خوشخبری ،اہم ملک میں پاکستانیوں پر ملازمت کرنے پر پابندی ختم
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
پاکستان نے ازبکستان میں اپنے شہریوں پر ملازمتوں کے حصول پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے شہریوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ وہاں پر ملازمت حاصل کر سکتے ہیں تاہم اس حوالے سے ہم ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
میڈیارپورٹ کے مطابق بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ (بی ای اینڈ او ای )کی جانب سے جاری کیے گئے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ تاشقند، ازبکستان میں پاکستانی سفارت خانے نے سفارش کی ہے کہ وہاں پر پاکستانیوں کی ملازمتوں پر عائد پابندی ختم کر دی جائے اس لیے یہ پابندی ختم کی جاتی ہے اور تمام پروٹیکٹوریٹ دفاتر کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ ملازمت کے خواہش مند شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی بحال کر دیں۔
بیرون ملک ملازمتوں کے لیے حکومت پاسپورٹ پر پروٹیکٹر لگا کر دیتی ہے، جس کے بغیر پاکستانی شہری بیرون ملک نوکری کے لیے نہیں جا سکتے۔ یہ ایک مہر یا سٹکر ہوتا ہے جو اب بارکوڈ کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ یہ حکم پہلے سے دئیے گئے اجازت ناموں اور اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز یا براہ راست ملازمت کے خواہشمند افراد کی درخواستوں پر بھی لاگو ہو گا۔جس کے بعد وہ شہری جنھوں نے اپنی کوشش سے ازبکستان کا ورک ویزہ حاصل کیا ہے، وہ سکروٹنی کا عمل مکمل کرتے ہوئے پروٹیکٹوریٹ دفاتر میں ڈائریکٹ امیگریشن کے کانٹرز پر جا کر اپنی رجسٹریشن کرکے پروٹیکٹر لگوا سکتے ہیں۔
اسی طرح اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیورو آف امیگریشن کی جانب سے منظورہ کردہ ڈیمانڈ پر جانے کے خواہشمند افراد کی رجسٹریشن اور پروٹیکٹر بھی بحال کر دیے گئے ہیں، تاہم اس کے لیے پیشگی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ ایسے آجر کے پاس جا رہے ہوں گے جس کی پہلے سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ ایمپلائمنٹ پروموٹر کو بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ازبک آجر سے متعلق تسلی بخش رپورٹ پیش کریں گے کہ وہ پاکستانی ورکرز کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گا۔ازبکستان میں نئے پاکستانی ورکرز کی ڈیمانڈ کے حوالے سے بھی خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جو بھی نئی ڈیمانڈ آئے،
اس کی باضابطہ تصدیق اور سکروٹنی پاکستانی سفارت خانہ کرے گا۔ سکروٹنی کے عمل کے دوران پاکستانی ورکرز کے تحفظ، کام کے ماحول اور ادارے کے مالی حالات کو سامنے رکھا جائے گا۔بیورو آف امیگریشن نے پروٹیکٹوریٹ دفاتر، اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز اور تمام متعلقہ اداروں کو خبردار کیا ہے کہ ان ہدایات پر سختی سے کاربند رہا جائے تاکہ پاکستانی ورکرز کو مستقبل میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خیال رہے کہ دسمبر میں بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے ازبکستان میں پاکستانیوں کے ملازمت کے حصول پر عارضی طور پر روکنے کے احکامات جاری کیے تھے۔عارضی پابندی لگاتے وقت بتایا گیا تھا کہ ازبکستان میں پاکستانی کارکنوں کو نہ صرف تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا سامنا ہے، بلکہ انہیں کام کے دوران غیر موزوں حالات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے میزبان ممالک کے ساتھ مذاکرات کرنے اور معاہدوں کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے بھی کوشاں تھی، جس کے نتیجے میں صورت حال بہتر ہوئی ہے اور اب پاکستانی ورکرز ازبکستان جا سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بیورو ا ف امیگریشن پاکستانی ورکرز ازبکستان میں میں پاکستانی پابندی ختم ہے کہ وہ جاری کی کے لیے
پڑھیں:
جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن برادری مختلف گروپوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان کی سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں مختلف کیٹیگریز میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ پاکستانی نژاد ماہر قانون، انسانی حقوق اور تنازعات کے حل کے لیے سندیافتہ میڈیئیٹر کومل ملک کا کہنا تھا کہ اس ملک میں آباد پاکستانیوں کے سیاسی اور سماجی رویوں کا جائزہ لیتے وقت مختلف عوامل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
ڈی ڈبلیو: جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کاکن شعبوں سے تعلق ہے؟
کومل ملک: حالیہ سالوں میں اچھی خاصی تعداد میں پاکستانی اسکلڈ ورکرز یا ہنر مند کارکن اور طلبہ جرمنی آئے ہیں۔
(جاری ہے)
وہ افراد جو ورک ویزا کے ذریعے آتے ہیں، خاص طور پر آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیکل، اور دیگر شعبوں میں انہیں اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں۔ ایک گروپ کاروباری افراد پر مشتمل ہے، جو جرمنی میں اپنے کاروبار جیسے کہ ریستورانوں، ٹیکسٹائل اور دیگر بزنس کے شعبوں سے منسلک ہے۔
پھر ایک کیٹیگری ہے اسپاؤز ویزہ ہولڈرز کی۔ اس میں وہ افراد شامل ہیں، جو اپنے شریک حیات کی وجہ سے ویزہ حاصل کر کے جرمنی منتقل ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی تعداد پاکستان سے جرمنی آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی بھی ہے۔جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟ڈی ڈبلیو: پاکستانی تارکین وطن کے مشترکہ مسائل کیا ہیں؟
کومل ملک: مشترکہ مسائل اور چیلنجز میں اولین مشکل جرمن زبان کا سیکھنا ہے۔
اگر کوئی جرمن بول نہیں پاتا ہو تو اسے جاب مارکیٹ اور سوشل انٹیگریشن میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر زیادہ تر کو سماجی اور سیاسی انضمام (Integration) میں بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ جرمن معاشرہ نئے آنے والوں کو جلد قبول نہیں کرتا۔معاشی دباؤ بھی ایک اہم فیکٹر ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے، جو پاکستان میں موجود اپنے خاندان کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ جر منی میں آباد پاکستانی برادری کے اندر سپورٹ سسٹم اور اتحاد کی کمی ہے، جس کی وجہ سے نئے آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کا ایک بڑا مسئلہ جرمن قوانین، ویزا پالیسیز اور شہریت کے پراسیس کو سمجھنے میں دقت کا بھی ہے۔پاکستان کے ناموافق حالات اور انسانوں کی اسمگلنگ کا ناسور
ڈی ڈبلیو: جرمنی میں پروان چڑھنے والے پاکستانیوں کو جرمن معاشرے میں اپنا سماجی اور سیاسی مقام حاصل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی کیوں حاصل نہ ہو سکی؟
کومل ملک: یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ایک یا دو نسلیں انتھک محنت کے باوجود جرمن سوسائٹی میں مکمل قبولیت حاصل نہیں کر پائیں۔
یہاں پیدا ہونے والے اکثر نوجوانوں کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ واہ، تم تو بہت اچھی جرمن بولتے ہو۔ ان کے سکن کلر کی وجہ سے ان کی شناخت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مایوس ہونے کی بجائے، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور سیاست میں شرکت کو ترجیح دیں۔ ہم اپنے کام، گھر، اور ذاتی زندگی میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ جرمن سیاست اور سماجی معاملات میں کردار ادا نہیں کر پاتے۔جرمن زبان میں مہارت، سسٹم کی مکمل سمجھ، اور سیاست میں شرکت کے بغیر ہم خود کو کبھی ایک مضبوط کمیونٹی کے طور پر منوا نہیں سکتے۔ جو پاکستانی نوجوان یہاں پیدا ہوئے یا پروان چڑھے ہیں، انہیں سیاست میں آگے آنے کے لیے شدید مقابلے، یا نسل پرستی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈی ڈبلیو: ان مشکلات کا حل کیا ہے؟
