ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
غزہ کے مجاہدین کی حالیہ فتوحات کو جھٹلانا اگرچہ عین دوپہر کے وقت سورج کی کرنوں کے انکار کرنے جیسا ہے، لیکن پھر بھی عقل و خرد سے عاری نفاق زدہ قصر شیطنت کے پجاری بعض نام نہاد دانش فروش اور کچھ جبہ و دستار میں چھپے ہوئے عالمی طاقتوں کے حواری، حماس کی فتوحات کا نہ صرف انکار کر رہے ہیں بلکہ حماس کو ظالم اور مجرم ٹولہ بھی قرار دے رہے ہیں، ان عقل کے اندھوں کو نہ تو جنگ کے دوران حماس کی بے مثال استقامت نظر آئی اور نہ ہی جنگ کے بعد جانباز فلسطینی مجاہدین کی غیر معمولی ذہانت و فراست نظر آئی،احمد جاوید نام کے ایک طاغوتی ’’اشکالر‘‘اور اس کے صیہونیت زدہ ذہنیت رکھنے والے ہمنوائوں کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کریم انہیں ہدایت عطا فرمائے آمین ، لیکن سلام ہو حماس مجاہدین کو، جنہوں نے جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا ہر لمحہ ہر گھڑی لوہا منوایا چنانچہ تین دن قبل، حماس کے ترجمان نے واضح طور پر اعلان کیا کہ جب تک فریقِ مخالف اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتا، تب تک قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں۔ محض دو پیراگراف پر مشتمل یہ بیان عالمی سطح پر ایک بڑی سفارتی ہلچل مچانے اور خطے میں کشیدگی کو بھڑکانے کے لئے کافی تھا۔چوبیس گھنٹے کے اندر، ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے حماس کو دھمکی دی کہ اگر قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ان کا غصہ اس قدر شدید تھا کہ انہوں نے غزہ کے باشندوں کو اردن اور مصر ہجرت پر مجبور کرنے تک کی بات کہہ دی۔ اس بیان کے بعد خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوا، حکمرانوں نے اپنی پوزیشنوں پر خطرہ محسوس کیا، اور خطے میں انتشار کو روکنے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔کچھ لوگ خوف اور کمزوری کا شکار ہوئے، لیکن حماس نے اپنی پوزیشن سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ آج مذاکرات کے بعد، فریق مخالف نے حماس کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے، اور امدادی سامان، خیمے، سیمنٹ، بھاری مشینری اور دیگر ضروری اشیاء کی غزہ میں آمد شروع ہو گئی۔
حماس کو پوری دنیا میں فاتح قرار دیا جا رہا ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں اہم ترین وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے چند گنے چنے فوجیوں کے بدلے اپنے ہزاروں قیدیوں کو رہا کروا لیا ہے قیدیوں کے تبادلے کی چھٹی قسط میں بھی حماس نے 369 قیدیوں کو رہائی دلوانی ہے ۔ علام السر دفتر کے مطابق، فلسطینی مزاحمت نے صیہونی قیدیوں کی فہرست حوالے کر دی ہے، جس کے بعد پہلے مرحلے میں 369 فلسطینی قیدیوں کی رہائی طے پا گئی ہے۔ اس مرحلے کے تحت 36 ایسے فلسطینی قیدی رہا کئے جائیں گے جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ 333 فلسطینی قیدیوں کا تعلق غزہ سے ہے، جنہیں 7اکتوبر کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ قارئین قیدیوں کی مخصوص انداز سے رہائی اسرائیل کی اتنی بڑی شکست ہے کہ اس پر تمام حکومتی وزرا ء عسکری زعما آگ بگولا ہو رہے ہیں اور اعترافِ شکست کر رہے ہیں ۔ غزہ میں حالیہ نسل کشی کے دوران بدنام زمانہ ’’جنرلز پلان‘‘پیش کرنے والے سابق اسرائیلی جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ جنگ میں صہیونی ریاست مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ عبرانی اخبار روزنامہ معارِف نے اسرائیلی قومی سلامتی کے سابق چیئرمین، ریٹائرڈ جنرل گیورا آیلینڈ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ’’اسرائیل غزہ کی جنگ میں بری طرح ناکام ہو گیا۔‘‘ آیلینڈ، جو شمالی غزہ کو خالی کرانے کے لئے جنرلز کی منصوبہ بندی کا معمار ہے، نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی شکست کو اس بات سے ماپا جا سکتا ہے کہ کون اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور کس نے دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کی۔ اس نے مزید کہا ’’غزہ کے معاہدے کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے رفح کراسنگ کھولا اور نِتسارِیم کے محور سے انخلا کیا، جبکہ ہزاروں فلسطینی شمال کی جانب واپس لوٹ آئے۔ شمال کو جنوب سے مکمل الگ کرنا ہی تو ہمارا ہدف تھا۔ اس لئے اسرائیل اپنا کوئی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا‘‘۔اس کے علاوہ نیتن یاہو کے دفتر سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا کہ حماس جس ذلت آمیز انداز سے ہمارے قیدیوں کو رہا کر رہی ہے یہ ہم سب کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔
ہزاروں سال کی تاریخ اس بات پر شائد ہے کہ یہودی نہ تو ڈھنگ کی جنگ لڑ سکتے ہیں اور نہ اخلاقیات کی حدود اور رموز سے واقف ہیں ۔جنگ کے دنوں میں جس طرح حماس نے ان کو ذلت و شکست کی دھول چٹائی ہے اب امن کے دنوں میں بھی حماس نے ان کو چاروں شانے چت کر دیا ہے اسی ہڑ بڑاہٹ اور گھبراہٹ میں فلسطین کے مختلف علاقوں خاص طور پہ غرب اردن میں اسرائیلی دہشت گردی جاری ہے ۔چنانچہ دجالی فوج نے گزشتہ کل طولکرم کی خیمہ بستی نور شمس کے 10 ہزار باشندوں کو گھر خالی کرکے علاقہ چھوڑنے کی وارننگ جاری کر دی۔ شیاطین کی جانب سے اسپیکرز میں اعلانات۔ 1950ء میں فلسطین کے مختلف مقبوضہ علاقوں سے یہاں آکر بسنے والے پناہ گزینوں کو اب ایک اور پناہ گزینی کا سامنا ہے۔ ’’مخیم نور شمس‘‘کی آبادی تقریباً 10 ہزا ر نفوس پر مشتمل ہے۔ دجالی فوج مغربی کنارے کو بھی فلسطینیوں سے خالی کرکے اس پر مکمل قبضہ کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اس آپریشن کا نام ’’آئرن ڈوم‘‘رکھا گیا ہے۔ اب تک 44 ہزار افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ساری دنیا اس بات پر حیران سرگردان ہے کہ آخر ایک چھوٹے سے محصور علاقے کے نہتے لوگ اسرائیل کے تمام تر لا لشکر اسباب و وسائل کے باوجود فاتح کیوں ٹھہرے ۔اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک پاکستانی سرجن ڈاکٹر فخر عرفان جس نے غزہ کے ہاسپٹل میں کام کیا اس نے ان وجوہات پر جامع رپورٹ تیار کی ہے جو نظر قارئین ہے۔ ہمارے ہسپتال میں کچھ پاکستانی نژاد امریکی آرتھوپیڈک سرجن چند دن کے لئے آئے تھے،واپسی پر انہوں نے ایک پریزینٹیشن کے لیے سب کو روکا،لوگ سمجھے کہ شائد اپنے آپریشنز کے بارے میں لوگوں کو کچھ دکھانا چاہ رہے ہوں گے،پریزینٹیشن کھولی تو ان کے غزہ کے مشن کی تفصیلات تھیں،انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے رمضان میں وہاں گئے تھے اور جانے سے پہلے سب سے پہلے ان کو جنسی ہراسگی کے بارے میں بتایا گیا تو بہت حیران ہوئے،پتا چلا کہ بہت سے امدادی لوگوں نے مہاجر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
یہ تمام حاضرین کے لئے پہلا جھٹکا تھا،اگلی سلائیڈ میں انہوں نے سحری کے وقت کی اذان کے ساتھ سنائی جانے والی آواز کے بارے میں بتایا کہ یہ ہر وقت منڈلانے والے کواڈ ڈرونز کی تھی اور کافی ہیبت ناک لگ رہی تھی،ان کو بتایا گیا کہ چند دنوں میں وہ اس سے مانوس ہو جائیں گے۔یاد رہے کے یہ ڈرونز ایف سکسٹین اور ہیلی ڈرونز کے علاوہ بمباری کرتے تھے،پھر بہت سے زخمی بچوں کی تصویریں دکھائیں جن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اکثر وہیل چیئر پر تھے۔
( جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قیدیوں کو رہا قیدیوں کی انہوں نے رہے ہیں جنگ کے کے لئے غزہ کے کے بعد
پڑھیں:
آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اورسنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔
دلائل کے آغاز میں وکیل منیراے ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل175 کے ساتھ دیکھنا چاہئے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دوں گا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہاکہ ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔
جسٹس علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر 4 درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ میں آناہوتا ہے اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سنیارٹی پر؟ اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔
جسٹس علی مظہر نے کہاکہ آپ نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرکے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جب ججزکی اسامیاں خالی تھیں توٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کئے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری" کا ذکرآتا ہے۔
آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مستردکردی، اس کے علاوہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی گئی۔
بعدازاں عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف اورجوڈیشل کمیشن سمیت اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔
والدین علیحدگی کے باوجود دوست تھے، وفات سے قبل والد ہی والدہ کو ہسپتال لیکرگئے: بیٹی نور جہاں
مزید :