فیکٹ چیک: روس، جرمن انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) یہ پہلا موقع نہیں ہے جب روس غلط معلومات کے ذریعے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ میں 2024 کے صدارتی انتخابات اور یورپی انتخابات اس کی مثالیں ہیں۔ جرمن پارلیمان (بنڈس ٹاگ) کے مطابق 2021ء کے وفاقی انتخابات کے موقع پر بھی روس نے رائے دہندگان کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
چار سال بعد بھی صورتحال وہی ہے۔ 23 فروری کو ہونے والے وفاقی انتخابات کے سلسلے میں بھی ماہرین بڑے پیمانے پر روسی غلط معلومات کے پھیلاؤ کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کا مقصد خاص طور پر اعتدال پسند جماعتوں کو بدنام کرنا ہے۔ زیادہ تر غلط خبریں گرین پارٹی، سی ڈی یو اور ایس پی ڈی اور ان کے سرکردہ امیدواروں کے خلاف پھیلائی جا رہی ہیں۔
(جاری ہے)
سینٹر فار مانیٹرنگ، اینالسس اینڈ اسٹریٹجی (سی ای ایم اے ایس) کی لی فروہورتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اے ایف ڈی کا ذکر شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے، لیکن جب ایسا ہوتا ہے، تو اس کا مثبت طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔
‘‘سی ای ایم اے ایس ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو سازشی نظریات، یہود دشمنی اور دائیں بازو کی انتہا پسندی جیسے موضوعات پر کام کرتی ہے۔
سرفہرست امیدوار جعلی خبروں کے نشانے پر
یہاں دو تازہ مثالیں پیش ہیں: فروری کے آغاز سے، متعدد ایکس صارفین سی ڈی یو کے ٹاپ امیدوار فریڈرک میرس کی مبینہ ذہنی خرابی کے بارے میں ایک ویڈیو پھیلا رہے ہیں۔
اس کے مطابق میرس نے مبینہ طور پر 2017 میں اپنی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ ان میں سے ایک پوسٹ کو 10 دن کے اندر 5.4 ملین سے زیادہ بار دیکھا گیا۔
پیش کیے گئے ثبوتوں میں ایک ماہر نفسیات البرٹ مرٹنز کی گواہی اور ایک طبی فارم شامل ہیں۔ فارم پر مہر میں مرٹنز کو 'سائیکالوجیکل فزیو تھیراپسٹ‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جرمنی میں سائیکالوجسٹ اور فزیو تھیراپسٹ بالکل ہی مختلف شعبے ہیں۔
فیڈرل چیمبر آف سائیکوتھراپسٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں 'البرٹ مرٹنز‘ کے نام سے کوئی رکن رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، دکھائے گئے پتے پر ایسا کوئی کلینک نہیں جو اس طرح کے فارم جاری کرنے کا مجاز ہو۔اصل میں ، یہ ویڈیو ویب سائٹ ''ووخن اوبرزیشٹ آؤس میونشن ‘‘ پر شائع کی گئی تھی۔ ایک اہم تفصیل: ویڈیو شیئر کرتے وقت، بار بار اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ میرس یوکرین کے لیے ٹاؤرس میزائلوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
گرینز کے سرکردہ امیدوار رابرٹ ہابیک اور ان کی پارٹی کی ساتھی کلاؤڈیا روتھ بھی حال ہی میں غلط معلومات کا شکار ہوئے ہیں۔'ناریٹیو‘ نامی ویب سائٹ پر ایک مضمون اور ایک ویڈیو کے مطابق، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 100 ملین یورو کے مبینہ کرپشن اسکینڈل میں ملوث ہیں۔ اس کا تعلق پروشیا کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی متعدد پینٹنگز سے ہے، جو مبینہ طور پر یوکرین پہنچ گئیں اور پھر آرٹ جمع کرنے والے نجی افراد کو فروخت کر دی گئیں۔
پروشیا کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ اس اشاعت کے تمام دعوے یا تو جھوٹے ہیں یا فرضی۔ان مبینہ انکشافات میں جو چیز مشترک ہے، اور وہ یہ کہ انہیں جھوٹے گواہوں کے بیانات اور جعلی دستاویزات کے ساتھ ایک ہی پیٹرن کے مطابق پیش کیا جاتا ہے، اور وہ سب سے پہلے ایسی ویب سائٹس پر شائع کیے جاتے ہیں جو نیوز پلیٹ فارمز کی طرح نظر آتی ہیں لیکن غلط معلومات پھیلاتی ہیں۔
