ویب ڈیسک :یوٹیلیٹی اسٹورز کے 3 ہزار سے زائد ڈیلی ویجز ملازمین کی برطرفیوں کا معاملہ شدت اختیار کر گیا۔ ملک گیر دھرنا اور احتجاج  کی دھمکی بھی دے ڈالی 

 ڈیلی ویجز ملازمین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات اسلام آباد میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ہیڈ آفس میں منعقد ہوئے تاہم فریقین کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے اور برطرفیوں کے معاملے پر مذاکرات کا پہلا دور ناکام ہو گیا۔مذاکرات میں ملازمین کے یونینز لیڈروں نے یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ برطرف کیے گئے ڈیلی ویجز ملازمین کے آڈرز فوری طور پر واپس لیے جائیں۔ تاہم، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی مذاکراتی کمیٹی نے یونینز کے مطالبات تسلیم کرنے سے گریز کیا جس کے نتیجے میں مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے۔

گھریلو ملازمہ سے زیادتی ، ملزم گرفتار

یونینز لیڈروں کا کہنا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو 27 فروری کو ملک گیر دھرنا اور احتجاج کیا جائے گا۔ یونین نمائندوں نے اعلان کیا کہ اس احتجاج میں ملک بھر سے یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین شرکت کریں گے اور جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے تب تک احتجاج جاری رہے گا۔

مذاکرات کا دوسرا دور کل دوبارہ ہوگا جس میں کسی حتمی فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ تاہم، اگر یہ مذاکرات بھی ناکام رہے تو ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین کی جانب سے شدید احتجاج اور دھرنے کا امکان ہے۔

عالمی بینک کا وفد تربیلا ڈیم کا دورہ کرے گا

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: یوٹیلیٹی اسٹورز کے

پڑھیں:

قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک آزاد ہوئے تو یہ توقع کی گئی کہ کلونیل عہد کے اداروں اور روایات کا خاتمہ کر کے نئے مُلک کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے میں سابق محکوم قوموں کے ذہن کو بھی بدلن بھی ضروری خیال کیا گیا۔کیونکہ یورپی سامراج کے دور میں اُنہوں نے اس کا مقابلہ ماضی کی اپنی شان و شوکت اور عظمت کو اُبھار کر کیا تھا۔

لیکن آزادی کے بعد ماضی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب قوموں کو ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا تھا۔ ماضی اب اُن کے لیے رکاوٹ کا باعث تھا۔ اس لیے ایک نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت تھی، جس میں کلونیل دور کے اُن غلطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا تھا جن کی وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

(جاری ہے)

آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے آمریت کے نظام کو نافذ کیا۔

وہ راہنما جنہوں نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ وہ قوم کے ہیرو بن گئے، لیکن عام لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیونکہ آمروں کو کلونیل دور کا سیاسی نظام پسند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے سابق ریاستی اداروں کو جن میں فوج، نوکر شاہی، پولیس اور خفیہ ادارے شامل تھے، اُنہیں اپنے اقتدار کے لیے باقی رکھا۔

جن افریقی اور ایشیائی مُلکوں میں جمہوریت کی ابتداء ہوئی تھی اُسے آمرانہ قوتوں نے ختم کر دیا اور آمر با اختیار ہو کر طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔

انتخابات کی جگہ ریفرنڈم کی روایت شروع ہوئی تا کہ حکمراں پارٹی کو انتخابات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر الیکشن کرانا پڑے تو اُنہیں محدود کر دیا گیا۔ جیسا کہ پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔

جب آمر اور حکمراں طبقہ بااختیار ہو جائے تو اس کے نتیجے میں خوشامد کی پالیسی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی اور رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔

طالبعلموں، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے قومی راہنماؤں کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن پر ہر قسم کی تنقید ممنوع کر دی جاتی ہے۔ اَدب، آرٹ، تھیٹر اور موسیقی بے جان ہو کر سطحی ہو جاتی ہے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں طبقاتی فرق بڑھ جائے، تو اس کے نتیجے میں اشرافیہ نہ صرف دولت اکٹھی کرتی ہے بلکہ مراعات یافتہ بھی بن جاتی ہے۔

جبکہ عوام اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو کر غربت اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے اُن میں کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا کہ کیا یورپی سامراج کی غلامی اچھی تھی یا اپنوں کی۔

Howard university کے ایک پروفیسر Nile Ferguson کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اپنی حالت کو بدلنے کے اہل نہیں ہیںٰ اس لیے مغربی سامراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ ان پر قبضہ کر کے ان کی اصلاح کریں، اور اِنہیں جدید دور میں داخل کریں۔

لیکن کچھ ناکام ریاستوں نے کامیاب ہو کر مغرب کی بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ مثلاً سنگاپور جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اُس نے کلونیل دور کے تمام نشانات کو مِٹا کر اپنا ایک ایسا نظام قائم کیا، جو بہت سے یورپی مُلکوں سے بہتر ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنی تبدیلی کا آغاز آمریت سے کیا تھا مگر پھر اسے جمہوریت میں بدلا اور صنعتی ترقی نے اسے خوشحال بنایا۔

ملائیشیا نے بھی اصلاحات کے ذریعے اپنی ناکامی کو ختم کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کامیاب ہونے کے لیے کونسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کی ترقی کے لے ضروری ہے کہ اُسے ماضی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ماضی کا حصہ ہوں یا کلونیل دور کی پیداوار ان سب کا خاتمہ کر کے موجودہ حالات کے مطابق سیاسی اور معاشی اور سماجی نظام کو تشکیل کرنا ہو گا۔

جدید روایات اُسی وقت معاشرے میں آئیں گی جب اُن کے لیے خالی جگہ ہو گی۔ قدیم اور جدید مِل کر ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔

دونوں امریکی مصنفین نے قوموں کی ناکامی کا جو تجزیہ کیا ہے اُسے پاکستان کی اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے تا کہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
  • ایران اور امریکا کے مذاکرات کاروں کا بالواسطہ بات چیت کا پہلا دور ختم
  • عمان میں ایران امریکا بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم؛ آئندہ کا لائحہ عمل طے پاگیا
  • ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات پہلا دور ختم
  •  پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین اب ٹیکس میں ہیر پھیر نہیں کرسکیں گے، بل منظور
  • پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین اب ٹیکس میں ہیر پھیر نہیں کرسکیں گے، بل منظور
  • اختر مینگل نے مطالبات کی منظوری تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا: راحیلہ درانی
  • گلگت بلتستان کے وکلاء نے 16 اپریل سے عدالتوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا
  • چیف جسٹسز نے ملازمین کو ایک کروڑ تک انکریمنٹ دیا؛ اختیارات کیس میں وکیل کے دلائل
  • یرغمالیوں کی رہائی؛ حماس اور امریکا مذاکرات اسرائیل نے ناکام بنادیئے