پاکستان میں تقریباً 3 دہائیوں بعد آئی سی سی کے کسی ایونٹ کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جس کے لیے ملک کے 3 انٹرنیشنل اسٹیڈیمز میں بھرپور تیاریاں کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی میں نیوزی لینڈ کے خلاف اوپننگ کون کرے گا؟ کپتان محمد رضوان نے بتادیا

اس سے قبل پاکستان نے آخری مرتبہ سنہ 1996 کے آئی سی سی ورلڈ کپ کی میزبانی کی تھی جو مشترکہ طور پر پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں کھیلا گیا تھا۔

پاکستان کی میزبانی میں چیمپیئنز ٹرافی کا باقاعدہ آغاز بدھ کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں میزبان پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ سے ہوگا۔

ایونٹ میں شرکت کے لیے انگلینڈ کی ٹیم بھی منگل کی علی الصباح لاہور پہنچ گئی ہے جب کہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور افغانستان کی ٹیمیں پہلے سے ہی پاکستان میں موجود ہیں۔

8 ٹیموں کے اس ایونٹ میں بھارت بھی شامل ہے جو اپنے تمام میچز دبئی میں کھیلے گا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم دبئی پہنچ چکی ہے جہاں وہ اپنا پہلا میچ بنگلہ دیش کے خلاف جمعرات کو کھیلے گی۔

مزید پڑھیے: چیمپیئنز ٹرافی ایونٹ کی تیاریاں مکمل، محسن نقوی کی انتظامات کو خوب تر بنانے کی ہدایت

کراچی میں ایونٹ کے افتتاحی میچ کے لیے سینکڑوں سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے اور گراؤنڈ میں صرف اسی شخص کو داخلے کی اجازت ہو گی جس کے پاس ٹکٹ ہو گا۔

پاکستان اور نیوزی لینڈ ٹیموں کی پریکٹس

افتتاحی میچ کے لیے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں نے بھرپور پریکٹس کی ہے۔

محمد رضوان کی قیادت میں پاکستان کا 15 رکنی اسکواڈ فخر زمان، بابر اعظم، سعود شکیل، کامران غلام، نائب کپتان سلمان علی آغا، طیب طاہر، عثمان خان، فہیم اشرف، خوش دل شاہ، ابرار احمد، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ اور محمد حسنین پر مشتمل ہے۔

نیوزی لینڈ ٹیم کو دھچکا

ایونٹ کے افتتاحی میچ سے قبل نیوزی لینڈ کو دوسرا بڑا دھچکا لگا ہے۔ فاسٹ بالر لوکی فرگوسن پاؤں میں انجری کی وجہ سے چیمپیئنز ٹرافی سے باہر ہو گئے ہیں۔

اس سے قبل نیوزی لینڈ کو 15 رکنی اسکواڈ میں اس وقت تبدیلی کرنا پڑی تھی جب فاسٹ بالر بین سیئر پٹھوں کے کھچاؤ کی انجری کا شکار ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: چیمپیئنز ٹرافی، پاکستان کے اسٹیڈیمز میں بھارت کے جھنڈے کیوں نہیں لگائے گئے؟

پاکستان کی میزبانی میں ہونے والا یہ ایونٹ کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں کھیلا جائے گا جب کہ دبئی ایک نیوٹرل ویونیو کے طور پر بھارت کے میچز کی میزبانی کرے گا۔

ایونٹ میں شامل تمام 8 ٹیموں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔

گروپ اے

گروپ اے میں پاکستان، بھارت، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں شامل ہیں۔

گروپ بی

گروپ بی آسٹریلیا، انگلینڈ ، جنوبی افریقہ اور افغانستان کی ٹیموں پر مشتمل ہے۔

ہر گروپ سے 2 ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ پہلا سیمی فائنل 4 اور دوسرا 5 مارچ کو کھیلا جائے گا۔

فائنل مقابلہ پاکستان میں کس صورت میں ممکن؟

بھارت کے فائنل میں نہ پہنچنے کی صورت میں لاہور کا قذافی اسٹیڈیم چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی میزبانی کرے گا۔ دوسری صورت میں فائنل دبئی میں کھیلا جائے گا۔

واضح رہے کہ سنہ 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد کئی برس تک پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان سے بہتر میزبان کوئی اور ہو نہیں سکتا تھا، ایان بشپ

