6 جنوری کو مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان کیا ہوا؟ شریک ملزم کے لرزہ خیز انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 فروری 2025ء ) مصطفیٰ عامر قتل کیس میں 6 جنوری کو پیش آنے والے واقعات سے متعلق ایک اور ملزم شیراز نے سنسنی خیز انکشافات کردیئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار شریک ملزم شیراز کی سنسنی خیز انٹیروگیشن رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں ملزم شیراز نے بتایا کہ ارمغان کے پاس بہت پیسہ تھا اس لیے اس سے دوستی کی، نیو ایئر نائٹ پرارمغان نے اپنے بنگلے پر پارٹی رکھی، 5 جنوری کو ارمغان نے کال کرکے مجھے اپنے بنگلے پر بلایا، رات 10 بجے جب بنگلے پر پہنچا تو ارمغان کے ساتھ ایک لڑکی بھی وہاں موجود تھی۔
انویسٹی گیشن رپورٹ مٰیں شریک ملزم کا کہنا ہے کہ ارمغان نے لڑکی سے جھگڑا کیا تھا اور لڑکی کے پاؤں پر خون لگا ہوا تھا، میرے پہنچنے کے بعد ارمغان نے لڑکی کو آن لائن کیب میں واپس بھیج دیا جب کہ 6 جنوری کو مصطفیٰ نے بھی کال کرکے مجھے ارمغان کے بنگلے پر پہنچنے کا کہا، وہاں پہنچا تو دیکھا مصطفیٰ نے ارمغان کو ایک شاپر دیا جس کےبدلے ارمغان نے ڈیڑھ لاکھ روپے دیئے لیکن کچھ ہی دیر بعد ارمغان نے مصطفیٰ کو گالیاں دینے کے بعد سیاہ رنگ کے ڈنڈے سے مارنا شروع کردیا۔(جاری ہے)
انٹیروگیشن رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ ارمغان نے مصطفیٰ کے سر اور گھٹنوں پر مارا جس کی وجہ سے اس کا خون بہنا شروع ہوگیا، اس کے بعد پھر ارمغان نے ایک رائفل اٹھائی اور دیوار پر 2 فائر کیے، دھمکانے کے بعد مصطفیٰ کو اسی کی گاڑی میں ڈالا گیا اور بلوچستان لے جاکر گاڑی سمیت جلا دیا گیا، بعد ازاں ارمغان کے گھر میں لگنے والے خون کے نشانات کو ملازمین سے صاف کروایا گیا، تاہم مجھے اس کا نہیں پتا کہ مصطفیٰ کی والدہ کو تاوان کیلئے کس نے کال کی تھی۔ بتایا جارہا ہے کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا، 25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی تو مقدمے میں اغواء برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئیں، تفتیش کے دوران لیڈ ملنے پر 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم ارمغان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا تو ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا جس کے بعد جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے ملزم ارمغان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کی بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جس کے خلاف پولیس نے سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی، اس دوران ابتدائی تفیش میں ملزم نے اعتراف کیا کہ ’اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی‘ تاہم بعد میں وہ اس بیان سے منحرف ہوگیا۔ پولیس حکام سے معلوم ہوا کہ اے وی سی سی، سی پی ایل سی اور وفاقی حساس ادارے نے مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کو بھی گرفتار کیا، ملزم شیراز سے تفتیش کی گئی تو اس نے اعتراف کیا کہ ’ارمغان نے اس کے ساتھ مل کر مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا جس کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں بلوچستان کے علاقہ حب میں لے کر جلادی تھی‘، ملزم شیراز کی نشاندہی پر پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی جہاں حب پولیس مقتول کی لاش پہلے ہی رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی، ادارے نے امانت کے طور پر مصطفیٰ عامر کی میت حب میں ہی دفن کردی تھی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ارمغان کے جنوری کو بنگلے پر کے بعد
پڑھیں:
مصطفی عامر قتل کیس، مصطفی کی گاڑی اور لاش کو جلادیا، ملزم کا پولیس بیان
مصطفی عامرمیرااورارمغان کا دوست تھااور وہ ویڈ فروخت کرنے کا کام کرتا تھا
مصطفی کی لاش اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان لے گئے، پولیس کو بیان
اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفی عامر کے قتل کیس میں ملزم شیراز کی پولیس انٹروگیشن رپورٹ سامنے آگئی، گرفتارملزم کی رپورٹ میں کئی سنسی خیزانکشافات سامنے آئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق مقتول نوجوان کے قتل کے الزام میں گرفتارملزم سید شیرازحسین عرف شاہ وزیز کی پولیس انٹروگیشن رپورٹ سامنے آگئی، گرفتارملزم نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ ارمغان میرا بچپن کا دوست اوراسکول فیلو ہے ، ڈیڑھ سال قبل ارمغان میرے گھرآیا، اس کے پاس نئی گاڑیاں تھیں اوروہ بہت مالدارہوگیا تھا۔رپورٹ کے مطابق ملزم نے کہا کہ میں نے اس سے دوبارہ دوستی کرلی ، اس کے بعد میرا ارمغان کے گھرآنا جانا شروع ہو گیا، مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ بنگلہ اس کا اپنا ہے یا کرایہ کا ہے ، ارمغان نے بنگلے میں شیر کے بچے بھی پالے ہوئے تھے ، کچھ عرصے قبل ارمغان نے شیرکے بچے فروخت کردیئے تھے ۔مذکورہ بنگلے کے علاوہ اس سے پہلے اس کی رہائش کہاں تھی اس کے علم میں نہیں، ارمغان اس بنگلے میں اکیلا رہتا تھا اورارمغان بنگلے میں کال سینٹر کا کام کرتا تھا اورکال سینٹر میں 30 سے 35 افراد بھی اس کے پاس کام کرنے کے لیے آئے تھے ۔رپورٹ کے مطابق ارمغان نے بنگلے میں 30 سے 35 سیکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے تھے ، ارمغان کے خلاف گزری، درخشاں میں پیسوں، فائرنگ اور دیگرایف آئی آرز درج ہوئیں اور پھر کسٹم کیس میں گرفتار ہوا تواس نے کال سینٹر کا کام بند کردیا تھا اورسیکیورٹی گارڈز بھی ہٹا دیے تھے ۔بیان کے مطابق شیر بھی کسی کو دے دیے تھے ، ارمغان کا لڑکیوں سے ملنا جلنا تھا اوراسے اسلحہ رکھنے کا بھی شوق تھا، ارمغان نے 7سے 8 بڑی رائفلیں اوربڑی تعداد میں ایمونیشن بھی رکھا ہوا تھا اور 3سے 4پستول بھی اس کے پاس تھے ، ارمغان کا آئے روز فائرنگ کرنا، لڑائی جھگڑا اورمارپیٹ کرنا کام تھا۔ملزم شیرازنے بتایا کہ میرااسٹیٹ کا کام ختم ہو چکا تھا لہٰذا ارمغان مجھے مالی مدد بھی کرتا اور جب بھی رقم چاہیے ہوتی تو ارمغان مجھے رقم بھی دیتا تھا، ارمغان ویڈ کا نشہ کرتا ہے اور میں بھی ڈیڑھ سال سے اس کے ساتھ ویڈ کا نشہ کررہاہوں۔اس نے کہا کہ مصطفی عامرمیرااورارمغان کا دوست تھا اورمیری ملاقات ارمغان کے پاس ہی اس سے ہوئی تھی اور یہ ویڈ فروخت کرنے کا کام کرتا تھا اورارمغان اسی سے ویڈ خریدتا تھا اور مصطفیٰ کا اکثرارمغان کے بنگلہ پرآنا جانا تھا، مصطفیٰ پہلے اے این ایف کیس میں بھی بند ہوچکا تھا۔ملزم شیرازنے بتایا کہ نیوایئرنائٹ ارمغان نے اپنے بنگلے پرپارٹی رکھی ہوئی تھی جس میں کافی لڑکے لڑکیاں دوست آئی ہوئی تھی، میں بھی رات 12 بجے سے لیکر3 بجے تک پارٹی میں رہا، اس رات پارٹی میں مصطفی نہیں آیا تھا، 5 فروری کی رات مجھے ارمغان کی کال آئی کہ فوری گھرآؤ۔رپورٹ کے مطابق میں را ت کو10بجے اس کے بنگلے میں اس کے کمرے میں پہنچا تواس کے سامنے ایک لڑکی موجود تھی جس کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا جو کہ ارمغان کی مارپیٹ سے زخمی ہوئی تھی، پھرارمغان نے آن لائن رائیڈ بک کی اورلڑکی کواسنائپر کی گولی دکھائی اورکہا کہ اگرکس کو بتایا تویہ گولی تیرے بھیجے میں اتاروں گا، سیدھا اسپتال جاؤاورعلاج کراؤ، اسپتال والے پوچھیں تو کہنا کہ کوئی پولیس کارروائی نہیں چاہتی، اسپتال اورگھر والوں کو بتانا کہ نامعلوم افراد نے اسے اور آن لائن کاررائیڈر کے ساتھ مارپیٹ کی ہے ۔ملزم شیراز نے دوران تفتیش بتایا کہ مصطفی کی والدہ کو تاوان کی کال اورانٹرنیشنل نمبر سے آئے میسیج ارمغان نے کیے یا کسی اورنے مجھے علم نہیں، مجھے پولیس نے 14فروری کو کورنگی روڈ ڈی ایچ اے سے گرفتارکیا۔اس نے بتایا کہ میں پہلی دفعہ گرفتار ہوا ہوں، اس واقعے سے پہلے میرے اوپر کوئی مقدمہ نہیں ہے ، ارمغان کے ساتھ مل کر یہ کام کیا، مصطفی کی لاش اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کربلوچستان کے علاقے لے گئے ، وہاں گاڑی اورلاش کو جلادیا، ارمغان کے بنگلے پر مارپیٹ سے مصطفی کا خون نکلا،جسے ارمغان نے اپنے ملازمین سے صاف کروایا تھا۔