گنِیڈا نامی آن لائن تحقیقی منصوبے کی ٹیم کے ایک رکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ خصوصیات روسی غلط معلومات پھیلانے کی مہم کی خاصیت ہیں جسے ''اسٹارم-1516‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔مہمات: ڈوپل گینگر، میٹریوشکا اور اسٹارم -1516
گنِینڈا نامی اس منصوبے نے 'کوریکٹیو‘ اور 'نیوز گارڈ‘ جیسے پلیٹ فارمز کے تعاون سے، ایک سو سے زائد جرمن زبان کی ویب سائٹس کا پتہ لگایا، جو ابتدائی طور پر مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ، روس نواز مواد سے بھری ہوئی تھیں۔
بعد ازاں، ان ویب سائٹس کو جھوٹی رپورٹس شائع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ ان خبروں کو 'دوستوں‘ یا 'پیڈ انفلوئنسرز‘ کے ذریعے ایکس یا ٹیلی گرام جیسے پلیٹ فارمز پر پھیلایا جاتا ہے۔’’ڈوپل گینگر‘‘ نامی مہم بھی اسی طرح کام کرتی ہے۔ جرمنی کا وفاقی دفتر خارجہ لکھتا ہے کہ فروری 2022ء میں یوکرین پر روسی حملے کے آغاز کے بعد سے، ''یہ روس نواز بیانیے اور غلط معلومات پھیلا رہی ہے جس کا مقصد مغربی خارجہ پالیسی کو بالعموم بدنام کرنا اور خاص طور پر مغرب کی طرف سے یوکرین کی حمایت کو نشانہ بنانا ہے۔
‘‘امریکہ میں انتخابی مہم میں مداخلت کے بعد امریکی حکومت نے اس کے ذمہ دار روسی عناصر پر پابندیاں عائد کر دیں۔
’ڈوپل گینگر‘ مہم کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ کیونکہ اس میں ڈی ڈبلیو یا بی بی سی جیسے معروف میڈیا کی ویب سائٹس سے ملتی جلتی ویب سائٹس ویڈیوز کا سہارا لیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی فیک چیکنگ ٹیم نے کچھ حقائق کی جانچ پڑتال کر کے حقائق پیش کیے تھے۔
ان میں سے کچھ جعل سازیوں کا جلد ہی پتہ چل جاتا ہے۔ لیکن بائریشر رُنڈ فُنک (بی آر) کی حقائق کی جانچ کرنے والی ٹیم سے 'سی ایم اے ایس‘ سے تعلق رکھنے والے لیِا فرؤہ وِرتھ کے مطابق ''اس کا تعلق معیار کے بجائے مقدار سے ہے۔‘‘
’’ماتریوشکا‘‘ نامی مہم بھی اسی طرح کا کام کرتی ہے۔ بوٹس کی ایک بڑی تعداد ''توجہ بٹانے کی کوشش‘‘ کرتے ہیں۔
صحافی جعلی خبروں کی بھرمار سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی اصلیت جاننا چاہتے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اس طرح جھوٹے دعوے پھیلائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والوں کے کام کو 'بلاک‘ کیا جاتا ہے۔آزاد روسی میڈیا پراجیکٹ ''ایجنٹس ٹو‘‘ لکھتا ہے کہ ''ماتریوشکا‘‘ بوٹس نے جنوری کے آخر میں چند دنوں کے اندر کم از کم 15 جعلی ویڈیوز پھیلائیں۔
اور یہ ویڈیوز ڈی ڈبلیو اور جرمن میڈیا بِلڈ سے ملتی جلتی تھیں۔ انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں یہ بتایا گیا کہ جرمنی مبینہ طور پر دہشت گردی کے خطرے، جرائم میں اضافے اور انتخابات سے قبل ووٹروں کے خوف سے نبرد آزما ہے۔روس خاص طور پر دو جماعتوں کی حمایت کرتا ہے
بیرگشے رُنڈ فُنک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نیوز گارڈ کی لیونی فالر کا کہنا تھا کہ روس کے اہداف ''سب سے بڑھ کر غیر یقینی صورتحال پھیلانا، اور ووٹروں کو پولرائز کرنا ہیں۔
‘‘ یہ بات حیران کن ہے کہ جزوی طور پر دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی (اے ایف ڈی) اور اس کی ٹاپ امیدوار ایلس وائیڈل کے بارے میں اکثر مثبت خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ 2024 کے اوائل میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ''ڈوپل گینگر‘‘ مہم کا مقصد اے ایف ڈی کے ووٹوں کا حصہ کم از کم 20 فیصد تک لانا تھا۔ حالیہ جائزوں کے مطابق وفاقی انتخابات سے قبل جائزوں کے مطابق اے ایف ڈی کو 20 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ اب اس کا ڈوپل گینگر کی مہم سے کوئی تعلق ہے یا نہیں یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔فالر کو شبہ ہے کہ اے ایف ڈی کو روس کی حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں روس کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتی ہے۔ اپنی انتخابی مہم میں اس پارٹی نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، اے ایف ڈی یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت بھی نہیں کرتی۔
