سعودی عرب میں امریکا اور روس کے درمیان اہم مذاکرات شروع
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
سعودی وزارت خارجہ کے مطابق، سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی ہدایات پر، مملکت سعودی عرب آج بروز منگل، 18 فروری 2025 کو دار الحکومت ریاض میں روس اور امریکا کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے۔
یہ مذاکرات بین الاقوامی امن و استحکام کو فروغ دینے کی مملکت کی کاوشوں کا حصہ ہیں، جن کے ذریعے سعودی عرب عالمی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں مختلف علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال متوقع ہے، جن میں سیکیورٹی، اقتصادی تعاون اور جیوپولیٹیکل چیلنجز شامل ہو سکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سعودی عرب کا یہ اقدام اس کے عالمی سفارتی اثر و رسوخ اور مصالحتی کردار کو مزید تقویت دے گا۔ اس سے قبل بھی مملکت مشرق وسطیٰ اور عالمی سطح پر کشیدگی کم کرنے کے لیے مختلف فریقوں کے درمیان ثالثی کر چکا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اس اہم پیش رفت کو مملکت کی مستقل پالیسی کا تسلسل قرار دیا، جس کے تحت عالمی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تعمیری مکالمے اور سفارتی کوششوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا روس روس امریکا مذاکرات ریاض سعودی عرب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا روس امریکا مذاکرات ریاض
پڑھیں:
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی،عالمی احتجاج اورتنقید
امریکاکی تجارتی پالیسی میں حالیہ ترامیم نے بین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچادی ہے۔ٹرمپ کی جانب سے چین،کینیڈااور میکسیکوسے درآمدات پراضافی ٹیرف عائدکرنے کے فیصلے نے تجارتی شراکت داروں کوناراض کردیاہے اورعالمی منڈی میں عدم استحکام پیداکردیاہے۔ٹرمپ کے ان اقدامات سے عالمی ماہرین کوخدشہ پیداہوگیاہے کہ دنیاایک نئے مہنگائی کے طوفان میں مبتلاہونے جارہی ہے جس سے خودامریکی عوام کے ساتھ ساتھ یورپ بھی اس سے شدیدمتاثرہوسکتاہے۔
مزید برآں ٹرمپ کی قیادت میں امریکاکی خارجہ ودفاعی پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کاامکان ظاہر کیاجارہاہے۔کیاآئندہ مستقبل میں ٹرمپ انتخابی وعدوں کے مطابق نیٹوسے بھی لاتعلقی کااظہار کر سکتا ہے؟اگرایسا ہو اتو یورپی یونین سے پہلے ہی ڈنمارک کے جزیرہ گرین لینڈکے حوالے سے تعلقات کشیدہ ہورہے ہیں اور نیٹو ممبرہونے کی بناپرتمام نیٹوممبران ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اس حوالے سے امریکاکی دفاعی اورخارجہ پالیسی کوکس قدرنقصان ہوسکتاہے اوربالخصوص یوکرین کی جنگ میں ٹرمپ کیا کرداراداکرنے جارہا ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں بیانات پرعرب ممالک کوشدیدتشویش ہورہی ہے۔ نیٹو سے ممکنہ لاتعلقی،یوکرین جنگ میں امریکی کردار اور مشرق وسطیٰ میں پالیسی میں تبدیلیاں عالمی سطح پرسفارتی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔خاص طورپرڈنمارک کے جزیرہ گرین لینڈپرکشیدگی،نیٹوکے مستقبل،اورمشرق وسطیٰ میں غزہ کے معاملے پرٹرمپ کے بیانات نے دنیا بھر میں تشویش پیداکردی ہے اور اب ٹرمپ کی نئی جاری کردہ پالیسیوں سے جوعالمی تجارتی بحران پیداہوگیا ہے،یہ کس قدرخودامریکا،اس کے اتحادیوں اوردنیا کے دیگرممالک پراثرانداز ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین،کینیڈااور میکسیکو سے درآمدہونے والی اشیاء پربالترتیب25 فیصد اور 10 فیصد اضافی محصولات عائدکئے ہیں ۔ اس کابنیادی مقصد امریکی معیشت کوتحفظ دینااورغیرملکی مصنوعات پرانحصار کم کرناہے۔تاہم،اس کے نتیجے میں عالمی تجارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں اورمختلف ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ، امریکی صارفین پربھی قیمتوں میں اضافے کے دبائوکا امکان ہے،جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتاہے۔
جسٹن ٹروڈونے کہاہے کہ کینیڈاٹرمپ کی جانب سے کینیڈین درآمدات پرعائدکیے جانے والے محصولات کے جواب میں اپنے محصولات متعارف کرا دئیے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ کینیڈا ایسا نہیں چاہتا لیکن وہ امریکی اقدامات کاجواب دینے کے لئے تیار ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے امریکی فیصلے کوغیرمنصفانہ قراردیتے ہوئے 155ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات پر جوابی25فیصد محصولات لگانے کااعلان کردیا ہے۔ 30 ارب ڈالرکی مصنوعات پرمنگل سے نافذالعمل ہوں گے جبکہ21 دن میں مزید125 ارب ڈالرکا اطلاق ہوگاتاکہ کینیڈین فرموں کوایڈجسٹ ہونے کاوقت مل سکے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیاوہ کینیڈین حوالہ دے رہے ہیں یا امریکی ڈالرکا۔اس حوالے سے وہ جلدہی میکسیکو کے صدرکلاڈیاشین بام سے بھی مشاورت کریں گے اورکینیڈین عوام سے خطاب کریں گے۔
