میڈیا کے مطابق ضلع کرم کی لوئر تحصیل میں ایک بار پھر نامعلوم شرپسندوں نے اشیائے خورونوش اور دیگر سامان لے جانے والی 100 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر اچانک فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم از کم ایک سیکیورٹی اہلکار کے جاں بحق جب کہ پولیس اہلکار اور کمسن بچی سمیت 7 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں فائرنگ کے بعد نامعلوم افراد کو گاڑیوں سے سامان لوٹ کر لے جاتے ہوئے اور سامان سے لدے ایک ٹرک سے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص قبائلی اضلاع کے لوگ امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ان قبائلی اضلاع میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بدامنی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا اولین مطالبہ امن کی بحالی ہے۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور دیگر انتہا پسند عناصر نہ صرف خیبر پختونخوا کے عوام بلکہ ملک کی سلامتی اور ہم آہنگی کے ڈھانچے کے لیے بھی ایک فوری اور سنگین خطرہ ہیں۔
ایسے افسوس ناک واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے،کیونکہ کسی بھی حکومت کا اصل فریضہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے اور انھیں صرف باتوں اور اعلانات کی نہیں بلکہ عملاً آئین و قانون نافذ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے ۔ خیبر پختونخوا کا صوبہ، جو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے محاذ پرکھڑا ہے، طویل عرصے سے دہشت گردی کے ناسور کا شکار رہا ہے، جس کی بڑی وجہ اس کی افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہونا ہے جو کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔
پشاور جسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا، جو کبھی ترقی اور خوبصورتی کی علامت تھا، یہ شہر ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہے لیکن آج بنیادی سہولتوں سے محروم نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں کا خوف الگ ہے۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں جہاں انفرااسٹرکچر کی کمی ایک مسلہ ہے وہاں سب سے اہم مسلہ دہشت گردی ہے ۔
حالیہ دنوں میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا کرم میں قیام امن کے لیے جو جرگہ ہوا اور اس کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا، اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہورہا، شرپسند عناصر کہاں سے آرہے ہیں؟ شرپسندوں کو پناہ کہاں ملتی ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو اس معاملے میں سہولت کاری کررہے ہیںاور انھیں سرکاری اداروں کا کوئی خوف نہیں ہے۔کیا یہ تشویش کی بات نہیں ہے کہ شرپسندوں نے ٹرکوں پر فائرنگ ہی نہیں کی بلکہ ان پر لدا ہوا مال بھی اتارا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے اور آخر میں ٹرکوں کو آگ بھی لگا دی۔ یہ تو لاقانونیت کی انتہا ہے۔
قانون پسند اور امن پسند طبقوں کے لیے ایسے ماحول میں رہنا انتہائی المناک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام دستیاب وسائل، عزم، اور پختہ ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس اس علاقے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی اختلافات کو پس پست ڈال کر کام کرنا ہوگا۔ قانون کی عملداری، ریاست و حکومت کی رٹ کے نفاذ اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔
بلوچستان میں بھی صورتحال خاصی خراب ہے ، تمام تر حفاظتی انتظامات کے حکومتی دعوؤں کے باوجود عسکریت پسندوں کے حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ ان میں سے اکثر حملوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ دراصل عسکریت پسندوں کی نئی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ ان حملوں کے باعث صوبے میں عوامی زندگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ بلوچستان میں عسکریت پسند اپنے حملوں میں تیزی لا کر ریاستی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی مسلح تنظیموں کو ٹی ٹی پی کی معاونت بھی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بعض پشتون اکثریتی علاقوں میں بھی بلوچ عسکریت پسندوں نے کئی بڑے حملے کیے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پاکستانی طالبان کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے اثرورسوخ کی وجہ سے بلوچ عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیار مل رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے کئی دھڑے اس وقت براہ راست بلوچستان کی بدامنی میں ملوث ہیں۔
بلوچستان میں ’’دہشت گرد گروپس‘‘ سی پیک کے لیے اہم خطرہ ہیں ۔ افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال نے مختلف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع دیا ہے، جس سے ان کی موجودگی، وسائل اور افغان سرحد سے باہر کارروائی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے درمیان نقل و حرکت میں آسانی ہے، کیونکہ طالبان حکومت کے پاس ان علاقوں کا موثر کنٹرول نہیں ہے۔
ایک وجہ ٹی ٹی پی کی دراندازی بھی ہے جو افراد کے چھوٹے گروپس کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پاکستان بھیجتی ہے۔ اسی طرح افغان شہری ہیں جو پہلے افغانستان میں مسلح سرگرمیوں میں ملوث تھے اور اب ’’ ٹی ٹی پی‘‘ اور دیگر دہشت گرد گروپس کے ساتھ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اہم وجہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکا کی جانب سے چھوڑا گیا وہ جدید اسلحہ ہے جو دہشت گرد گروپس کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، کارروائیوں کے پس پردہ بھارت کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ طالبان کی سوچ کا ا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے، افغانستان کی طالبان حکومت دوحہ معاہدے کے تحت پابند ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان یا کسی ہمسایہ ملک کے خلاف دہشت گردی کے طور پر استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ لیکن صد افسوس افغانستان کی طالبان حکومت اس معاہدے پر عمل نہیں کررہی ہے۔ افغانستان کی حکومت کی وجہ سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔
پاکستانی فوج بہرحال یکسو ہے اور وہ دہشت گردی کے جن کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے پر عزم ہے۔ بدقسمتی سے اپنے دفاعی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کا ٹارگٹ اور آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ چین سے پاکستان کی قربت کسی کوایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سی پیک کا منصوبہ اور اس میں پاکستان کی بھرپور شرکت پورے امریکی بلاک کے لیے ناپسندیدہ عمل ہے۔ سی پیک راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ایک دنیا پاکستان کے لیے سیکیورٹی کے خطرات پیدا کررہی ہے، جب کہ پاکستان جانتا ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی ہمارے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت ہے۔ ہماری مسلح افواج کو ایک کٹھن اور دشوار مرحلے سے گزرنا پڑرہا ہے، پاک فوج کا مورال بلند ہے۔
اسے محب وطن پاکستانی عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پاک فوج اور عوام شانہ بشانہ دکھائی دیں اور وقتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ضربِ عضب اور رد فساد کی طرح ایک اور آ ہنی آپریشن عزم و ولولے سے جاری وساری رکھنا چاہیے۔ صوبائی حکومتیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے، ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ ریاستی سطح پر صوبوں میں سیکیورٹی پالیسی کا از سر نو جائز ہ لینے کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی کے خطرے سے حقیقی طور پر نمٹنے کے لیے صرف فوجی طاقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انحصار کافی نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی وجوہات کو حل کیا جائے جو انتہا پسندی کو جنم دیتی ہیں، جیسے غربت، تعلیمی مواقعے کی کمی، بے روزگاری اور سماجی تنہائی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا حکومت کو ایسی پالیسیوں پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ اچھی حکمرانی کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اپنی بنیادی ذمے داریوں کی تکمیل میں مستقل مزاجی اختیار کی جائے اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت یا حدود سے تجاوز کرنے کی خواہش سے بچا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عسکریت پسندوں خیبر پختونخوا افغانستان کی دہشت گردی کی دہشت گردی کے پاکستان میں عسکریت پسند پاکستان کی کی وجہ سے اور دیگر ٹی ٹی پی نہیں ہے رہے ہیں اور اس کے لیے سی پیک ہوا ہے
پڑھیں:
دہشت گردی پوری دنیا کیلئے بڑا چیلنج ، عالمی امن وسلامتی کیلئے اجتماعی اقدامات درکارہیں،اسحاق ڈار
