیان دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے اور انسانی تعلقات میں محبت اور دیا تھا تھا کہ اس بات اور ان امن کے امن کی کہ ایک

پڑھیں:

حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ

سٹی 42 : پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ  پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دہائیوں کے اتحاد نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا بلکہ پاکستان کے 90فیصد مسائل کی وجہ یہی اتحاد ہے۔

 اپنے بیان میں مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جو حکومت میں ہیں وہی ملک اور عوام کے مسائل کا سبب ہیں اور اچنبھے کی بات ہے عوام کو یہ امید دلائی جارہی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے ،ملک اور عوام کی گھمبیر مشکلات کو اگر کوئی لیڈر حل کر سکتا ہے تو وہ صرف بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جب کسی تقریب میں پاکستان کے مسائل پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں تو عوام ان کے بہکاوے میں نہیں آتے بلکہ جھولیاں اٹھا کر دہائیوں سے حکومتیں کرنے والوں کو کوستے ہیں ۔

لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح

انہوں نے کہا کہ عوام کا موجودہ حکمرانوں سے سوال ہے ملک کی ابتر صورتحال اور بد حالی کے ذمہ دار کون ہیں اور جب آپ سے بار بار یہ سوال پوچھا جائے تو آپ پیکا ایکٹ کا سہارا لے لیتے ہیں ،آج ساری قو م آپ سے اپنی بد حالی کا سوال پوچھ رہی ہے ۔

 مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں،ان کے حل کیلئے دور اندیشی کے ساتھ دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جو موجودہ حکمرانوں کی بس کی بات نہیں ہے ۔

سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب

متعلقہ مضامین

  • ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا پس منظر، طاقت یا مجبوری؟
  • اسرائیلی ریاست، نفسیاتی بیماریوں کا شاخسانہ
  • ایران اسلامی مزاحمت اور امریکہ سے مذاکرات
  • چینی صدر شی جن پھنگ  انسانیت کا گہرا احساس رکھنے والے رہنما ہیں،وزیراعظم  ملائیشیا
  • وزیراعظم شہباز شریف کی مستونگ میں بلوچستان کانسٹیبلری کی گاڑی پر دہشتگرد حملے کی مذمت
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
  • انطالیہ سے لاہور تک مریم نواز کی عالمی ڈپلومیسی
  • شاہی سید کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد،رہنماؤں سے ملاقات
  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • فیک نیوز: شیطانی ہتھیار جو سچائی نگل رہا ہے