کومل ملک: ہمیں سیاست میں اپنی شرکت بڑھانا ہوگی، سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، اور ووٹنگ کے حق کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہو گا۔
اپنی کمیونٹی کے مسائل کے لیے متحد ہو کر آواز اٹھانا ہوگی تاکہ جرمنی میں ہماری سیاسی اور سماجی حیثیت مستحکم ہو۔ پاکستانی کمیونٹی کے اندر کوئی مؤثر نیٹ ورک نہیں جو نئے آنے والوں کو سیاست میں شامل ہونے کی ترغیب دے۔ مزید یہ کہ پاکستانی سیاست اور جرمنی کا سیاسی سسٹم بہت مختلف ہے، جس کی وجہ سے نئے آنے والے لوگ یہاں کے سیاسی نظام سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں۔جرمنی میں نجی یونیورسٹیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت
ڈی ڈبلیو: آپ پاکستانی کمیونٹی کو قانونی اور سماجی آگاہی فراہم کرتی ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ کن مسائل کے حوالے سے کام کرنا پڑتا ہے؟
کومل ملک: بطور پاکستانی وکیل اور میڈیئٹر، میرا تجربہ کہتا ہے کہ درج ذیل مسائل سب سے زیادہ عام ہیں۔ قانونی حقوق سے لاعلمی۔ پاکستانی کمیونٹی کو جرمن امیگریشن، شہریت، رہائشی اجازت نامے، اور لیبر قوانین کے بارے میں بہت محدود معلومات ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ڈومیسٹک وائلنس یا گھریلو تشدد کا بھی ہے۔ خواتین کو گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات، اپنے قانونی حقوق کی آگاہی اور علیحدگی کے معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ لوگ معاشی دباؤ کی وجہ سے اپنی ذاتی اور سماجی زندگی پر صحیح توجہ نہیں دے پاتے، جس کی وجہ سے انٹیگریشن کا عمل مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ جب تک گھریلو اور سماجی استحکام نہیں ہوگا، تب تک کمیونٹی کا سیاسی اور سماجی سطح پر آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ڈی ڈبلیو: پاکستانی تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کے مخصوص مسائل کون کون سے ہیں؟
کومل ملک: جاب مارکیٹ میں امتیازی سلوک، ایک اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اگر وہ حجاب پہنتی ہوں۔ گھریلو ذمہ داریوں کا دباؤ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ کئی خواتین خاندانی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنے پروفیشنل اور سماجی کیریئر پر توجہ نہیں دے پاتیں۔
اس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ کا فقدان۔ پاکستانی خواتین عام طور پر جرمن کمیونٹی میں میل جول نہیں بڑھاتیں، جس کی وجہ سے سیاست میں آنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ کمیونٹی میں سپورٹ کی کمی ہے۔ اگر کوئی پاکستانی خاتون سیاست یا سوشل ورک میں آنا چاہے، تو اسے اپنی کمیونٹی سے زیادہ سپورٹ نہیں ملتی۔جرمنی: بچوں کی دیکھ بھال کے بحران میں کمی کے لیے تارکین وطن پر انحصار
کومل ملک جو پاکستانی برادری کی جرمن معاشرے میں نا صرف نمائندگی کرتی ہیں بلکہ تمام پاکستانی تارکین وطن، چاہے مرد ہوں یا خواتین سب کے گوناگوں مسائل کے حل کے لیے رات دن مشاورت اور تنازعات کے حل کے لیے ثالث کی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔
ان کا ماننا ہہ کہ اپنی جڑوں کو بھولے بغیر پاکستانیوں کو جرمن معاشرتی اور سیاسی نظام کو جاننا، اسے اپنانا اور اس کے لیے کام کرنا چاہیے۔ نیز ووٹ کے حق کے استعمال کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ جرمنی میں پاکستانی با شعور شہریوں کی طرح اپنی پہچان برقرار رکھتے ہوئے اپنا مقام بنا سکیں۔