سی ایم اے ایس کی لیا فرؤہ وِرتھ نے ایک اور پارٹی کا بھی ذکر کیا ہے جسے روسی پراپیگنڈے کی حمایت حاصل ہے، سارا واگن کنیشٹ الائنس (بی ایس ڈبلیو)۔ اس پارٹی نے اپنے انتخابی پروگرام میں یوکرین کی جنگ کو روس اور امریکہ کے درمیان پراکسی جنگ کے طور پر پیش کیا ہے جس سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ بی ایس ڈبلیو چاہتی ہے کہ جرمنی دوبارہ روس سے قدرتی گیس خریدے۔
اسٹفٹنگ مرکیٹر کے فیلکس کارٹے روس کی طویل المدتی حکمت عملی کے مقابلے میں بنڈس ٹاگ انتخابات کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کو نسبتاﹰ کم خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جن مسائل اور بیانیوں پر کریملن برسوں سے غلبہ حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ جرمن عوامی بحث میں بھی اب غالب آ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ کہ یورپ کی تمام حکومتیں بدعنوان ہیں اور وہ اظہار رائے کی آزادی کو دبا رہی ہیں، یہ بیانیہ یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے بھی پھیلایا جاتا ہے۔
جرمنی روسی غلط معلومات کے خلاف اپنا دفاع کیسے کر رہا ہے؟
کریکٹیو ریسرچ سنٹر کے ایک سوال پر جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے بتایا کہ جرمنی میں غیر ملکی ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے غلط معلومات پھیلانا عام طور پر قابل سزا نہیں ہے۔ اس کے باوجود وزارت کے مطابق ایک انٹر ڈپارٹمنٹل ورکنگ گروپ غلط معلومات جیسے خطرات سے نمٹ رہا ہے۔
بی آر کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں اس وزارت نے لکھا ہے کہ اس کی توجہ غلط معلومات کے بارے میں عوامی بیداری بڑھانے اور تمام عمر کے گروپوں میں خبروں اور میڈیا خواندگی کو فروغ دینے پر ہے۔ مزید کہا گیا کہ روسی غلط معلومات کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے کے لیے حکومت دیگر ریاستوں اور سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔
ڈیجیٹل ماہر فیلکس کارٹے کے بقول تاہم، حقائق کے ساتھ غلط معلومات کا مقابلہ کرنا کافی نہیں ہے۔
سیاست کو معاشرے کی بنیادی جذباتی ضروریات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ یعنی مختصراﹰ، ''بہتر سیاست کرنا‘‘یہ مضمون اے آر ڈی-فیکٹ چیکرز، بی آر 24 فیکٹن فُکس اور ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کے درمیان تعاون سے لکھا گیا۔
کیتھرین ویسولوسکی، تیتیانہ کلُگ (ا ب ا/ا ا)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے روسی غلط معلومات غلط معلومات کے کے بارے میں کیا جاتا ہے ایم اے ایس ویب سائٹس اے ایف ڈی کے طور پر کی حمایت کے مطابق کے خلاف کہ جرمن نہیں ہے کی کوشش کے ساتھ رہا ہے اور ان
پڑھیں:
جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) جرمنی میں 7 ملین سے زیادہ اہل ووٹرز جو یا تو خود تارکین وطن ہیں یا ان کے والدین کا شمار تارکین وطن برادری میں ہوتا ہے، آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 7.1 ملین اہل رائے دہندگان، کا تناسب آٹھ جرمن ووٹرز میں ایک ووٹر بنتا ہے۔ سماجیات کے ایک معروف جرمن ماہر فریڈریک رؤمرجرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (DeZIM) سے وابستہ ہیں اور انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک مطالعہ کے شریک مصنف ہیں۔
اس تحقیق میں ان لوگوں کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود جرمنی ہجرت کر کے آئے ہیں یا جن کے والدین تارکین وطن کے طور پر جرمنی آ کر آباد ہوئے تھے اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔(جاری ہے)
جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے
یورپ میں مہاجرت اور مہاجرین سے متعلق تمام تر معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ''انفومائگرنٹ‘‘ کے 2022 ء کے اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں۔
ان میں سے اکثر گھرانوں کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے لیکن سیاسی سطح پر پاکستانی برادری اس مغربی ملک میں بڑی حد تک غیر فعال نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن برادری جرمن معاشرے میں اپنے لیے کوئی خاطر خواہ سماجی اور سیاسی جگہ بنانے میں اب تک بہت کامیاب نظر نہیں آرہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد ایسے پاکستانی نژاد باشندوں سے بات چیت کی جن کی دوسری اور تیسری نسلیں جرمنی میں پروان چڑھ چُکی یا رہی ہیں۔جرمنی میں تارکین وطن کا سماجی انضمام نسبتاﹰ بہتر، او ای سی ڈی
پاکستان سے جرمنی آکر تعیلم حاصل کرنے کے بعد جرمن سماجی شعبے میں بے حد فعال کر دار ادا کرنے والی شاھدہ پروین کہتی ہیں کہ 1984 ء سے وہ جرمنی میں آباد ہیں اور اب تک انہوں نے پاکستانی نژاد باشندوں کو ایکٹیو سیاست میں حصہ لیتے نہیں دیکھا۔ ایک نامور سوشل ورکر اور ایجوکیشنسٹ شاھدہ پروین مغربی جرمن شہر ویٹن میں انضمام کی مشاورتی کونسل میں بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی باشندے جرمنی آکر یہاں سکونت اختیار کرتے ہیں، یہاں کی سہولیات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن یہاں کی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آخر ایسا کیوں ہے، شاھدہ پروین نے کہا،''سیاست میں حصہ لینے کے لیے سیاسی ، سماجی معاشرتی، تعلیمی، تربیتی اور ثقافتی شعور لازم ہے۔ زیادہ تر لوگ محض اپنے معاشی معاملات سے ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ چند خاص شعبوں کا انتخاب کر لیتے ہیں مثلاً آئی ٹی کا میدان، میڈسن کا شعبہ یا کاروبار سنبھالنے پر تمام تر توجہ مرکوزرکھتے ہیں۔‘‘ شاھدہ پروین کا مزید کہنا تھا،''کسی ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم ہمارے ہم وطنوں کی توجہ قطعاً اس جانب نہیں ہوتی۔‘‘نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟
شہر بون میں آباد ایک اور معروف پاکستانی نژاد جرمن شہری توقیر احمد اعلیٰ تعیلم کے لیے جرمنی آنے کے بعد بزنس کے شعبے سے منسلک رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خو د کو مختلف سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔
ان کہنا ہے کہ وہ 1990 ء سے جرمن شہریت لینے کے بعد سے جرمنی کے تمام الیکشنز میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے توقیر احمد نے کہا،''ووٹ کاسٹ نہ کرنا ایک جرم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جمہوریت کا فروغ نہیں چاہتے۔ جمہوریت کا پروسس قیمتی ہوتا ہے۔ ووٹ نہ ڈال کر دراصل آپ انہیں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں جنہیں آپ پسند نہیں کرتے۔ میں ہمیشہ انتہاپسندی کے خلاف احتجاج کا حصہ بنتا رہا ہوں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کے خلاف کولون میں ہونے والے مظاہرے میں شامل ہوا۔ بون میں بھی مظاہروں میں شرکت کی۔‘‘برانڈنبرگ انتخابات: حکمران جماعت کی اے ایف ڈی پر معمولی برتری
