Daily Ausaf:
2025-02-20@22:44:23 GMT

ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

غزہ کے مجاہدین کی حالیہ فتوحات کو جھٹلانا اگرچہ عین دوپہر کے وقت سورج کی کرنوں کے انکار کرنے جیسا ہے، لیکن پھر بھی عقل و خرد سے عاری نفاق زدہ قصر شیطنت کے پجاری بعض نام نہاد دانش فروش اور کچھ جبہ و دستار میں چھپے ہوئے عالمی طاقتوں کے حواری، حماس کی فتوحات کا نہ صرف انکار کر رہے ہیں بلکہ حماس کو ظالم اور مجرم ٹولہ بھی قرار دے رہے ہیں، ان عقل کے اندھوں کو نہ تو جنگ کے دوران حماس کی بے مثال استقامت نظر آئی اور نہ ہی جنگ کے بعد جانباز فلسطینی مجاہدین کی غیر معمولی ذہانت و فراست نظر آئی،احمد جاوید نام کے ایک طاغوتی ’’اشکالر‘‘اور اس کے صیہونیت زدہ ذہنیت رکھنے والے ہمنوائوں کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کریم انہیں ہدایت عطا فرمائے آمین ، لیکن سلام ہو حماس مجاہدین کو، جنہوں نے جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا ہر لمحہ ہر گھڑی لوہا منوایا چنانچہ تین دن قبل، حماس کے ترجمان نے واضح طور پر اعلان کیا کہ جب تک فریقِ مخالف اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتا، تب تک قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں۔ محض دو پیراگراف پر مشتمل یہ بیان عالمی سطح پر ایک بڑی سفارتی ہلچل مچانے اور خطے میں کشیدگی کو بھڑکانے کے لئے کافی تھا۔چوبیس گھنٹے کے اندر، ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے حماس کو دھمکی دی کہ اگر قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ان کا غصہ اس قدر شدید تھا کہ انہوں نے غزہ کے باشندوں کو اردن اور مصر ہجرت پر مجبور کرنے تک کی بات کہہ دی۔ اس بیان کے بعد خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوا، حکمرانوں نے اپنی پوزیشنوں پر خطرہ محسوس کیا، اور خطے میں انتشار کو روکنے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔کچھ لوگ خوف اور کمزوری کا شکار ہوئے، لیکن حماس نے اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ آج مذاکرات کے بعد، فریق مخالف نے حماس کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے، اور امدادی سامان، خیمے، سیمنٹ، بھاری مشینری اور دیگر ضروری اشیاء کی غزہ میں آمد شروع ہو گئی۔
حماس کو پوری دنیا میں فاتح قرار دیا جا رہا ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں اہم ترین وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے چند گنے چنے فوجیوں کے بدلے اپنے ہزاروں قیدیوں کو رہا کروا لیا ہے قیدیوں کے تبادلے کی چھٹی قسط میں بھی حماس نے 369 قیدیوں کو رہائی دلوانی ہے ۔ علام السر دفتر کے مطابق، فلسطینی مزاحمت نے صیہونی قیدیوں کی فہرست حوالے کر دی ہے، جس کے بعد پہلے مرحلے میں 369 فلسطینی قیدیوں کی رہائی طے پا گئی ہے۔ اس مرحلے کے تحت 36 ایسے فلسطینی قیدی رہا کئے جائیں گے جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ 333 فلسطینی قیدیوں کا تعلق غزہ سے ہے، جنہیں 7اکتوبر کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ قارئین قیدیوں کی مخصوص انداز سے رہائی اسرائیل کی اتنی بڑی شکست ہے کہ اس پر تمام حکومتی وزرا ء عسکری زعما آگ بگولا ہو رہے ہیں اور اعترافِ شکست کر رہے ہیں ۔ غزہ میں حالیہ نسل کشی کے دوران بدنام زمانہ ’’جنرلز پلان‘‘پیش کرنے والے سابق اسرائیلی جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ جنگ میں صہیونی ریاست مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ عبرانی اخبار روزنامہ معارِف نے اسرائیلی قومی سلامتی کے سابق چیئرمین، ریٹائرڈ جنرل گیورا آیلینڈ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ’’اسرائیل غزہ کی جنگ میں بری طرح ناکام ہو گیا۔‘‘ آیلینڈ، جو شمالی غزہ کو خالی کرانے کے لئے جنرلز کی منصوبہ بندی کا معمار ہے، نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی شکست کو اس بات سے ماپا جا سکتا ہے کہ کون اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور کس نے دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کی۔ اس نے مزید کہا ’’غزہ کے معاہدے کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے رفح کراسنگ کھولا اور نِتسارِیم کے محور سے انخلا کیا، جبکہ ہزاروں فلسطینی شمال کی جانب واپس لوٹ آئے۔ شمال کو جنوب سے مکمل الگ کرنا ہی تو ہمارا ہدف تھا۔ اس لئے اسرائیل اپنا کوئی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا‘‘۔اس کے علاوہ نیتن یاہو کے دفتر سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا کہ حماس جس ذلت آمیز انداز سے ہمارے قیدیوں کو رہا کر رہی ہے یہ ہم سب کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔
ہزاروں سال کی تاریخ اس بات پر شائد ہے کہ یہودی نہ تو ڈھنگ کی جنگ لڑ سکتے ہیں اور نہ اخلاقیات کی حدود اور رموز سے واقف ہیں ۔جنگ کے دنوں میں جس طرح حماس نے ان کو ذلت و شکست کی دھول چٹائی ہے اب امن کے دنوں میں بھی حماس نے ان کو چاروں شانے چت کر دیا ہے اسی ہڑ بڑاہٹ اور گھبراہٹ میں فلسطین کے مختلف علاقوں خاص طور پہ غرب اردن میں اسرائیلی دہشت گردی جاری ہے ۔چنانچہ دجالی فوج نے گزشتہ کل طولکرم کی خیمہ بستی نور شمس کے 10 ہزار باشندوں کو گھر خالی کرکے علاقہ چھوڑنے کی وارننگ جاری کر دی۔ شیاطین کی جانب سے اسپیکرز میں اعلانات۔ 1950ء میں فلسطین کے مختلف مقبوضہ علاقوں سے یہاں آکر بسنے والے پناہ گزینوں کو اب ایک اور پناہ گزینی کا سامنا ہے۔ ’’مخیم نور شمس‘‘کی آبادی تقریباً 10 ہزا ر نفوس پر مشتمل ہے۔ دجالی فوج مغربی کنارے کو بھی فلسطینیوں سے خالی کرکے اس پر مکمل قبضہ کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اس آپریشن کا نام ’’آئرن ڈوم‘‘رکھا گیا ہے۔ اب تک 44 ہزار افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ساری دنیا اس بات پر حیران سرگردان ہے کہ آخر ایک چھوٹے سے محصور علاقے کے نہتے لوگ اسرائیل کے تمام تر لا لشکر اسباب و وسائل کے باوجود فاتح کیوں ٹھہرے ۔اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک پاکستانی سرجن ڈاکٹر فخر عرفان جس نے غزہ کے ہاسپٹل میں کام کیا اس نے ان وجوہات پر جامع رپورٹ تیار کی ہے جو نظر قارئین ہے۔ ہمارے ہسپتال میں کچھ پاکستانی نژاد امریکی آرتھوپیڈک سرجن چند دن کے لئے آئے تھے،واپسی پر انہوں نے ایک پریزینٹیشن کے لیے سب کو روکا،لوگ سمجھے کہ شائد اپنے آپریشنز کے بارے میں لوگوں کو کچھ دکھانا چاہ رہے ہوں گے،پریزینٹیشن کھولی تو ان کے غزہ کے مشن کی تفصیلات تھیں،انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے رمضان میں وہاں گئے تھے اور جانے سے پہلے سب سے پہلے ان کو جنسی ہراسگی کے بارے میں بتایا گیا تو بہت حیران ہوئے،پتا چلا کہ بہت سے امدادی لوگوں نے مہاجر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
یہ تمام حاضرین کے لئے پہلا جھٹکا تھا،اگلی سلائیڈ میں انہوں نے سحری کے وقت کی اذان کے ساتھ سنائی جانے والی آواز کے بارے میں بتایا کہ یہ ہر وقت منڈلانے والے کواڈ ڈرونز کی تھی اور کافی ہیبت ناک لگ رہی تھی،ان کو بتایا گیا کہ چند دنوں میں وہ اس سے مانوس ہو جائیں گے۔یاد رہے کے یہ ڈرونز ایف سکسٹین اور ہیلی ڈرونز کے علاوہ بمباری کرتے تھے،پھر بہت سے زخمی بچوں کی تصویریں دکھائیں جن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اکثر وہیل چیئر پر تھے۔
( جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قیدیوں کو رہا قیدیوں کی انہوں نے رہے ہیں جنگ کے کے لئے غزہ کے کے بعد

