نئی دہلی ریلوے اسٹیشن بھگڈر معاملہ کی تحقیقات کی جائے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
دہلی کانگریس صدر نے اس موقع سے کہا کہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر محکمہ ریلوے کی بدانتظامی کیوجہ سے لوگوں کی موت ہوئی جس کیلئے براہ راست محکمہ ریلوے ذمہ دار ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر دیویندر یادو کی ہدایات کے مطابق آج دہلی کانگریس کے قانونی اور محکمہ انسانی حقوق کے ایک وفد نے قومی انسانی حقوق کمیشن سے ملاقات کی۔ کانگریس وفد نے 15 فروری کو نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ریلوے کی بدانتظامی کی وجہ سے مچی بھگدڑ میں مرنے والے لوگوں کی شکایت کے حوالے سے ایک میمورنڈم پیش کیا۔ میمورنڈم میں اس افسوسناک حادثے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی کی تشکیل اور ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وفد کی سربراہی دہلی کانگریس کے قانونی اور محکمہ انسانی حقوق کے چیئرمین ایڈوکیٹ سنیل کمار نے کیا۔ وفد کے دیگر ممبران میں راجیش گرگ چیئرمین بوتھ منیجمنٹ، ایڈووکیٹ ساجد چودھری، ایڈووکیٹ شیخ عمران عالم، ایڈووکیٹ نشکرش گپتا، ایڈووکیٹ میگھا سہرا، ایڈوکیٹ بابر، ایڈوکیٹ پرتاپ سنگھ، ایڈوکیٹ دیپک پائلٹ اور لا طالب علم کارتکیہ گرگ شامل تھے۔
دہلی کانگریس صدر نے اس موقع سے کہا کہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر محکمہ ریلوے کی بدانتظامی کی وجہ سے لوگوں کی موت ہوئی جس کے لئے براہ راست محکمہ ریلوے ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کی بھگڈر نہ مچے اس کے لئے ریلوے گائڈ لائنز جاری کریں، تاکہ دہلی اور دیگر ریاستوں سے کمبھ جانے والوں کی جان بچائی جا سکے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ کمبھ میں بدانتظامی کی وجہ سے 29 جنوری کو بھی پریاگ راج میں بھگڈر مچنے کی وجہ سے 35-40 لوگوں کی موت ہوئی تھی، لیکن مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اس پر کوئی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
دیویندر یادو نے آگے کہا کہ 144 سال بعد مقدس کمبھ میں کروڑوں ہندوستانیوں کی عقیدت ہے کہ وہ گنگا سماگم میں ڈبکی لگائے، جس کے لئے مرکزی حکومت سمیت ریاستی حکومت بھی لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے لیکن لوگوں کے لئے نہ تو ریاستوں کے ریلوے اسٹیشنوں، بس اڈوں اور آمد و رفت کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی کمبھ کی جگہ کو عام لوگوں کے لئے منظم کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا جب مرکزی حکومت اور اترپردیش کی حکومت کمبھ میں کروڑوں لوگوں کے ڈبکی لگانے کا کریڈٹ لے رہی ہے تب کمبھ میں یا کمبھ کے لئے جانے والے لوگوں کی موت کے لئے بھی بی جے پی کی مرکزی حکومت کو ذمہ داری لینی چاہیئے۔ دیویندر یادو نے کہا کہ صرف نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر فی گھنٹہ 1500 ٹکٹ فروخت کی جا رہی ہے، ٹرینوں میں دری، ریلوے کی آمد و رفت میں سدھار کئے جائیں، تاکہ کمبھ جانے والے عقیدت مندوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر بدانتظامی کی دہلی کانگریس لوگوں کی موت محکمہ ریلوے کی وجہ سے ریلوے کی کے لئے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ، مسلمانوں پر سفری پابندیوں کا بل تنقید کی زد میں
سینیٹر کرس کونز نے اس اقدام کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران نافذ کردہ مسلم بین نے امریکا کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا، اب جبکہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں ہیں، وہ ایک بار پھر امیگریشن پالیسی کو خوف اور تعصب کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کی رکن جوڈی چو اور سینیٹر کرس کونز نے نیشنل اوریجن بیسڈ اینٹی ڈسکرمنیشن فار نان امیگرینٹس (NO BAN) ایکٹ کو دوبارہ متعارف کروا دیا ہے جو کسی بھی صدر کو مذہب کی بنیاد پر سفری پابندیاں لگانے سے روکنے کے لیے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کو مزید مضبوط بنائے گا۔ یہ بل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکا میں داخلے پر کسی بھی قسم کی پابندی صرف مخصوص اور مستند شواہد کی بنیاد پر عائد کی جائے اور اس میں کانگریس سے مناسب مشاورت بھی شامل ہو۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کے پہلے دن ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔
اس کے تحت حکومت کو 60 دنوں کے اندر ان ممالک کی نشاندہی کرنی ہو گی جہاں امیگریشن اور اسکریننگ کے عمل میں سنگین خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اس حکم نامے کے تحت ایک نئی سفری پابندی کے نفاذ کی راہ ہموار کی گئی ہے جو ممکنہ طور پر مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ ریپبلکن حکومت کے اس اقدام پر سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کی رکن جوڈی چو نے کہا ہے کہ مسلم بین ہماری قوم کی تاریخ پر ایک بدنما داغ تھا، جو تعصب اور اسلاموفوبیا پر مبنی تھا اور اس نے لاتعداد خاندانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی مہم کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے ایک بار پھر سفری پابندی لگانے کا اشارہ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم اس NO BAN ایکٹ کو دوبارہ متعارف کروا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی بھی صدر کو مذہب کی بنیاد پر پابندیاں لگانے سے روکا جا سکے۔ سینیٹر کرس کونز نے اس اقدام کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران نافذ کردہ مسلم بین نے امریکا کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا، اب جبکہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں ہیں، وہ ایک بار پھر امیگریشن پالیسی کو خوف اور تعصب کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نو بین ایکٹ کا نفاذ اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے تاکہ کسی بھی انتظامیہ کو متعصبانہ پالیسیوں کے نفاذ سے روکا جا سکے۔
ایکٹ کے بنیادی نکات:
یہ بل جلد ہی امریکی کانگریس میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا اور اس کے حامی امید کر رہے ہیں کہ یہ جَلد قانون کی شکل اختیار کر لے تاکہ مستقبل میں کسی بھی صدر کو مذہب کی بنیاد پر سفری پابندیاں لگانے سے روکا جا سکے۔ یہ بل درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
1۔ امیگریشن اور نیشنلٹی ایکٹ میں مذہبی امتیاز کی ممانعت کو مزید واضح اور مضبوط بنانا۔
2۔ کسی بھی سفری پابندی کے لیے مستند اور واضح شواہد فراہم کرنا لازمی قرار دینا۔
3۔ کسی بھی نئی سفری پابندی کے نفاذ سے قبل کانگریس کو 48 گھنٹوں کے اندر مطلع کرنا اور اس پر نظرِ ثانی کی شرائط طے کرنا۔
4۔ کانگریس کی مسلمان ارکان، بشمول الہان عمر، رشیدہ طلیب، اور آندرے کارسن نے اس ’نو بین‘ بل کی بھرپور حمایت کی ہے۔
الہان عمر نے کہا ہے کہ بطور ایک ایسی رکنِ کانگریس جو ماضی میں مسلم بین کا براہِ راست نشانہ بننے والے ملک سے آئی ہو، میں جانتی ہوں کہ یہ پابندیاں صرف امیگرینٹس کے لیے نہیں بلکہ ان کے پورے خاندانوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتی ہیں، NO BAN ایکٹ ایسے ظالمانہ احکامات کے نفاذ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ رشیدہ طلیب نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ ایک بار پھر اسلاموفوبیا کو ہوا دے کر مسلم بین کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں اس امتیازی اور غیر انسانی پالیسی کے دوبارہ نفاذ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
دریں اثناء متعدد انسانی حقوق کے گروپس، بشمول ACLU، نیشنل امیگریشن لاء سینٹر، مسلم ایڈووکیٹس، اور ایمپاور چینج ایکشن فنڈ نے بھی NO BAN ایکٹ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ACLU کے ایک سینئر اہلکار ناؤرین شاہ نے کہا ہے کہ ہم نے پہلے بھی ٹرمپ کے مسلم بین کے خلاف قانونی جنگ لڑی اور اس بار بھی ہم کسی ظالمانہ سفری پابندی کے نفاذ کو ہر ممکن طریقے سے روکیں گے۔ یہ بل پہلی بار 2020ء میں کانگریس میں پیش کیا گیا تھا اور 2021ء میں ایوانِ نمائندگان سے منظور بھی ہو چکا ہے۔ اس وقت کی بائیڈن انتظامیہ نے اس کی حمایت کی تھی جبکہ اب نئی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مسلم بین کے دوبارہ نفاذ کی کوششوں کے پیشِ نظر اس قانون کی منظوری پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