Express News:
2025-04-13@16:32:38 GMT

صرف رمضان نہیں مستقل پیکیج کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بغیر رمضان پیکیج لائیں گے۔ انھوں نے اس سلسلے میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔ ان ہدایات میں کہا گیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بغیر رمضان پیکیج تیار کیا جائے تاکہ کرپشن اور خراب مال کی شکایات دوبارہ سامنے نہ آئیں یہ معاملہ پہلے کی طرح نہیں چل سکتا۔

وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی اسٹورز میں کرپشن اور خراب مال کی جو بات کی ہے وہ درست ہے کیونکہ حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بڑھاتی اور رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کو مزید رقم اور سبسڈی دیتی رہی جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ پریشانی اور ذلت برداشت کرنا پڑتی تھی اور حکومت کی طرف سے عوام کو ہر سال رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے جن مراعات کا اعلان کیا جاتا تھا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ یوٹیلیٹی کارپوریشن کے افسروں اور نچلے عملے کو پہنچتا تھا۔

حکومت رمضان المبارک میں زیادہ استعمال میں آنے والی خوردنی اشیا کے کم نرخوں پر فروخت کا جو ریلیف عوام کو دینا چاہتی تھی وہ اشیا متعلقہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر نایاب ہوتیں جب کہ وہ تاجروں کو خفیہ طور فروخت کر دی جاتی تھیں ۔

  وزیر اعظم کا یہ فیصلہ درست ہے کیونکہ یوٹیلیٹی اسٹورز عوام کے لیے بے مقصد ہو چکے تھے جہاں عوام کو گھنٹوں خوار ہونے کے بعد بھی مطلوبہ اشیا سستے نرخوں پر نہیں ملتی تھیں اور حکومت کو ہر سال بڑی رقم فراہم کرنے کا مقصد پورا ہونے کے بجائے یوٹیلیٹی کارپوریشن میں کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے مفت میں بدنامی ہی ملتی تھی اور یہ سلسلہ سالوں سے جاری تھا اور یوٹیلیٹی اسٹورز قومی خزانے پر بوجھ بن چکے تھے۔

اب حکومت جس نئی پالیسی کے ذریعے عوام کو ریلیف دینا چاہ رہی ہے وہ پالیسی سرکاری افسر بنائیں گے اور سرکاری عملے کے ذریعے ہی حکومت عوام کو ریلیف دلائے گی مگر حکومت کا کوئی محکمہ عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتا تو وہ سرکاری ریلیف عوام تک کیسے پہنچے گا یہ سب سے اہم سوال ہے اور حکومت کی نئی پالیسی کا حشر بھی کہیں یوٹیلیٹی اسٹورز جیسا نہ ہو جو عوام کے لیے تکلیف دہ بن چکے تھے جس کی وجہ سے حکومت کو نئی پالیسی لانے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے مگر ایسی کوئی گارنٹی نظر نہیں آ رہی کہ عوام کو حقیقی طور ریلیف مل سکے۔

ملک کے تاجروں اور اکثر ناجائز منافع خوروں نے مسلمانوں کے مقدس ترین ماہ رمضان کو اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور رمضان کی آمد سے قبل ہی رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور نرخ بڑھا دیے جاتے اور رمضان کو دنیاوی کمائی کا ذریعہ بنایا جا چکا ہے۔ رمضان میں نرخ بڑھانے کے مذموم کاروبار کے ساتھ سال بھر جمع کی گئی خراب اور مضر صحت اشیا بھی ملاوٹ کرکے فروخت کر دی جاتی ہیں جنھیں چیک کرنے کا ذمے دار محکمہ چیک ہی نہیں کرتا۔

بدقسمتی سے ملک کے بڑے تاجروں نے ہی نہیں بلکہ عام دکانداروں، پتھارے اور ریڑھی والوں نے بھی رمضان کو سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور وہ رمضان ہی کو کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے اور ایک ماہ میں گیارہ ماہ کی کمائی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھیں کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان میں کوئی انسانیت یا احساس ہے اور برسوں سے رمضان ان مسلمان کہلا کر لوٹنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔

غیر مسلم ممالک کے تاجر اپنے ہر تہوار اور مسلمانوں کے مقدس ماہ کا احترام کرتے ہوئے اشیائے ضرورت کے نرخ اور فروخت عام کر دیتے ہیں مگر پاکستان جیسے اسلامی ملک کہلانے والے ملک میں اس کے برعکس ہوتا ہے کیونکہ ناجائز منافع خوروں کے نزدیک رمضان المبارک دینی کمائی کے بجائے دنیاوی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس میں مسلمان کہلانے والے ہی رمضان میں اپنے ہی مسلمانوں کو بے دردی سے لوٹتے آ رہے ہیں۔

ملک میں ایسے مخیر حضرات بھی ہیں جو زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں اور بعض ادارے اور لوگ مل کر مفت افطاری، شربت اور روزہ کشائی کا فراخ دلی سے اہتمام کرتے ہیں۔ درد دل اور رمضان کا احترام اور احساس رکھنے والے رمضان میں حقیقی بچت بازار یا ضروری اشیا خصوصاً پھل اسٹال لگواتے ہیں جہاں بازاروں سے کم نرخوں پر یہ اشیا فروخت کرائی جاتی ہیں۔

مرکزی مسلم لیگ، سیلانی فاؤنڈیشن جیسے بڑے ملک گیر اداروں کی طرح چھوٹے فلاحی ادارے اور مخیر حضرات بھی رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی لوگوں کو کسی منافع کے بغیر عوام کو ارزاں نرخوں پر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا پھل اور سبزیاں فروخت کراتے ہیں حکومت ایسے اداروں اور مخیر حضرات کے ذریعے بھی رمضان میں سرکاری ریلیف فراہم کرا سکتی ہے۔

18ویں ترمیم کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ صرف بعض سبزیاں آلو، گوبھی، مٹر، دھنیا وغیرہ کے نرخوں میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی پیداوار ہے حکومتی اقدامات نہیں۔ صوبائی حکومتوں میں اب سندھ حکومت نے ناجائز منافع خوروں کے خلاف الگ تھانے بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی دوسروں کو بھی تقلید کرنی چاہیے تاکہ مہنگائی میں جکڑے لوگوں کو ناجائز منافع خوروں اور مہنگائی کے عذاب سے نجات مل سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ناجائز منافع خوروں یوٹیلیٹی اسٹورز کمائی کا ذریعہ اور رمضان کے ذریعے عوام کو ہے اور

پڑھیں:

  عالمی اتحاد، جامع ترقی ‘اخلاقی کثیرالجہتی کیلئے نا گز یر: یوسف رضا گیلانی 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے سیول میں منعقدہ "ورلڈ سمٹ 2025"  میں اہم خطاب کیا، جو اقوام متحدہ کے قیام کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوا۔ اس عالمی اجلاس میں 150 ممالک کے 500 سے زائد مندوبین اور 45 پارلیمانی اسپیکرز نے شرکت کی۔ اجلاس کا مرکزی موضوع  "عالمی نظام کو درپیش عصری چیلنجز: امن و خوشحالی کے نئے دور کا قیام"۔اپنے خطاب میں چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی نے عالمی اتحاد، جامع ترقی اور اخلاقی  کثیرالجہتی کی فوری ضرورت پر زور دیا، اور دنیا کے رہنماؤں کو انصاف پر مبنی طرز حکمرانی—خواہ وہ معاشی ہو، ماحولیاتی یا سماجی کے تصور کا ازسرنو جائزہ لینے پر زور دیا ۔انہوں نے سوال اٹھایا کیا ہمیں اْن لوگوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو بحرانوں پر صرف بحث کرتے رہے، یا اْن کے طور پر جنہوں نے ان مسائل کو حل کیا؟۔انہوں نے پرانے تصورات سے ہٹ کر ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا، جو انسانیت اور کرہ ارض کے درمیان ایک نیا رشتہ قائم کرے۔ 

متعلقہ مضامین

  • وزیر خزانہ کے اعترافی بیان نے حکومت کے دعوں کا پول کھول دیا، بیرسٹر سیف
  • حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • وزیر خزانہ نے جعلی حکومت کے جھوٹے دعوؤں کی حقیقت عوام کے سامنے رکھ دی، بیرسٹر سیف
  •   عالمی اتحاد، جامع ترقی ‘اخلاقی کثیرالجہتی کیلئے نا گز یر: یوسف رضا گیلانی 
  • مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک براہ راست نہیں پہنچ رہا، حکومت کا اعتراف
  •  وزیراعلی پنجاب خاتون ہیں، انھیں احتجاج کرنے والی خواتین کا کیوں خیال نہیں؟ حافظ نعیم الرحمن 
  • فلسطین کی حمایت اب ایک سوچ بن گئی ہے، اس سوچ کو شکست نہیں دی جاسکتی، منعم ظفر
  • یوسف رضا گیلانی کا نئے عالمی سماجی معاہدے کی تشکیل کی ضرورت پر زور
  • پاکستانی پروڈکٹس کو عالمی منڈیوں تک رسائی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • ایک یادگار ملاقات کی دلچسپ روئیداد(1)