پڑھیں:

ستارے اور ادھورے خواب

’’تارے زمین پر‘‘ 2007ء کی ایک بھارتی فلم تھی جس کے پروڈیوسر عامر خان تھے۔اس میں آٹھ سالہ درشیل سفاری بطور ایک طالب علم جبکہ عامرخان اس کے استاد کے طور پرجلوہ گر ہوئے تھے۔ اس کے لکھاری امول گپتا تھے۔ایسی فلمیں بہت کم بنتی ہیں جن میں معاشرتی مسائل اور ان کے حل سے متعلق توجہ دلائی جائے۔ فلم تارے زمین پر انہیں فلموں میں سے ایک بہترین فلم ہے جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی جانب بھرپور توجہ دلائی گئی۔ 2007 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم کا مرکزی کردار ایشان (درشیل سفاری) آٹھ سال کا بچہ جو کہ ڈسلکشیا (پڑھنے لکھنے میں دشواری) میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے استاد اور والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی کا شکار رہتا ہے، سکول کے باقی بچے اس کی اس کمی کا مذاق بناتے ہیں اور اسے شدیت ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔وہ بچہ اساتذہ کا سخت رویہ برداشت کرتا ہے وہیں اس کا ٹیچر اس کے مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ اس کے ٹیچر کی کوشش اور محنت سے نہ صرف ایشان ٹھیک سے پڑھنے لکھنے لگتا ہے بلکہ خود میں مخفی صلاحیت یعنی پینٹنگ کے ذریعے ایشان نہ صرف اپنی صلاحیت سے واقف ہوتا ہے بلکہ دوسروں میں بھی خود کو منوا لیتا ہے۔

دوستو مدعا فلم ’’تارے زمین پر‘‘ نہیں بلکہ وہ طالب علم ہیں جو اپنی کسی کمی یا خامی کی بنیاد پر دوسرے طلبا سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔اساتذہ اور ساتھی طلبا کے طنز تنگ آکر یاتو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا پھر مایوس ہوکر دنیا کو ہی چھوڑ جاتے یعنی خود کشی کرلیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں اگر کوئی طالب علم ناکام ہوتا ہے یا کم نمبر لیتا ہے توشدید تنقید کی زد میں آتا ہے اور درد ناک انجام مایوسی اور اس کی موت پر ہوتا ہے اور والدین کے ہاتھ بس ا یک خط آتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھارت میں ایک طالبہ نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ہونے والے ٹیسٹ میں ناکامی پر دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 18 سالہ طالبہ کی لاش اس کے ہاسٹل کے کمرے سے ملی تھی۔ جہاں ٹیسٹ کی تیاری کے لیے مقیم تھی۔تاہم اس واقعے میں سبق آموزکمرے سے ملنے والی ایک تحریر تھی،اس میں طالبہ نے لکھا تھا کہ ممی پاپا، پلیز مجھے معاف کردیں، میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ یہ ہمارے رشتے کا اختتام ہے۔ آپ دونوں رونا نہیں۔ آپ نے مجھے بہت پیار دیا لیکن میں آپ کے خوابوں کو پورا نہ کر پائی۔ افسوس۔۔ صد افسوس۔ وہ طالبہ زندگی کا خاتمہ کرنے سے قبل ایک بار صرف ایک بار والدین سے شیئر تو کرتی شائد کوئی متبادل آپشن مل جاتا، شائداس کے والدین اوراس کے خواب ادھورے نہ رہتے۔

