گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کی مد میں کھاد و بجلی کمپنیوں سے 33 ارب کی کم وصولی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں مالی سال 23-2022 میں گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کی مد میں کھاد اور بجلی کمپنیوں سے 33 ارب روپے کم وصولی کا انکشاف ہوا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نارکوٹکس کنٹرول اور پٹرولیم ڈویژن کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی ممبران نے آڈٹ پیراز کے وقت کے وزیر اور سیکرٹری کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا۔
چیئرمین نے بے ضابطگی کے وقت تعینات سیکریٹری اور وزیر کا نام دستاویزات میں لکھنے کا حکم دیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 30 جون 2023ء تک جی آئی ڈی سی کی مد میں 350 ارب روپے اکٹھے کیے گئے، جی آئی ڈی سی کی رقم پاک ایران گیس پائپ لائن، ٹاپی سمیت اہم منصوبوں پر خرچ ہونی تھی، جی آئی ڈی سی میں سے 3.
کمیٹی ارکان نے کہا کہ جی آئی ڈی سی عوام سے لیا گیا، مقصد پر خرچ ہونا چاہیے تھا۔حکام پیٹرولیم ڈویژن نے جواب دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث رقم پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر خرچ نہیں کی جاسکی۔
اس پر حنا ربانی کھر نے کہاکہ اگر عالمی پابندیاں تھیں تو عوام سے جی آئی ڈی سی کیوں وصول کیا گیا؟ جی آئی ڈی سی کے 350 ارب روپے متبادل منصوبوں پر خرچ کیے جائیں۔
پی اے سی نے ایک ماہ میں پیٹرولیم ڈویژن سے جی آئی ڈی سی فنڈز کے استعمال پر تجاویز طلب کر لیں۔
سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کا قانون 2015ء میں لایا گیا، 2020ء میں سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کو کالعدم قرار دیا، ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر ایران کے ساتھ تنازعہ کے حل پر کام کر رہے ہیں، ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر مصالحت کیلئے رقم جی آئی ڈی سی ہی خرچ کی جا رہی ہے، ٹاپی پر 1 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ان کیمرا بریفنگ رکھ لیں تو تمام تفصیلات بتا دوں گا۔
اجلاس میں مالی سال 23-2022 میں گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کی مد میں کھاد اور بجلی کمپنیوں سے 33 ارب روپے کم وصولی کا انکشاف ہوا۔
نوید قمر نے کہا کہ جی ڈی ایس پر وفاق کا کوئی حق نہیں، صوبوں کی رقم کی وصولی وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں، صوبوں کا حق مار کر کھاد کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔
ڈی جی گیس نے کہا کہ جی ڈی ایس کی مد میں کم وصولی فرٹیلائزر سیکٹر کو سبسڈی کے باعث ہوئی۔ نوید قمر نے کہا کہ فرٹیلائزر کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کماتی ہیں، اس پر ڈی جی گیس نے کہا کہ جی ڈی ایس کے حوالے سے قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔
وزارت قانون کے نمائندے نے استفسار کیا کہ ترمیم کا اس وقت کیا اسٹیٹس ہے؟ اس پر نمائندہ وزارت قانون نے جواب دیا کہ میرے پاس فی الحال یہ معلومات نہیں کہ اس وقت ترمیم کس سطح پر ہے۔
پی اے سی نے وزارت قانون کے جواب پر اظہار برہمی کیا اور سیکرٹری قانون کو خط کے ذریعے اظہار ناراضی کا فیصلہ کیا۔
سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں جائے گا۔ نوید قمر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا، شازیہ مری نے کہا کہ سی سی آئی کا اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
پی اے سی نے سی سی آئی کا اجلاس طلب کرنے کے لیے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ سیکریٹری بین الصوبائی رابطہ کو بھی سی سی آئی اجلاس جلد بلانے کی ہدایت کی گئی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پائپ لائن منصوبے پر جی آئی ڈی سی نے کہا کہ کی مد میں کا اجلاس ارب روپے کم وصولی
پڑھیں:
سٹیل ملز کی 54 ایکڑ زمین 3 یونیورسٹیوں کو دینے کے بعد کینسل کرکے 4 افراد کو دینے کا انکشاف
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )پبلک اکاونٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں سٹیل ملز کی 54 ایکڑ زمین 3 یونیورسٹیوں کو دینے کے بعد کینسل کرکے 4 افراد کو دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