توقیر احمد کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم جرمنی جیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں اظہار خیال میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی۔
‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے گہری سیاسی دلچسپی کے باوجود ایکٹیو سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ان کا کہنا تھا،'' کیونکہ میں اپنی فیملی کی پہلی نسل سے ہوں جسے جرمنی آکر روٹی روزی کمانے کی فکر تھی جس کا اللہ نے بہت اچھی طرح موقع فراہم کر دیا۔ افسوس یہ کہ میرے تین میں سے کسی ایک بچے نے بھی ایکٹیو سیاست میں آنے کی کوشش ہی نہیں کی۔‘‘جرمن انتخابات 2025کے تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آخر جرمنی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کے باوجود پاکستانی نژاد نوجوان سیاست میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس بارے میں برلن میں متعدد دہائیوں سے آباد ایک اور پاکستانی ادبی اور کاروباری شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' جرمنی میں آباد زیادہ تر پاکستانی باشندوں نے اب تک جرمن معاشرے اور اقدار کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
اکثر پاکستانیوں کی نظروں میں جرمنی کی اکثریتی آبادی کافر ہے۔ اس سوچ اور رویے کا رد عمل یہ ہے کہ جرمن باشندے پاکستانیوں کو اپنے معاشرے کا حصہ سمجھنے اور قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔‘‘جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش
ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہی اور انہوں نے تارکین وطن پاکستانیوں کی کئی نسلوں کی سرگرمیوں کا قریب سے جائزہ لیا ہے۔
پاکستانیوں کے سیاسی رویے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''یہاں رہنے والے پاکستانی اپنا تشخص تلاش کرتے ہیں جو انہیں صرف پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی ہی سے ملتا ہے اور وہ اپنی تمام سیاسی توانائیاں پاکستان میں نمائندہ جماعتوں کے ارکان یا عہدے داران کی حیثیت سے صرف کرتے ہیں۔‘‘جرمن دارالحکومت برلن ہی کی ایک اور معروف سماجی شخصیت، ایک کامیاب بزنس مین اور پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کے والد ہیں۔
ان کے بچے پیدائشی جرمن ہیں اور اب ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ منظور اعوان 2019 ء سے پاکستان پیپلز پارٹی برلن کے صدر بھی ہیں۔منظور اعوان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' جرمن سیاسی نظام کا حصہ بننے کے لیے آپ کا جرمن شہری ہونا لازمی ہے۔ یہاں کی شہریت حاصل کرنا بہت پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔
جرمن زبان پر عبور ہونا بھی لازمی ہے۔‘‘ تاہم منظور اعوان کے مطابق نئی نسل کے لیے یہ تمام عوامل مشکل نہیں ہیں۔جرمنی غیر ملکی ہنرمند کارکنوں کے لیے پرکشش کیوں نہیں رہا؟
پاکستانیوں کے مجموعی سیاسی رویے کے بارے میں منظور اعوان نے کہا،''پاکستان میں سیاسی عمل کا تسلسل جاری نہیں ہے اور ووٹ کی اہمیت کا احساس بھی باشندوں میں کم ہی ہے۔
اس رویے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو سیاست میں شامل کرنے کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے جو ہماری ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام حکومت کو تقویت ملے۔ میڈیا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘1980ء سے جرمنی میں آباد منظور اعوان نے سن 2000 میں جرمن شہریت حاصل کی اور تب سے وہ اور انکی فیملی کے تمام اہل ووٹرز جرمنی کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں جرمنی میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے اچھے مواقع موجود ہیں۔ لیکن تارکین وطن پاکستانیوں کو سماجی اور سیاسی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