نیویارک: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دہشت گردی پوری دنیا کے لیے بڑا چیلنج ہے جب کہ پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور عالمی امن وسلامتی کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے، پاکستان افغانستان کی معاشی ترقی میں تعاون کرتا رہے گا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کثیرالجہتی پر عمل اور گلوبل گورننس میں بہتری کے عنوان سے اجلاس میں خطاب کے دوران اسحاق ڈار نے کہاکہ چین کی سلامتی کونسل کے اہم اجلاس کی صدارت کرنا خوش آئند ہے، پاکستان اور چین کو اجلاس کی صدارت پر مبارکباد دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب عالمی سطح پر شدید بحران ہیں، ان بحرانوں نے یو این چارٹر کے تحت قائم ورلڈ آرڈر کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں 15 ماہ بعد جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان امید کی کرن ہے، غزہ کے عوام کی فوری امداد کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پوری دنیا کے لیے بڑا چیلنج ہے، پاکستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کا سامنا ہے، پاکستان دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر ضروری اقدام کر رہا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کو کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سامنا ہے، پرامن اور مستحکم افغانستان خطے کے مفاد میں ہے، عالمی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا اسٹرکچر توڑنے کی نہیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، گلوبل گورننس آرکیٹیکچر میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے تمام تر اقدامات کررہا ہے، دہشت گردی پوری دنیا کیلئے چیلنج ہے، دنیا کو ڈبل اسٹینڈرڈ سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔
اس سے پہلے اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم نے کہا کہ اگر 2017 میں ان کی بات پر عمل کر لیا جاتا تو 5برس تک کشکول لے کر نہ پھرنا پڑتا۔ 2017ء میں پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا، لیکن اس کے بعد ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر جا پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی حالات کی پیچیدگیوں کے باوجود پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا۔
انہوں نے معیشت کی بہتری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے، پالیسی ریٹ کم ہوا ہے اور معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہیں۔ 2013 کے انتخابات سے قبل پاکستان کو معاشی عدم استحکام کا شکار ملک تصور کیا جاتا تھا، مگر ہم نے الیکشن جیت کر صرف 3سال میں اقتصادی اشاریے بہتر کر دیے گئے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2013 سے 2017 کے درمیان مہنگائی کی شرح 3.6 فیصد پر آ گئی تھی، شرح سود کم ہو کر 5 فیصد رہ گئی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف بھاری اخراجات کے ذریعے ملک میں امن بحال کیا گیا، آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے نتیجے میں کراچی کی روشنیاں لوٹ آئیں اور پہلی مرتبہ پاکستان نے کامیابی سے آئی ایم ایف کا پروگرام بھی مکمل کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کی تعریف کر رہے تھے، یہاں تک کہ پاکستان کو 2030 تک جی 20 ممالک میں شامل ہونے کی پیش گوئی کی جا رہی تھی، تاہم 2018 میں حکومت کی تبدیلی اور اس کے بعد آنے والے برسوں میں ملک کی معیشت کمزور ہو کر 47 ویں نمبر پر چلی گئی اور دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2022 میں جب پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈالنا پڑا۔ اگر 2017 میں ان کے مشورے پر عمل کر لیا جاتا تو پاکستان کو یہ مشکلات نہ دیکھنی پڑتیں۔
انہوں نے کہا کہ جب 2023 میں انہیں دوبارہ موقع ملا تو معیشت کو استحکام کی طرف لے جایا گیا، مہنگائی کی شرح کم ہو کر 6.4 فیصد ہو گئی، شرح سود 22 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد پر آ گئی، زرمبادلہ ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ اب عالمی ادارے دوبارہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کو سراہنے لگے ہیں۔
نائب وزیر اعظم نے دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ 2014 میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھاری مالی وسائل فراہم کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں ملک محفوظ ہوا تھا، تاہم اب دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے اور اس کا سبب پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ پچھلی حکومت نے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ سمجھوتے کیے، جس کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کیا گیا اور نتیجتاً ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حکومت کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ بار بار تبدیل ہوتی رہتی ہے، مگر ہر کسی کو پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پچھلی حکومت معیشت کو 24 ویں سے 20 ویں نمبر پر لے جاتی تو وہ اس کی تعریف کرتے، مگر انہوں نے پاکستان کو 47 ویں معیشت بنا دیا، جس کی کوئی ستائش نہیں کی جا سکتی۔