روز نامہ جنگ کے مطابق چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت اجلاس میں پبلک اکاونٹس کمیٹی نے سٹیل ملز کی 54 ایکڑ زمین 4 افراد کو دینے کا معاملہ نیب کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔اجلاس میں پاکستان سٹیل ملز کی 75 ایکڑ زمین نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو استعمال کی زبانی اجازت دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کی 75 کروڑ روپے مالیت کی اراضی پر قبضے کا بھی انکشاف ہوا ہے، گلشن حدید کالونی کے 176 پلاٹس پر تجاوزات قائم کی گئیں، سٹیل ملز انتظامیہ زمین کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی، 54 ایکڑ اراضی بلڈرز اور 4 دیگر افراد کو 30 سالہ لیز پر دی گئی، 4 افراد نے سٹیل ملز کی 35 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر لیا، ان افراد کو 200 پلاٹ الاٹ بھی کئے جا چکے ہیں۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ سٹیل ملز انتظامیہ نے صارفین سے رہائشی نرخ پر بلز وصول کئے، ادائیگی انڈسٹریل نرخ پر کیں، جولائی 2022 سے جون 2023 تک قومی خزانے کو 1 ارب روپے نقصان پہنچایا گیا۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ پلاٹ سٹیل ملز ہاو¿سنگ سکیم گلشن حدید فیز تھری کو الاٹ کئے گئے، پی اے سی نے معاملے پر سٹیل ملز سے ہر 2 ہفتوں بعد رپورٹ طلب کرلی۔
چیئر مین پی اے سی کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں کمیٹی کو نہ بتایا گیا تو کیسں ایف آئی اے کو بھجوائیں گے۔
چیئرمین پی اے سی کا کہنا ہے کہ پی اے سی نے سٹیل مل کی 11 ایکڑ زمین پر قبضے کا معاملہ بھی نیب کو بھجوا دیا، کیا نیب کو ایسے معاملات نظر نہیں آتے یا صرف سیاستدان ہی نظر آتے ہیں، جس پر نیب حکام نے کہا کہ جی نیب کو اس معاملے کا کچھ نہیں معلوم۔نیب نے سٹیل ملز کی زمین پر قبضے کی انکوائری کےلئے2 ماہ کا وقت مانگ لیا۔سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ سٹیل ملز کمرشل نرخوں پر بجلی خرید کر رہائشی نرخوں پر دیتی ہے، یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کے ساتھ اٹھایا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ یہ کیسی ہمدردی ہے، سٹیل ملز کی حالت دیکھیں، ایس آئی ایف سی ایک ایجنسی ہے وہ زمین سے متعلق ہدایات نہیں دے سکتی، آپ ہمیں سمجھائیں کہ ایس آئی ایف سی کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟اجلاس میں موجود نوید قمر نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز کی زمین بہت قیمتی ہے، یہ کراچی کا ایک پرائم علاقہ ہے، کسی کے باپ کا مال نہیں، بورڈ زمین اتنی سستی بیچنے کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے۔
پی اے سی اجلاس میں موجود فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) حکام کہنا ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو ممبران کی کمی کا سامنا ہے، متعدد بار اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ممبران کی خالی نشستوں کے بارے میں آگاہ کیا۔شازیہ مری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر الزام دھرنے کے بجائے ذمہ داری پوری کریں۔پی اے سی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن ممبران کی تعیناتی کا معاملہ حل کرنے کی ہدایت کردی۔ثناءاللہ خان مستی خیل نے اجلاس کے دوران کہا کہ ادارے ایک دوسرے پر تھوپنے کے بجائے صحیح طریقے سے جواب دیں۔
پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی نے وزارتِ صنعت و پیداوار کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا اور مختلف ڈویژنز کی بجٹ کی ناقص منصوبہ بندی پر تشویش کا اظہار کیا۔پی اے سی نے یوٹیلٹی سٹورز کی ڈاو¿ن سائزنگ کے حوالے سے ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔اجلاس میں وزیراعظم کی منظوری کے بغیر انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) رضا عباس شاہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا انکشاف بھی ہوا۔اس حوالے سے نوید قمر نے کہا کہ یہ تو مذاق ہے، کیسے دو سال بعد کابینہ سے اس تنازع کی منظوری لے گئی، امین الحق نے کہا کہ وزیراعظم کی منظوری کے بغیر مدت ملازمت میں توسیع غیر قانونی ہے۔اجلاس میں سی ای او ای ڈی بی رضا شاہ کی مدت ملازمت میں غیر قانونی توسیع کا معاملہ موخر کردیا گیا۔
افغان پناہ گزینوں سے بدسلوکی کے الزامات بے بنیاد ہیں: پاکستان
مزید :