ان کاکہناہے کہ یہ ردعمل’’دوررس‘‘ ہوگا اور اس میں امریکی بیئر،شراب،بوربون،پھلوں اورپھلوں کے جوس بشمول نارنجی کاجوس، سبزیاں، پرفیوم، کپڑے اورجوتے شامل ہوں گے ۔اس میں گھریلوسامان اورفرنیچراورلکڑی اورپلاسٹک جیسے سامان بھی شامل ہوں گے۔جسٹس ٹروڈوکاکہناہے کہ انہوں نے20جنوری کوٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعدان سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ابھی بات نہیں ہوئی۔ٹروڈونے دسمبرمیں فلوریڈاکے اپنے ریزورٹ مارلاگومیں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جب انہوں نے محصولات کوروکنے کی کوشش کی تھی۔
یادرہے کہ جسٹن ٹروڈواورٹرمپ کے درمیان کئی بارمتنازع تعلقات رہے ہیں لیکن ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران دونوں نے مل کر کام کیاتھا۔یہ پوچھے جانے پرکہ کیاان کے خیال میں امریکی محصولات واقعی امریکامیں فینٹانیل کے بہائوکوکم کرنے کی خواہش کی وجہ سے ہیں،جیساکہ ٹرمپ نے دعویٰ کیاہے،ٹروڈونے کہا کہ امریکااورکینیڈاکی سرحد ،دنیاکی سب سے مضبوط اور محفوظ سرحدوں میں سے ایک ہے۔ امریکاجانے والے فینٹانل کاایک فیصدسے بھی کم حصہ کینیڈاسے آتاہے جبکہ امریکاجانے والے غیرقانونی تارکین وطن میں سے ایک فیصدسے بھی کم کینیڈاسے آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ مزیدکچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔کینیڈاکے خلاف یہ تجارتی کارروائی زندگیاں بچانے کے لئے مل کرکام کرنے کابہترین طریقہ نہیں ہے۔آئندہ چندہفتے کینیڈین اورامریکیوں کے لئے مشکل ہوں گے۔ امریکیوں کی اس تجارتی کارروائی اورہمارے ردعمل کے حقیقی نتائج ہماری سرحدکے دونوں طرف کے لوگوں اور کارکنوں پرمرتب ہوں گے۔ہم یہ نہیں چاہتے تھے لیکن ہم کینیڈاکے لوگوں کے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اورنہ ہی کینیڈااور امریکا کے درمیان کامیاب شراکت داری سے پیچھے ہٹیں گے۔
ادھرچین کی وزارت تجارت نے بھی ٹرمپ کی جانب سے تمام چینی مصنوعات پر10فیصد محصولات عائد کرنے ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے اس غیر منصفانہ تجارتی پالیسی کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں مقدمہ دائرکرنے کااعلان کیاہے۔ چین کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ چین اس سے سخت عدم اطمینان کاشکارہے اوراس کی سختی سے مخالفت کرتاہے، اس طرح کے اقدامات چین اور امریکا کے درمیان معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کے لئے نقصان دہ ہ اورعالمی تجارتی تنظیم(ڈبلیوٹی او)کے قوانین کی ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ ہے۔چین اس امریکی غلط اقدام کے خلاف ضروراپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے جوابی اقدامات کرے گا۔ چین امریکاپر زور دیتاہے کہ وہ اپنی غلط سوچ کودرست کرے اوراس مسئلے کاسامناکرنے کے لئے چینی فریق کے ساتھ مل کرکام کرے،کھل کربات چیت کرے، تعاون کومضبوط بنائے اورمساوات،باہمی فائدے اور باہمی احترام کی بنیاد پراختلافات کو حل کرے۔
چین کی وزارت تجارت کے ترجمان ہی یاڈونگ کے مطابق ٹیرف کے معاملے پرچین کاموقف مستقل ہے اورمحصولات کے اقدامات نہ توچین، امریکا اور نہ ہی باقی دنیاکے مفادات کے لئے سازگار ہیں۔ چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہواکے مطابق چین نے شدید ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جوابی اقدامات کرے گا۔
یادرہے کہ امریکی صدرنے کینیڈااور میکسیکو سے درآمدات پر25 فیصداورچین سے درآمدات پر10 فیصداضافی ٹیرف لاگوکرنے کے حکم نامے پر دستخط کردئیے ہیں۔امریکی صدرکا کہناہے کہ ان محصولات کو ’’غیرقانونی غیرملکیوں اورمہلک منشیات کے بڑے خطرے کی وجہ سے نافذکیاہے، جس میں فینٹانل بھی شامل ہے‘‘۔میکسیکونے بھی اس اقدام پراحتجاج کیاہے اورممکنہ طورپرجوابی تجارتی اقدامات اٹھانے کاعندیہ دیاہے۔میکسیکوکی صدرکلاڈیا شین بام نے کہاہے کہ امریکاکی جانب سے میکسیکوکی تمام درآمدات پر 25 فیصد محصولات عائدکرنے کے اعلان کے بعدوہ امریکا پرمحصولات سمیت دیگرجوابی اقدامات متعارف کرائیں گے۔انہوں نے وزیراقتصادیات کوہدایت کی ہے کہ وہ ’’پلان بی‘‘ پرعمل درآمدکریں،جس میں میکسیکوکے مفادات کے دفاع کے لئے ٹیرف اورنان ٹیرف اقدامات شامل ہوں گے۔
(جاری ہے)