گستاخوں کو تحفظ دینے کی سازش
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
ان دنوں سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص اللہ تعالیٰ، رسول اللہ ﷺ،صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم اور قرآن کریم کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ہونے پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے گرفتار کئے جانے والے گستاخوں کو تحفظ دینے کی سازشیں عروج پر ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مقدس ہستیوں کے جن گستاخوں کو قانون کی گرفت میں لایا گیا ہے،مخصوص عناصر صلیبی و یہودی ڈالروں کے بل بوتے پر ان گستاخوں کو بے گناہ قرار دے کر تحفظ دینے کی سازش کررہے ہیں۔اس مقصد کے لئے وہ دجالی میڈیا اور جھوٹے پراپیگنڈے کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔اسپیشل برانچ لاہور پنجاب کی جانب سے مرتب کی گئی ایک ایسی رپورٹ کی بنیاد پر مذکورہ گستاخوں کو تحفظ دینے کی گھنائونی سازشیں کی جارہی ہیں،جس رپورٹ کو نہ صرف یہ کہ لاہور ہائیکورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بے بنیاد قرار دیا جاچکا ہے،بلکہ اسپیشل برانچ کے ڈی آئی جی خود بھی لاہور ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہوکر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کے پاس ایسے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں اس کی بنیاد پر وفاقی حکومت پر دبائو ڈال کر انکوائری کمیشن قائم کرانے کی بھرپور کوششیں اب بھی کی جا رہی ہے تو کوئی شک نہیں کہ کمیشن کے قیام کا مقصد صرف اور صرف گھنائونے مقاصد کا حصول ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں جب کبھی بھی ختم نبوت و ناموس رسالت ﷺ کے خلاف کسی بھی سطح پر کوئی سازش ہوئی تو اکابر علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں کے قائدین و کارکنان نے ڈٹ کر ایسی سازشوں کا مقابلہ کرکے ہمیشہ اسے ناکام بنایا۔اس حوالے سے میں زیادہ دور نہیں جاتا،بلکہ ماضی قریب میں ختم نبوت و ناموس رسالت ﷺکے خلاف کی جانے والی دو سازشوں کے خلاف اکابر علمائے کرام و مذہبی قائدین بالخصوص قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے کردار کی مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلے صادر کر رکھے ہیں، جن کی روشنی میں ایف آئی اے مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف قانونی کارروائی کررہی ہے۔قانون کی گرفت میں آنے والے ان گستاخوں کو تحفظ دینے کی پہلی کوشش 2021ء میں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں حکومتی سطح پر ایسے کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان کی جانب سے صادر کئے گئے ایک تاریخی فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لئے وفاقی وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے نے بڑی خاموشی سے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دی تھیں۔پی ٹی آئی کے دور حکومت میں دائر کی گئیں مذکورہ اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ نے پی ڈی ایم کے دور حکومت یعنی نومبر 2022 ء میں کی۔سپریم کورٹ بھی خاموشی سے ان اپیلوں کی سماعت تقریبا ً مکمل کرکے فیصلہ کرنے ہی والی تھی کہ یہ معاملہ تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے علم میں آگیا۔اس حوالے سے اس خاکسار نے تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے ایک وفد کے ہمراہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور تمام تر صورتحال سے انہیں آگاہ کیا گیا۔اللہ تعالیٰ قائد جمعیت کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے معاملے کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر وزیر اعظم شہباز شریف اور اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے رابطہ کرکے ان سے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں دائر مذکورہ اپیلوں کو فوری طور پر واپس لے۔چنانچہ وفاقی حکومت مجبور ہوئی اور مورخہ 6 دسمبر 2022ء کو کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر مذکورہ اپیلیں واپس لے لیں۔یوں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے کردار کی وجہ سے مقدس ہستیوں کے بدترین گستاخوں کو تحفظ فراہم کرنے اور سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے کو فروغ دینے کے لئے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں حکومتی سطح پر کی جانے والی گھنائونی سازش ناکام ہو گئی۔اسی طرح ختم نبوت ﷺ کے خلاف ایک گھنائونی سازش گزشتہ سال قادیانی مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے ایک متنازع فیصلے کے ذریعے کی گئی تھی۔6 فروری2024 ء کو اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ایک متنازع فیصلہ جاری کیا تو اس کے خلاف بھی سب سے پہلے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سامنے آئے۔ان کی جانب سے بھرپور ردعمل جاری ہونے کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،تحریک لبیک پاکستان، جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں بھی سراپا احتجاج بن گئیں۔جس کی وجہ سے سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئی۔
6 فروری کے متنازع فیصلے پر نظر ثانی کی پٹیشنز کے فیصلے میں بھی کچھ متنازع نکات سامنے آئے تو اس پر بھی ایک دفعہ پھر مذہبی جماعتیں بالخصوص قائد جمعیت بھرپور طریقے سے میدان میں آئے۔جس کے نتیجے میں مجبوراً سپریم کورٹ کو ایک دفعہ پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی۔اس دفعہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن بنفس نفیس سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے جبکہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے بھی ترکی سے وڈیو لنک کے ذریعے اپنے دلائل عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش کئے تھے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن اپنی 72سالہ زندگی میں پہلی دفعہ کسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے اور وہ بھی صرف اور صرف ختم نبوت ﷺ کا مقدمہ لڑنے کے لئے۔مولانا فضل الرحمن اور شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہم کے دلائل کی روشنی میں بالآخر سپریم کورٹ نے اپنے گزشتہ دونوں فیصلوں سے متنازع پیرے حذف کر دیئے تھے۔یوں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے کردار کی وجہ سے ہی نہ صرف یہ کہ ختم نبوت ﷺ کے خلاف گھنائونی سازش ناکام ہوئی بلکہ قادیانیوں اور ان کے ہمنوائوں کی قمر بھی ٹوٹ گئی۔الحمدللہ۔اب مذکورہ تازہ ترین صورتحال میں بھی اگر اسپیشل برانچ کی بے بنیاد قرار پانے والی رپورٹ کی بنیاد پر بھی سیکولر اور لبرل مافیا ء کے ساتھ ساتھ کچھ غامدیت زدہ’’مذہبی لبرلز‘‘جو مذہب کی آڑ میں لبرلزم کے داعی ہیں،پیالی میں طوفان برپا کرکے دجالی میڈیا میں بیٹھے گستاخوں کے سہولت کار بعض اینکرز و اینکرنیوں کے ذریعے حکومت پر دبائو ڈال کر بدترین گستاخوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تو انہیں خبر ہو کہ مولانا فضل الرحمن ابھی زندہ ہیں اور ناموس رسالت ﷺ کے خلاف ہونے والی تازہ ترین سازشوں کو بھی مسلمانانِ پاکستان ان کی قیادت میں ناکام بنا دیں گے،ان شا اللہ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن بدترین گستاخانہ مواد کی گستاخوں کو تحفظ دینے کی لاہور ہائیکورٹ گھنائونی سازش ناموس رسالت ﷺ سوشل میڈیا پر کے دور حکومت وفاقی حکومت سپریم کورٹ کی جانب سے ﷺ کے خلاف ختم نبوت کورٹ میں کورٹ کے کورٹ نے کے لئے کی گئی
پڑھیں:
چیف جسٹس سے سپریم کورٹ بار کے وفد کی ملاقات، عدالتی اصلاحات پر مشاورت
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے سپریم کورٹ بار کے وفد کی ملاقات ہوئی ہے، جس میں عدالتی اصلاحات سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی، ملاقات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے سپریم کورٹ بار کے صدر میاں رؤف عطا کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی، جس میں عدالتی اصلاحات سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔
صدرسیریم کورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس سے ملاقات ان کی وزیراعظم سے ملاقات کے تناظر میں کی گئی، چیف جسٹس انصاف فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کر رہے ہیں۔
رؤف عطا نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے اصلاحات کے عمل میں چیف جسٹس کو مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے، چیف جسٹس نے وزیراعظم کی طرح اپوزیشن سے فراہمی انصاف کے حوالے سے تجاویز طلب کی ہیں، انصاف کی فراہمی میں تعاون کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن رہنماؤں سے چیف جسٹس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان کل اپوزیشن کے وفد سے بھی ملاقات کریں گے، عدالتوں میں اصلاحات وقت کا تقاضا ہے، ملاقاتوں سے سیاسی استحکام اورعدلیہ پرعوامی اعتماد کی بحالی میں مدد ملے گی۔