مودی حکومت آئینی ادارہ پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
کانگریس کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا نام طے کرنے والی کمیٹی کی میٹنگ آئندہ ایک دو دنوں کیلئے ملتوی کر دینی چاہیئے تھی، کیونکہ سپریم کورٹ متعلقہ قانون پر سماعت کرنے والا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق جاری سرگرمیوں کے دوران کانگریس نے مرکز کی مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا نام طے کرنے والی کمیٹی کی میٹنگ آئندہ ایک دو دنوں کے لئے ملتوی کر دینی چاہیئے تھی، کیونکہ سپریم کورٹ متعلقہ قانون پر سماعت کرنے والا ہے۔ کانگریس کے خزانچی اجئے ماکن اور پارٹی ترجمان ابھشیک منو سنگھوی نے اس معاملے میں آج پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس دوران ابھشیک منو سنگھوی نے دعویٰ کیا کہ سلیکشن کمیٹی سے چیف جسٹس کو باہر رکھنے کا مطلب ہے کہ یہ حکومت اس آئینی ادارہ پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کو آج سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ کرنے کی جگہ سپریم کورٹ سے گزارش کرنی چاہیئے تھی کہ معاملے کی سماعت فوری مکمل ہو۔
ابھشیک منو سنگھوی نے الزام عائد کیا کہ موجودہ سلیکشن کمیٹی سپریم کورٹ کے 2 مارچ 2023ء کے اس حکم کی واضح اور براہ راست خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کے انتخاب کے لئے وزیر اعظم، پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائد اور چیف جسٹس کی موجودگی والی کمیٹی ہونی چاہیئے۔ سنگھوی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں پیر کی شام سلیکشن کمیٹی کی جو میٹنگ ہوئی، اس میں پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی بھی شامل ہوئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میٹنگ میں کیا ہوا ہے، یہ آئندہ 24 یا 48 گھنٹے میں پتہ چل جائے گا۔
نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے سنگھوی نے کہا کہ عدلیہ کو حق ہے کہ وہ قانون بنائے، لیکن سپریم کورٹ کے وسیع مقاصد کو سمجھے بغیر مودی حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون بنایا گیا۔ قانون بنانے کے حق کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب وہی قانون بنائے جائیں گے جو حکومت کے موافق ہوں۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ آئندہ 48 گھنٹے میں جب سپریم کورٹ کی سماعت ہو سکتی ہے تو پھر اس میٹنگ کو ملتوی بھی کیا جا سکتا تھا۔ سنگھوی نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ جمہوریت کے جذبات کو بھی درکنار کیا ہے۔ کانگریس کے خزانچی اجئے ماکن نے اس موقع پر کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے اشارہ دیا تھا کہ 19 فروری کو اس معاملے پر سماعت کی جائے گی اور یہ فیصلہ آئے گا کہ کمیٹی کی تشکیل کس طریقے کی ہونی چاہیئے، ایسے حالات میں آج کی میٹنگ کو ملتوی کرنا چاہیے تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: چیف الیکشن کمشنر سلیکشن کمیٹی سپریم کورٹ مودی حکومت کمیٹی کی کی میٹنگ
پڑھیں:
بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جج آئینی بینچ
بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، جج آئینی بینچ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
9 مئی کے ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج گیارہ بجے تک اپنے دلائل مکمل کر دوں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کریں تو زیادہ اچھا ہوگا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہنے دیں تاکہ گیارہ تک مکمل کر لوں، سادہ لفظوں میں بات کروں تو سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے استدلال کیا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے، بین الاقوامی تقاضا ہے کہ ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہییں، دنیا بھر کے ملٹری ٹربیونلز کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں عدالتوں میں جاتی ہیں، یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہوگا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں، شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
سلمان اکرم راجا نے مؤقف اپنایا کہ یوکے میں کورٹ مارشل فوجی نہیں بلکہ آزاد ججز کرتے ہیں،ایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول نہیں تھا، پہلے تو ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار فوجداری ٹرائلز کرتے تھے، کہا گیا اگر ڈی سی فوجداری ٹرائل کر سکتا ہے تو کرنل صاحب بھی کر سکتے۔
سلمان اکرم راجہ نے دلیل دی کہ تمام ممالک بین الاقوامی اصولوں پر عملدرآمد کی رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کرتے ہیں، یو این کی انسانی حقوق کمیٹی رپورٹس کا جائزہ لے کر اپنی رائے دیتی ہے، گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے اجلاسوں میں پاکستان کے فوجی نظام انصاف کا جائزہ لیا گیا، یو این کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان میں سویلنز کے کورٹ مارشل پر تشویش ظاہر کی۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد نہیں، رپورٹ میں حکومت کو فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت دینے کا کہا گیا، یورپی کمیشن کے مطابق 9 احتجاج والوں کا کورٹ مارشل کرنا درست نہیں، یورپی یونین نے ہی پاکستان کو جی ایس پی پلیس سٹیٹس دے رکھا ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس یحیحی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں یہی نکات اٹھائے ہیں، ہزاروں افراد کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہو سکتا تو ان 105 کا کیوں نہیں؟
دوران سماعت سلمان راجہ اور جسٹس نعیم اختر افغان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا،
سلمان راجہ نے کہا کہ یوکے میں ایک فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا، یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اسکا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیدیا تھا، فیڈلی زہنی تناؤ کا شکار تھا، اس نے فائرنگ کی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیڈلی کی فائرنگ سے بھی ایک ٹی وی ٹوٹ گیا تھا، نو مئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا۔
سلمان راجا نے کہا کہ جس نے نو مئی واقعات میں ٹی وی توڑا میں اس سے میری اس سے ، ملاقات ہوئی، وہ بیچارہ شرم سے ڈوبا ہوا تھا، ٹی وی توڑنے والا بیچارہ چار جماعتیں پاس بے روزگار تھا، ہمارے معاشرے نے ایسے لوگوں کو کیا دیا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انفرادی باتیں نہ کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان راجہ سے استفسارکیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات بھی کی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نہیں سلمان راجہ نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے کہا میرا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا، نو مئی والے دن وہ کرکٹ کھیلنے تو نہیں گیا تھا ناں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس قانون کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا وہ قانون کیا ہمارے سامنے ہے، ایڈیشنل اٹارنی ۔جنرل عامر رحمان نے کہا کہ میں وہ قانون ریکارڈ پر لے آؤں گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا وہ قانون محض کلبھوشن کیلئے لایا گیا، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایسے جاسوس جنھیں عالمی عدالت انصاف سے اجازت ہو اسے اپیل ۔کا حق ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہاں اور کتنے کلبھوشن ہیں
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ کلاسیفکیشن کی اجازت تو ایف بی علی میں بھی موجود ہے۔
سلمان راجہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، کوئی جج اخلاقیات اور ماضی کے حالات و واقعات کی بنیاد پر وہ الفاظ آئین میں شامل نہیں کر سکتا جو آئین کے متن میں نہ ہوں، اگر ایسا کرنے کی اجازت دیدی گئی تو یہ بہت خطرناک ہوگا، جج کو یہ اختیار نہیں ملنا چاہیے وہ ایسے الفاظ آئین میں شامل کرے جو آئین کا حصہ ہی نہیں ہیں۔
دوران سماعت سلمان راجہ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آرٹیکل 63 اے نظرثانی کا حوالہ دیا اور کہا کہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل میں بھی یہی اصول طے ہوا اپنی مرضی کے الفاظ کو آئین میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان راجہ سے مکالمہ کیا کہ آپ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل فیصلے کو سراہا، یہ قابل ستائش ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ لگتا ہے آج کا دن عدالتی اعتراف کا دن ہے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اس آئینی بنچ نے صحیح معنوں میں تشریح کرنی ہے۔ وکیل بانی پی ٹی آئی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہلکھے پھلکے انداز میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، ہمارے استاد نے بلیک بورڈ پر لکھا توبہ توبہ شراب سے توبہ، استاد نے کہا ایک شخص اس جملے کو پڑھے گا توبہ توبہ شراب سے توبہ، دوسرا شخص یوں بھی پڑھ سکتا ہے، توبہ توبہ اور شراب سے توبہ، اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک اور مثال بھی دی جاسکتی ہے،انار کلی بازار میں ایک دکان کے باہر لکھا تھا بڑھیا کوالٹی، ایک صاحب نے یوں پڑھ دیا بڑھیا کو الٹی، اس پر بھی کمرہ عدالت میں قہقہے لگے۔
سلمان راجہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے اور آرٹیکل 63اے نظرثانی فیصلوں کا حوالہ
دیا اور کہا کہ دنیا کی کوئی عدالت تب تک آزاد نہیں ہوگی جب تک منصفانہ سماعت کا حق نہیں دے گی، اگر آئین کا آرٹیکل 175(3) نہ بھی ہوتا تو 10 اے کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کی سیکشن 2(D) ون کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منیب اختر نے تو اکثریتی فیصلے میں فوجی عدالتوں کو متوازی عدالتی نظام تصور کیا ہے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے آئین کی یہ تشریح تاریخ کو دیکھتے ہوئے کی، جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ فوجی عدالتوں کی ایک تاریخ ہے، تاریخ کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرنے کے نتائج انتہائی خوفناک ہونگے، یہ آئین کو پڑھنے کا انتہائی خطرناک طریقہ ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جب آئین واضح ہو تو آئین کی خود ساختہ تشریح نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کے مقدمے میں تھا، مگر آپ نے تریسٹھ اے کی نظر ثانی میں درست تشریح کی۔
اس کے ساتھ ہی سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل ہوگئے اور سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کل دلائل کا آغاز کریں گے۔