ناکامی، اکثر ایک مشکل اور مایوس کن تجربہ ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ کامیابی کے راستے کی پہلی سیڑھی بن سکتی ہے۔ جب ہم ناکامی کا سامنا کرتے ہیں، تو یہ دراصل ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کہاں غلط ہو سکتے ہیں، ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے، اور کس طریقے سے ہم اپنی کوششوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ناکامی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ناکامی کے بعد اٹھنا اور دوبارہ کوشش کرنا انسان کی ہمت اور عزم کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ کامیابی صرف مستقل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تھامس ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنسدان نے اپنی ناکامیوں کو کامیابی کی طرف بڑھنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ ایڈیسن نے 1000 بار بجلی کے بلب کو بنانے میں ناکامی کا سامنا کیا، مگر انہوں نے کہامیں باربار ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے صرف 1000 طریقے تلاش کیے جو کام نہیں کرتے۔ اس کا مطلب تھا کہ ہر ناکامی دراصل کامیابی کے قریب پہنچنے کا ایک قدم ہے۔
صاحبو قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق ناکامی کا خوف اور کامیابی کی توقعات میں اضافہ طلبا پر شدید دباؤ ڈالتا ہے۔ خاص طور پر ایسے نوجوان جو تعلیمی نتائج پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ جب وہ ان توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے، تو وہ خود کو مایوس اور بے وقعت محسوس کرتے ہیں، جس سے ذہنی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں والدین، اساتذہ اور دیگر متعلقہ افراد کا اہم کردار ہے کہ وہ طلبا کی مدد کریں، ان کی ذہنی صحت کا خیال رکھیں اور انہیں ناکامی کو کامیابی کے راستے کی ایک اہم تعلیم سمجھنے کی ترغیب دیں۔

قدرت نے اپنے تمام نظاموں کے لیے ایک مخصوص وقت اور ترتیب بنائی ہے۔ درخت کے بیج کا پھل بننے تک، انسان کا بچپن سے نوجوانی اور پھر بلوغت تک کا سفر، ہر چیز کے لیے قدرت کا ایک وقت متعین ہے۔ اسی طرح، ہماری زندگی میں بھی قدرت کے ٹائم زون کی اہمیت ہے۔ہم جتنا جلدی یا جلدی نہیں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی ہم اپنے قدرتی راستے سے ہٹ سکتے ہیں۔قدرت کا ٹائم زون ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ ہم جب وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرتے ہیں تو کامیابی خود بخود حاصل ہوتی ہے۔ جیسے زمین پر کاشت کیا گیا بیج دھیرے دھیرے بڑھتا ہے، ویسے ہی ہماری محنت اور عزم بھی وقت کے ساتھ نتیجہ دیتی ہے۔ کامیابی ہمیشہ ایک دن میں نہیں آتی، بلکہ یہ مسلسل کوشش، صبر اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

قدرت کے ٹائم زون کو سمجھنا یہ بھی سکھاتا ہے کہ زندگی میں تبدیلیاں قدرتی عمل ہیں۔ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سفر رک چکا ہے یا ہم کامیابی کے قریب نہیں پہنچ رہے، لیکن قدرت کا قانون یہ ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے، اور اس وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔کامیابی صرف محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ صحیح وقت پر صحیح موقع پر محنت کی جائے۔ اس لیے قدرت کے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرنا کامیابی کا راز ہے۔ اگر آپ درخت لگانے کا سوچیں، تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اسے چند دنوں میں پھل دینے کا حکم دوں گا۔ آپ اسے وقت دیں گے اور قدرت کے عمل کو تسلیم کریں گے کہ درخت وقت کے ساتھ بڑھتا اور پھل دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح، زندگی میں ہماری محنت بھی وقت لیتی ہے۔ کبھی کبھار ہمیں جلدی یا فوری نتائج کا خواہش ہوتی ہے، لیکن اگر ہم قدرت کے اصولوں کو تسلیم کریں اور اس کے مطابق چلیں، تو کامیابی خود بخود آئے گی۔قدرت کا ٹائم زون ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کامیابی کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا، مگر یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے آنے کے وقت کو تسلیم کریں اور قدرت کے اصولوں کے مطابق اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کی بڑی پیشکش: تمام اسرائیلی قیدیوں کی مشروط رہائی پر آمادگی
  • ’’مظلوم کشمیری‘‘ صاحب سے ملاقات
  • حماس نے تمام اسرائیلی قیدیوں کو ایک ساتھ رہا کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کردی
  • حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو بیک وقت رہا کرنے پر رضامند
  • حماس کا چار مغویوں کی لاشیں اور چھ قیدی اسرائیل کے حوالے کرنے کا اعلان
  • حماس کی مستقل جنگ بندی کے بدلے ایک ساتھ اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کرنے کی پیشکش
  • ستارے اور ادھورے خواب
  • خالی ڈھول
  • تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان