شوبز ستارے سوشل میڈیا پر اپنی زندگی کے اہم واقعات سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے رہتے ہیں جن میں سے کچھ پر صارفین کڑی تنقید بھی کرتے ہیں۔

مریم نفیس بھی انھی اداکاراؤں میں سے ایک ہیں جو مداحوں کو اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات سے آگاہی دیتی رہتی ہیں۔

وہ چاہے کوئی فوٹو شوٹ ہو، یا شوہر کے ہمراہ سیر و سیاحت کے دورے، کسی ڈرامے کا آن ایئر آنا ہو یا کسی شو میں شرکت کرنی ہو۔ 

اسی طرح اداکارہ نے اپنی ازدواجی زندگی اور حاملہ ہونے پر بھی تصاویر شیئر کی تھیں جن پر تنقید بھی کی گئی تھی۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Mariyam Nafees Amaan (@mariyam.

nafees)

مریم نفیس اور امان احمد جلد ہی بچے کے والدین بننے والے ہیں جس پر اداکارہ نے ایک فوٹو شوٹ کی تصاویر شیئر کی ہیں۔

ان تصاویر پر کمنٹس کی بھرمار ہوگئی اور ایک صارف نے پوچھا کہ اس قسم کی ڈریسنگ کرنے پر آپ کے شوہر آپ کو کچھ نہیں کہتے؟  

جس پر اداکارہ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے صرف ایک لفظ کہا کہ ’’ نہیں‘‘۔

یاد رہے کہ مریم نفیس نے امان احمد نے مارچ 2022 میں شادی کی تھی۔ ان کے شوہر کی پہلی شادی معروف اداکارہ بشریٰ انصاری کی بیٹی سے ہوئی تھی جو طلاق پر ختم ہوئی تھی۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اداکارہ نے مریم نفیس

پڑھیں:

ملائیشیا میں پاکستانیوں کی زندگی کیسی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) ملائیشیا میں مقیم پاکستانیوں کے مطابق ان کے لیے وہاں با عزت روزگار کے مواقع زیادہ ہیں۔ وہ وہاں اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب پیسے کما رہے ہیں جو ان کے لیے پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ ان افراد کی تنخواہیں ماہانہ دو سے تین ہزار ملائیشین رنگٹ کے درمیان ہیں (ایک ہزار رنگٹ تقریبا ساٹھ ہزار روپے کے برابر بنتے ہیں)۔

چونکہ ہم سیاح تھے اس لیے ہمارا زیادہ تر واسطہ کیشیئیر، بیروں، چوکیداروں اور صفائی ستھرائی کے عملے سے ہی پڑنا تھا۔

بہت سوں کو ان کی کمپنی کی طرف سے رہائش اور دو وقت کا کھانا بھی مل رہا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کے لیے کچھ رقم رکھ کر باقی پیسے پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ ملائیشیا میں جگہ جگہ ایسی دکانیں موجود ہیں، جو پاکستان سمیت، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، فلپائن اور سری لنکا سے ملائیشیا آنے والے محنت کشوں اور مزدوروں کو اپنے اپنے ممالک میں رقوم کی منتقلی میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں مزدور بمشکل اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ انہیں تفریح کے لیے نہ وقت مل پاتا ہے نہ وسائل۔ ملائیشیا میں یہ لوگ اپنی تفریح پر بھی پیسے خرچ کر رہے تھے۔ اکثر نے ملائیشیا کے مشہور سیاحتی مقامات کی سیر کی ہوئی تھی اور چھٹی والے دن بھی دوستوں کے ساتھ شہر میں کہیں نہ کہیں جانے کا منصوبہ بنا لیتے تھے۔ محنت کشوں اور مزدوں کے علاوہ بھی بہت سے پاکستانی روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں ملائیشیا میں مقیم ہیں۔

ملائیشیا کی مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پاکستانی انجینئرز، آئی ٹی ماہرین، اور دیگر پیشہ ور افراد کام کر رہے ہیں۔

بیورو آف امیگریشن اینڈاوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1971 سے 2025 تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ملائیشیا روزگار کے لیے منتقل ہو چکے ہیں۔ سنہ 2023 میں بیس ہزار افراد پاکستان سے ملائیشیا گئے تھے۔ ملائیشیا میں پاکستانی طالب علموں کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔

علاوہ ازیں، ان لوگوں کے گھروالے بھی وہاں موجود ہیں جس کے باعث ملائیشیا میں پاکستانیوں کی تعداد اس تخمینے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

ملائیشیا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کی کئی وجوہات ہیں۔ ملائیشیا جغرافیائی طور پر پاکستان کے قریب واقع ہے۔ چھ گھنٹے کی براہِ راست پرواز کے ذریعے ملائیشیا پہنچا جا سکتا ہے جبکہ کم بجٹ میں سری لنکا کے راستے بھی بآسانی سفر کیا جا سکتا ہے۔

ملائیشیا کی معیشت مستحکم ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں وہاں روزگار کے زیادہ مواقع موجود ہیں اور وہاں معیارِ زندگی بھی بہتر ہے۔

ملائیشیا میں اسلامی ثقافت کے رنگ کافی گہرے ہیں۔ ملائیشیا منتقل ہونے والے پاکستانی مسلمانوں کو بہت زیادہ ثقافتی جھٹکوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انہیں زندگی کو ایک مخصوص ترتیب میں گزارنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے جو کہ دیگر ممالک میں بھی اپنانا ضروری ہوتا ہے۔

ملائیشیا کثیر الثقافتی ملک ہے۔ وہاں مالائی، چینی اور بھارتی نژاد افراد کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ ان کے امتزاج کے باعث ملائیشیا میں کسی بھی قمیت کے لوگوں کا رہنا چین، جاپان اور کوریا جیسے اپنی واضح پہچان اور ثقافت رکھنے والے ممالک میں رہنے کی نسبت آسان ہے۔ ملائیشیا کی پاکستانیوں کے لیے ویزہ پالیسی بھی آسان ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے لیے وہاں جانا بہت مشکل نہیں۔

ملائیشیا میں کم خرچ میں بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے لیکن ایک مناسب زندگی گزارنے کے لیے زیادہ پیسوں کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ اس لیے یہاں صرف وائٹ کالر نوکری پیشہ افراد یا کاروباری افراد اپنے خاندانوں کے ہمراہ رہنا برداشت کر سکتے ہیں۔

ملائیشیا میں بغیر نوکری کے رہنا مہنگا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ جن کے معاہدے ختم ہوجاتے ہیں، ملائیشیا سے واپس اپنے ممالک لوٹ جاتے ہیں۔

ملائیشیا کی شہریت حاصل کرنا بھی قدرے مشکل کام ہے، لہٰذا لوگ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد کسی ایسے ملک میں جانا پسند کرتے ہیں جہاں انہیں کچھ سالوں بعد شہریت مل سکے۔

ملائیشیا خواتین کے لیے بھی محفوظ ہے۔ خواتین رات گئے تک سڑکوں پر نظر آتی ہیں، کیفے میں بیٹھی کافی پی رہی ہوتی ہیں اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہوتی ہیں۔ میرا قیام کوالا لمپور کے مشہور جڑواں ٹاوروں کے قریب تھا۔

رات کو ٹاور دیکھنے کے لیے نکلے تو آس پاس بہت سی خواتین موجود تھیں جو بے فکری سے وہاں بیٹھی ٹاورز کا نظارہ کرتی ہوئی نظر آئیں۔

ملائیشیا اپنے مقامی افراد اور غیر ملکیوں کو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی زندگی فراہم کرتا ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی بہت سے پاکستانی موقع ملنے پر ملائیشیا منتقل ہونا پسند کرتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شوہر کی وفات کے بعد ذہنی امراض کے ڈاکٹر سے مدد لینی پڑی: شگفتہ اعجاز
  • بہاولپور: شوہر نے ساتھی کے ساتھ مل کر بیوی اور بیٹی پر تیزاب پھینک دیا
  • اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)
  • چیمپئنز ٹرافی: فخرزمان کی انجری، آئی سی سی قوانین کیا کہتے ہیں؟
  • ملائیشیا میں پاکستانیوں کی زندگی کیسی ہے؟
  • وقت اور زندگی کی حقیقت
  • شیخوپورہ: پیسے دینے سے انکار پر شوہر نے بیوی کی کلائی کاٹ دی
  • مریم نفیس کے شوہر نے بولڈ ڈریسنگ پر کیا کہا؟
  • علم ہے رازِ حیات