سال 2014 میں دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد ملک میں سیکیورٹی صورتِ حال بہتر ہونا شروع ہوئی اور پھر 2019 میں پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ بحال ہوئی۔ بعدازاں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 20225 پاکستان کرکٹ ٹیم چیمپیئنز ٹرافی افتتاحی میچ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 20225 پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم پاکستان اور نیوزی لینڈ چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں افتتاحی میچ کی میزبانی کے لیے کی ٹیم

پڑھیں:

زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ

ڈاکٹر سلیم خان

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جہاں ملک بھر میں وقف بل کو لے کر شدید بے چینی پائی جارہی ہے وہیں سمراٹ اشوک کی سرزمین بہار میں بدھ مت کے پیروکار مقدس مہابودھی وہار پر ہندو کنٹرول کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ بودھ گیا میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ہندو رسومات بدھ مت کے اصولوں کی خلاف ہیں اس لیے وہار کا مکمل اختیار بودھ سماج کو دیا جائے ۔ مہابودھی وہار کا انتظام و انصرام 1949 کے بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ کے تحت کیا جاتا ہے ۔ اس کے آٹھ رکنی کمیٹی میں ہندو اور بودھ نمائندوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے ، تاہم بودھ رہنما اس قانون کو غیر منصفانہ قرار دے کر مندر کے مکمل انتظامی کنٹرول کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تاریخی اعتبار سے یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب سولہویں صدی میں ہندوؤں نے مندر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے خود ساختہ بودھ گیا مٹھ نے وہار کے دفاع اور تحفظ کی ذمہ داری ازخود اپنے اوپر اوڑھ لی اور اس کے تحفظ کی آڑ میں بودھوں کے سب سے مقدس عبادتگاہ پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ۔
اس معاملے میں حقیقت بالکل ہی برعکس ہے کیونکہ اس بودھ وہار کے تشخص کو انہیں ہندووں سے خطرہ لاحق رہا ہے ۔ ماضی میں جن لوگوں نے مہا بودھی وہار( گیا) کی حفاظت کا ڈھونگ کرکے اسے نگل لیا اب وقف املاک کے محافظ بن کر سامنے آئے ہیں اس لیے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی نیت اور ارادے کیا ہیں؟ سپریم کورٹ میں معلق یہ ہندو بود ھ تنازع حتمی فیصلے کا منتظر ہے ۔ بودھ راہبوں نے گزشتہ ماہ اس معاملے میں بھوک ہڑتال کی تو پولیس نے انہیں زبردستی ہٹادیا۔مظاہرین کا الزام تھا کہ ہندو اکثریت کے زیر سایہ حکومت بدھ مت کے حقوق کو نظرانداز کر رہی ہے ۔ہندو سادھو سنتوں کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے ۔ وہ خود تو ایودھیا سے لے کر کاشی ، متھرا اور اب سنبھل تک جی بھرکے سیاست کرتے ہیں مگر مسلمان یا بدھ مت کے ماننے والے اپنے حقوق کی خاطر میدانِ عمل میں آئیں تو ان کے احتجاج کو سیاسی قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے لیکن اس بار ان کی دال نہیں گلے گی کیونکہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے پرعزم مظاہرین کی یکجہتی میں مسلسل اضافہ ہو تا چلا گیا ۔
مرکزی حکومت میں شامل سماجی انصاف کے وزیر مملکت رام داس اٹھاولے نے گزشتہ ماہ مہابودھی مندر ایکٹ کو فوری طور پر منسوخ کرنے کے سلسلے میں پٹنہ جاکر وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملاقات کی تو اس معاملے کی آنچ این ڈی اے کے خیمے تک پہنچ گئی ۔ ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (آٹھاولے ) کے قومی صدر نے کے ملاقات کے بعد بتایا کہ میٹنگ کے دوران انہیں مثبت نتائج کا یقین دلایا گیا ہے ۔ مودی کے رام راج میں ہندووں کے ہاتھوں سے ایک بودھ وہار ر کا اختیار نکل جانا جسے انہوں نے عملاً مندر بنادیا ہے بی جے پی کے رائے دہندگان کو ناراض کرسکتا ہے ۔ مرکزی وزیر مملکت رام داس اٹھاولے نے اپنے دورے کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ وہ بودھ گیا میں مہابودھی مہاوہار کی آزادی کے لیے بھکشوؤں کی جاری تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اور مہابودھی مندر ایکٹ 1949 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیر موصوف نے گوتم بدھ کے ورثے کو بچانے کے لیے ملک کے مختلف حصوں سے آکاش لامہ جیسے بدھ بھکشووں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس عملاً شریک ہوئے ۔ اٹھاولے نے کہا کہ جب سے ناگارجن سورئی سوسائٹی نے مہابودھی مہاوہار کی آزادی کے لیے تحریک شروع کی ہے ، وہ اس تحریک کے ساتھ ہیں۔
ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (اٹھاولے ) کا مطالبہ ہے کہ بہار قانون ساز اسمبلی میں ”مہابودھی مندر ایکٹ” کو جلد از جلد منسوخ کرے ۔ اس مطالبے کو لے کر دہلی میں بھی مظاہرے کا اعلان ہوا تو اس کو کامیاب کرنے کے لیے رام داس اٹھاولے نے 5 لاکھ روپے کی فوری امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ان کے مطابق بدھ مت دلتوں کو انسانی حقوق فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے ، کیوں کہ یہ مذہب انفرادی وقار اور مساوات پر زور دیتا ہے ۔ اس لیے مہابودھی وہار ٹرسٹ کے صدر اور سکریٹری سمیت تمام عہدوں پر صرف بودھ مت کے پیروکاروں کو ہی تعینات کیا جانا چاہیے نیزٹرسٹ کے تمام ارکان اسی مذہب کے پیروکار ہونے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندو مندروں اور بودھ وہاروں کا انتظام و انصرام اگر اس مذہب کے ماننے والے ہی کرتے ہوں تو وقف بورڈ میں غیر مسلم کا کیا کام ؟ اٹھاولے اس معاملے کو بودھوں تک پہنچایا تو راہل گاندھی نے وقف کو عیسائیوں تک پھیلا دیا ۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک رپورٹ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وقف کے بعد اب آر ایس ایس کی توجہ چرچ کی زمینوں پر مرکوز ہو گئی ہے ۔
راہل گاندھی نے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں کیتھولک چرچ بمقابلہ وقف بورڈ کے عنوان سے شائع مضمون کا حوالہ دیا ۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیتھولک ادارے ملک میں تقریباً سات کروڑ ہیکٹیئر زمین کی ملکیت کے سبب سب سے بڑے غیر سرکاری زمین دار ہیں ۔راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ” وقف بل اس وقت مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے لیکن مستقبل میں یہ دوسرے اقلیتی طبقات پر بھی حملے کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ ملک میں ایک جانب مسلم ، بودھ اور عیسائی اپنی عبادتگاہوں کے تحفظ میں بیدار ہورہے ہیں اور سکھ اور جین برادریاں بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہ ورہیں دوسری جانب ہندو اپنے مندروں میں خود شودروں کو آنے سے روک رہے ہیں اوراگر کوئی بھولا بھٹکا آ بھی جائے تو مندرکے احاطے کو گنگا جل میں گائے کا پیشاب ملا کر مندر کو پاک کررہے ہیں۔ یہ معاملہ اب غیر ہندووں یعنی ہیما مالنی یا شودروں تک محدود نہیں ہے بلکہ کنہیا کمار جیسے بھومی ہار یعنی کاشتکار برہمن تک پہنچ چکا ہے ۔
بہار ی نوجوانوں کا مسائل لے کر جب کنہیا کمار سڑکوں پر اترے اور بیروزگار ی کے خلاف ریاست گیرمہم کے تحت ”نقلِ مکانی روکو، روزگار دو” یاترا شروع کی تو بی جے پی بے چین ہوگئی۔ مہم کے دوران انہوں نے سہرسہ ضلع کے بنگاؤں میں بھگوتی استھان مندر کے اندر خطاب کیاتو انہیں روایتی پگڑی اور مالا پہنا کر اعزاز دیا گیامگر وہاں سے جانے کے بعد وارڈ کونسلر کے نمائندے امت چودھری مندر نے ”گنگا جل” سے مندر کو دھلوایا ۔ اس شرمناک حرکت کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ کنہیا اعلیٰ ذات کے تو ہیں مگران کے ملک مخالف بیانات کووہ نہیں بھولے ۔ یعنی جے این یو کے متنازعہ بیانات کو معاف نہیں کیاجاسکتا۔ بہار کے سانحہ کواگر انتخاب سے جوڑ کر نظر انداز کردیں تب بھی راجستھان کے الگڑ میں کانگریس کے دلت رہنما ٹیکارام جولی کے رام مندر کے پران پرتشٹھا (افتتاحی ) میں حصہ لینے کی مخالفت کا کیا کریں گے ؟
بی جے پی کے گیان دیو آہوجا نے ٹیکا رام جولی کے مندر میں آجانے سے ناراض ہوکر اسے گنگا جل سے پاک کیا ۔ اس شرمناک واقعہ پر راہل گاندھی نے لکھا ،’یہ بی جے پی کی دلت مخالف اور منوادی سوچ کا ایک اور نمونہ! بی جے پی مسلسل دلتوں کی توہین اور آئین پر حملہ کرتی ہے ‘۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ آئین کا احترام ہی نہیں، اس کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے ۔مودی جی، ملک آئین اور اس کے اصولوں کے مطابق چلے گا، نہ کہ اس منوسمرتی کے تحت ، جو بہوجنوں کو کم درجہ کا شہری سمجھتی ہے ‘۔بی جے پی رہنما نے اپنی اس غلیظ حرکت کا ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عمل میں ذات پات کا پہلو نہیں تھابلکہ کانگریس رہنما چونکہ رام کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں اس لیے انہیں ایسے پروگراموں میں شامل ہونے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے ۔اس طرح بی جے پی نے رام پر اپنی مونو پولی بنالی ۔
گیان دیو آہوجا کے مطابق کانگریس پچھلے سال ایودھیا میں رام مندر پران پرتشٹھا ن کی تقریب کا بھی "بائیکاٹ کیا تھا اور ان کا یہ قدم اس نقطہ نظر کی وجہ سے ہے ناکہ جولی کے دلت ہونے کے سبب لیکن اگر ایسا ہے گنگا جل چھڑک کر پاک کرنے کا کیا مطلب ؟ بی جے پی کا ساراجھوٹ مہاراشٹر کے دیولی میں واقع رام مندر میں کھل گیا ۔ وہاں ان لوگوں نے پچھلے 40 سالوں سے اس مندر میں درشن کے لیے جانے والے سابق بی جے پی رکن پارلیمان رام داس تڑس کو اندرجانے سے روک دیا۔ اس سال رام نومی کے موقع پر مندرکے ٹرسٹی اور پجاری نے انہیں برہمن نہ ہونے کے سبب اندر کے حصے میں آنے سے منع کردیا۔ آگے چل کر مندرانتظامیہ نے اس غلطی کو تسلیم کرنے کے بعد معافی تو مانگی مگر چھوت چھات کی ذہنیت کا اظہار ہوچکا تھا ۔ رام داس تڑس نے یہ الزام بھی لگایا کہ کسی زمانے میں اس مندر کے پاس دو سو ایکڑ کھیتی تھی جو اب گھٹ کر پچاس ایکڑ بچی ہے ۔ اس ٹرسٹ کے ہندو ارکان جب اپنے ہی مندر کی تین چوتھائی زمین بیچ کر کھا گئے تو اسی طرح کے ہندو وقف بورڈ میں آکر مسلم املاک کا تحفظ کیسے کریں گے ؟ سچ تو یہ ہے بی جے پی ایک لینڈ مافیا ہے اور اس سے مندر، مسجد، گرجا اور بودھ وہار سبھی خطرے میں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • ایس آئی ایف سی کی کاوشیں ثمرآور، پی پی ایل اور فن لینڈ کی ’میٹسو‘ کارپوریشن کے درمیان اشتراک کا اعلان
  • پبی میں آٹھویں بین الاقوامی پاک فوج ٹیم اسپرٹ مشق 2025 کی افتتاحی تقریب
  • سابق کرکٹرز پر تنقید: شعیب اختر نے محمد حفیظ کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لے لیا
  • زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ
  • اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں سابق پاکستانی کرکٹر کی نواسی شامل
  • کراچی کنگز کے وکٹ کیپر لٹن داس پی ایس ایل سے باہر
  • اوورسیز پاکستانیز کنونشن کا افتتاحی سیشن آج ہوگا، وزیراعظم خطاب کریں گے
  • سنکگران فیسٹیول؛ تھائی لینڈ قونصلیٹ کراچی کل سے دو روز کیلئے بند رہے گا
  • پی ایس ایل 10، کراچی کنگز کے وکٹ کیپر لٹن داس ایونٹ سے باہر ہوگئے
  • پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب؛ دلکش تصاویر وائرل، راکٹ مین کے چرچے