Islam Times:
2025-02-20@20:21:30 GMT

جیل کاٹنے والوں کو کندن بنا کر رکھ دیتی ہے، خواجہ سعد رفیق

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

جیل کاٹنے والوں کو کندن بنا کر رکھ دیتی ہے، خواجہ سعد رفیق

سابق وفاقی وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ جیل میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا ہے، میں نے کوشش کی تھی کہ الیکشن نہ لڑوں، میرے الیکشن نہ لڑنے کی سوچ کے پیچھے بہت سے عوامل تھے، مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، سب کو پیغام جانا چاہیے، جو خرابی کریگا وہ خرابی بھگتے گا، سیاست دانوں کو سبق سیکھنا چاہیے، جھوٹ بول بول کر لوگوں کو مسلسل گمراہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ رہنما مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے مشکل میں صرف وہ نہیں جو جیل میں ہیں، بلکہ سب مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، نہیں چاہتا جو ہمارے ساتھ ہوا ہمارے کسی مخالف کیساتھ بھی ہو۔ لاہور میں اپنے انتخابی حلقے میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست، جمہوریت ، ساکھ، اسٹیبلشمنٹ کے رول پر بڑا غور کیا، تجزیہ کیا، جیل بڑی تکلیف دہ چیز ہے، مگر اس کے فائدے بھی ہیں، جیل کاٹنے والوں کو کندن بنا کر رکھ دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا انسان جو اپنے لیے سوچتا ہے، رحمان اس سے بڑھ کر اچھا سوچتا ہے، جیل میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا ہے، میں نے کوشش کی تھی کہ الیکشن نہ لڑوں، میرے الیکشن نہ لڑنے کی سوچ کے پیچھے بہت سے عوامل تھے، میں نہیں چاہتا جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ ہو۔ ان کا کہنا ہے مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، سب کو پیغام جانا چاہیے، جو خرابی کریگا وہ خرابی بھگتے گا، سیاست دانوں کو سبق سیکھنا چاہیے، جھوٹ بول بول کر لوگوں کو مسلسل گمراہ کیا گیا۔ مصنف :

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: الیکشن نہ

پڑھیں:

تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان

تصوف اسلامی معاشرت و ممالک اور خاص طور پر برصغیر میں روحانیت بعض ترک دنیا اور کچھ قرب الٰہی حاصل کرنے کا مفہوم دیتے ہیں۔ مسلمان علماء میں سے بہت سے متفق اور زیادہ تر غیر متفق ہی نہیں باقاعدہ معترض ہیں۔ اسلامی تاریخ میں تیسری ہجری میں اس کی شروعات کے شواہد ملتے ہیں۔ برصغیر میں بڑے علماء اور فقراء کے باقاعدہ آگے سلسلے چلتے جاتے ہیں لیکن انسانی تاریخ اور اس کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ تصوف پر صرف مسلمانوں کا قبضہ تصور کرنا سخت زیادتی ہے۔ انسان روح اور بدن کے سنگم کا نام ہے۔ روح کو ہمیشہ فطرت کے مطابق پاک جانا جاتا ہے جبکہ بدن بر تقاضا بشریت اس کے برعکس ہے۔ کسی شخص کے بشری تقاضوں پر روح حاوی ہو اور اپنا کردار ادا کرتی رہے تو وہ شخصیت روحانی شخصیت کہلاتی ہے۔ بشریت کے تقاضے انسان کا حسن مگر ان پر قابو پانا اور روح راج ہونا صوفی اور نیک سیرت ہونا ہے۔ بشری تقاضوں میں ڈوبا ہوا شخص معاشرتی حیوان کہلاتا ہے جب ایسا کیا جائے تو روح کا کچھ لینا دینا نہیں۔ روح کو آقا کریمؐ نے امر اللہ قرار دیا۔ اس کے تجربہ کیلئے کوئی اپنی ذات کی تلاشی لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ وہ ہر وقت ایک کی بجائے دو کیوں ہے۔ اگر بازار میں ہے تو اس کی توجہ گھر میں، گھر میں ہے تو توجہ دفتر میں ہے۔ یہ انسان سے جدا ہو کر اس کا اپنا آپ ہی اگر کہیں اور ہے اس کو روح کہا جا سکتا ہے۔ ہندوئوں، پارسیوں، عیسائیوں، بدھوں غرض دنیا کے تمام مذاہب حتیٰ کہ ملحدین میں بھی صاحب تصوف لوگ پائے جاتے ہیں البتہ اسلامی حوالہ سے اس کا جائزہ لیا جائے تو تزکیہ نفس اور حصول قرب الٰہی و بارگاہ رسالتؐ میں شرف قبولیت اس کا مرکز ہے۔تصوف فرقہ واریت اور نفرت سے پاک ہوا کرتا ہے۔ اہل تصوف میں جن کو معراج حاصل ہو وہ صاحب کشف بھی ہوا کرتے ہیں جن کو القاء ہونا معمولی بات ہے۔ انسانوں کی انتہائی تھوڑی انگلیوں پر گنی جانے والی ہستیاں اس سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیت صاحب علم بھی ہو دینی علم کے علاوہ اس کو سائنسی علوم پر بھی دسترس ہو، علم العداد بھی ہو اور یہ انسانیت کا مبلغ ہونے کے ساتھ قرآنی آیات مبارکہ کے فضائل سے بھی بھرپور واقف ہو۔ اللہ پر اس کے اس کرم کو جب زبان ملے گی جب وہ بات کرے گا تو پھر لوگ اس کو پروفیسر جناب احمد رفیق اختر صاحب کے نام سے جانیں گے۔ آج ان کے معتقدین دنیا بھر میں پائے جاتے، ہزاروں گھرانے ان کی بات سنتے ہیں۔ آیات مبارکہ اور دعا جات کے علم اور انسانی مسائل ورد کے ذریعے حل ہونے کا کشف انہیں عطا ہوا ہے۔ یہ سلسلے آج کے نہیں یہ شاہ شمس تبریزی، مولانا رومی اور ڈاکٹر محمد اقبال تک صوفیاء کی تاریخ پر ماتھے کا جھومر ہوا کرتے ہیں۔ ان کی جلائی ہوئی جوت انسانوں میں موجود رہ کر انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرتی ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جو دلوں کو اجالا کردار کو جلا بخشتی ہے اور سکون قلب کا سبب بنتی ہے۔ پروفیسر صاحب کا مجھے ایک دوست نے 2005ء میں بتایا کہ گوجر خان کے ہر شخص کے ہاتھ میں تسبیح اور اللہ کا ذکر پروفیسر صاحب کی تعلیمات کی بدولت ہے۔

پروفیسر صاحب کی بدولت تسبیح اور روحانی پاکیزگی ہی نہیں انسانی خدمت کی صورت میں لوگ ملتے ہیں جیسے سابق ایم این اے زمرد خان جو سویٹ ہوم کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں۔ وطن عزیز کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ اگست 2013 کو ملک سکندر نامی شخص نے ایک کار چوری کی اور کئی پولیس اہلکاروں کو بے بس کر لیا۔ بالآخر وہ بلیو ایریا میں جناح ایونیو کے وسط میں چلا گیا۔ جائے وقوعہ پر موجود پولیس ابتدائی طور پر اس شخص کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ یہ واقعہ چھ گھنٹے تک براہ راست نشر کیا گیا۔ کئی سیاست دانوں نے یرغمال بنانے والے کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ زمرد خان جائے وقوعہ پر صورت حال دیکھ رہا تھا جہاں اس نے بندوق بردار سے رابطہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ خان نے بندوق بردار کے ساتھ چند الفاظ کا تبادلہ کیا۔ بچوں سے مصافحہ کرتے ہوئے، خان نے اچانک اس شخص کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے پاؤں کھو گئے۔ بندوق بردار نے کئی گولیاں چلائیں تاہم خان زخمی ہونے سے بچ گیا۔ خان بچوں کی طرف بھاگا اور انہیں خطرے سے دور کر دیا۔ اس کے بعد دستیاب پولیس نے بندوق بردار کی ٹانگوں پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہو گیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

گزشتہ روز پروفیسر صاحب گوجرہ میں مذہبی اجتماع تھا جس میں انہوں نے فرمایا… بڑھتا ہوا دماغ اور ترقی انسان کو تباہی کے قریب لے جا رہی ہے، وسائل تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں موجودہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زمین کا ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا ہے جبکہ حیاتیاتی وسائل پورے کرنے کیلئے چار مزید زمینوں کی ضرورت ہے۔ اے آئی سے خود اسکے خالق خوفزدہ ہیں یہ ترقی کی معراج ہے مگر اے آئی میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے جو دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا، ابھی ایک بہت بڑی جنگ ہونا باقی ہے جسے اے آئی لیڈ کریگی۔ آج قرآن کی ہر سٹیٹمنٹ سو فیصد درست ثابت ہو چکی ہے، اب اللہ کا انکار آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی بدی کو جانچنے کا شعور بخشا ہے، عقل اللہ اور انسان کے مابین پل کا کام دیتی ہے۔ اے آئی 2030 تک نوجوان جسم پر بوڑھے شخص کا سر لگانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سائنس بتاتی ہے کہ انسانی دماغ 300 سال تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر بدن نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عنقریب لوگوں پر دھوکے کے بھرپور سال آئیں گے جب بددیانت کو دیانتدار، جھوٹے کو سچا اور بے وقوفوں کی رائے کو عوامی معاملات میں اہمیت حاصل ہو گی، علم صرف دکھلاوے کیلئے رہ جائیگا، دعوئوں کی منڈیاں لگیں گی، چھوٹے لڑکوں کو مذہب پر اتھارٹی مانا جائیگا، دجال کا فتنہ بھی یہی ہو گا کہ آسمان سے بارش برسائیگا اور بارش کے بغیر غلہ اگائے گا، اور کہے گا میں تمہارے باپ یا بھائی کو زندہ کر دوں گا تو مجھے خدا مان لو گے۔ اب اے آئی بھی یہی کرنے جا رہی ہے، ہم نے زمین مال اور اقتدار کے بدلے اللہ تعالیٰ سے جو جنگ شروع کر رکھی ہے اس میں ہمیں مکمل ہار ہو گی۔

جناب قبلہ محمد صادق صاحب ڈی جی کسٹم ویلیو ایشن نے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کا شعر لکھ کر دیا۔ جس کا مفہوم ہے ’’گزرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے کہ نہیں؟ حجاز سے پھر وہی نسیم سحر آتی ہے کہ نہیں؟ اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں؟‘‘۔
پروفیسر صاحب کو اللہ زندگی دے لوگوں کے روحانی مسیحا ہیں اور سائنسی امتزاج کے ساتھ کمال درجے کے انسان ہیں اور امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا نام لوگو سے کیوں ہٹا؟ آئی سی سی کا مؤقف سامنے آگیا
  • چین میں پاکستانی طلبہ نے ہمت اور انسانیت دِکھا کر ملک کا نام روشن کر دیا
  • کابینہ کمیٹی برائے امن و امان کی چیمپیئنز ٹرافی کے دوران فول پروف سیکیورٹی انتظامات کی ہدایت
  • چین میں میڈیکل کے 2 پاکستانی طلبا کے چرچے کیوں ہو رہے ہیں؛ ملک کا نام روشن کردیا
  • چین میں میڈیکل کے 2 پاکستانی طلبا کے چرچے کیوں ہو رہے ہیں؟
  • دوسرے شعبوں کی طرح صحت کے شعبہ میں بھی ستارہ کے پراجیکٹس انتہائی خوش آئند ہیں ،خواجہ سلمان رفیق
  • اسلحہ کے زور پر خواجہ سرا کا سر مونڈھ کر لوٹ مار کے بعد ملزم فرار
  • بھکر: خواجہ سرا کے بال زبردستی کاٹنے کا مقدمہ درج
  • تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان