آواران میں سکیورٹی فورسزکے آپریشن میں 3دہشت گرد ہلاک ہو گئے ۔ تفصیلات کے مطابق فورسز نے اواران میں مسلح دہشت گردوں کی ایک مشکوک سرگرمی کو نشانہ بنایا اور فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا،  دہشت گرد اواران میں ایک اہم مقام کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم سکیورٹی فورسز کی مستعدی اور بروقت کارروائی کی بدولت ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ آواران کے علاقے کو مکمل طور پر کلیئر کر دیا گیا اور مزید سرچ آپریشن جاری ہے۔حکام نے کہا کہ اواران میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سکیورٹی فورسز پوری طرح متحرک ہیں اور کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے مکمل تیار ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سکیورٹی فورسز

پڑھیں:

بارکھان میں بس پر حملے میں سات پنجابی مسافر ہلاک، حکام

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) بلوچستان میں حکام کے مطابق مسلح افراد نےضلع بارکھان میں ایک مسافر بس پر حملے میں شناخت کے بعد سات غیر مقامی مسافروں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے متصل غریب لیکن معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کئی دہائیوں سے فرقہ وارانہ، نسلی اور علیحدگی پسند تشدد کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

اس شورش زدہ صوبے میں سکیورٹی فورسز اور نسلی گروہوں پر حملوں میں گزشتہ چند سالوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، حملہ آور خاص طور پر ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے اور خوشحال صوبے اور فوج کے لیے بھرتی کا ایک بڑا مرکز سمجھےجانے والے صوبے پنجاب کے مزدوروں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

(جاری ہے)

بارکھان کے ایک سینئر سرکاری اہلکار سعادت حسین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آوروں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب رات دیر گئے ایک بس پر حملہ کیا، جو بلوچستان سے پنجاب کے ساتھ صوبائی سرحد کے قریب ایک ہائی وے پر سفر کر رہی تھی۔

مسلح افراد بس میں سوار ہوئے اور مسافروں سے شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کیا۔

حسین نے کہا، ''صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو دہشت گردوں نے اتار کر ہلاک کر دیا۔ انہیں قطار میں کھڑا کر کے گولی مار ی گئی۔‘‘ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم، بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) خطے میں سب سے زیادہ فعال عسکریت پسند گروپ ہے، جس نے جنوری میں ایک بم دھماکے میں چھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

ان بلوچ علیحدگی پسندوں نے گزشتہ سال مربوط حملوں میں کم از کم 39 افراد کو ہلاک کیا، جس میں بڑی تعداد میں نسلی پنجابیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نومبر میں، بی ایل اے نے کوئٹہ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس میں 14 فوجیوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے۔

یہ مسلح گروپ ماضی میں بھی صوبے میں غیر ملکی خاص طور پر چین مالی اعانت سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔

علحیدگی پسند بلوچ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر پاکستان کے اس غریب ترین حصے کے رہائشیوں کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔

اے ایف پی اعدادو شمار کے مطابق رواں برس یکم جنوری سے ریاست کے خلاف لڑنے والے مسلح گروپوں کے تشدد میں کم از کم 67 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز کے ارکان کی اکثریت شامل ہے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فارریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کے لیے دہشت گردانہ حملوں کے اعتبار سے ایک دہائی میں سب سے زیادہ مہلک رہا، جس میں 1,600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سکیورٹی فورسز کے 685 اراکین شامل تھے۔

تشدد کی یہ کاروائیاں زیادہ تر شمال اور جنوب میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں تک محدود ہے، بڑے شہروں میں بہت کم حملے ہوتے ہیں۔ بارکھان میں دہشت گردی کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کا پہلا میچ آج بروز بدھ کراچی میں کھیلا جا رہا ہے جس میں آٹھ بین الاقوامی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور وہ میچوں کے لیے راولپنڈی، کراچی اور لاہور کا دورہ کریں گی، جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

ش ر⁄ ر ب (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • لوئر کرم میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کا آپریشن، 18 دہشتگرد، 2 سہولت کار گرفتار
  • بارکھان میں بس پر حملے میں سات پنجابی مسافر ہلاک، حکام
  • جنوبی وزیرستان میں30خوارج ہلاک صدر‘ وزیرداخلہ کا فورسز کوخراج تحسین
  • جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 30 خوارج ہلاک ہوگئے
  • جنوبی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز کا خفیہ اطلاع پر آپریشن، 30 خوارج ہلاک
  • سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 30 خارجی دہشتگرد ہلاک
  • جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کا انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن، 30 خوارج ہلاک
  • جنوبی وزیرستان: سکیورٹی فورسز کا خفیہ اطلاع پر آپریشن، 30 خوارج ہلاک
  • جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن، 30 خارجی ہلاک