اداکارہ بننے کا کبھی سوچا نہیں تھا، حادثاتی طور پر بنی: سجل علی
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
بین الاقوامی شہرت یافتہ اداکارہ سجل علی نے اداکاری کو بطور پیشہ اپنانے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
لالی، بالی و ہالی ووڈ میں جاندار اداکاری کے جوہر دکھانے والی اداکارہ سجل علی نے اپنے کیریئر کا آغاز 2011ء میں ڈرامہ سیریل ’محمود آباد کی ملکائیں‘ سے کیا تھا۔
یہ ڈرامہ سیریل ہمایوں سعید کے پروڈکشن ہاؤس ’سکس سِگما پلس‘ کی تخلیق تھا۔
اس ڈرامہ سیریل کے آن ایئر ہونے کے بعد سجل علی نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کامیابی کی منازل طے کرتی چلی گئیں۔
سجل علی نے ناصرف پاکستان میں اپنی بہترین اداکاری سے شائقین کے دلوں میں گھر کیا ہے بلکہ بالی اور ہالی ووڈ فلموں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
اداکارہ نے حال ہی میں ایک تقریب کے دوران انکشاف کیا ہے کہ میں نے کبھی اداکارہ بننے کا سوچا نہیں تھا، اداکاری میں آنا اور بطور پیشہ اداکاری کو اپنانا یہ سب حادثاتی طور پر ہوا تھا۔
سجل علی نے یہ بھی کہا ہے کہ جب میں انڈسٹری میں آئی تھی تو میری کافی کم عمر تھی، میں خود کو خوش نصیب محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس پیشے کو اپنایا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سجل علی نے
پڑھیں:
اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)
گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو
گزرا زمانہ، گزرا وقت، گزرے بڑے لوگ یاد ماضی کی طرح آج بھی کم از کم میرے جیسے لوگوں کے دلوں میں آباد ہیں۔ اس لئے کہ میں اس زمانے کا جس کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ میں اس کا ہمسفر تھا۔کامیاب زمانوں کے کامیاب لوگ یعنی جہاں زمانے نے ان کو عزت دی وہاں وہ بھی زمانے کو اپنے نام سے منسوب کر گئے۔ فرانس کے سابق صدر ڈیگال مرحوم کا قول ہے کہ عظیم انسانوں کے بغیر کوئی کام عظیم نہیں ہوتے۔ وہ کیوں عظیم ہوتے ہیں تو ڈیگال نے کہا کہ ان کے کئے کاموں میں ارادے کی پختگی ان کو عظیم سے عظیم تر بنا جاتی ہے۔ ڈیگال کے اس موقف کے بعد بڑے لوگوں کے بارے میں کسی بھی طرح کی رائے اس کے آگے مانند پڑ جاتی ہے۔ ایک طویل عرصہ شوبز کی زندگی میں وابستگی کے بعد بہت دل کرتا ہے کہ اپنی یادوں کو قلم کے حوالے کروں۔ عزت، شہرت، دولت کے حوالے سے ان فنکاروں کے بارے بات کروں جنہیں وقت اور ان کے کئے کاموں نے بہت اونچا کر دیا اور وہ جو بہت نام تو کما گئے مگر نہ دولت اور نہ عزت سنبھال پائے۔ میں ان کو بھی جانتا ہوں جن کے پاس دولت بارش کی طرح برستی تھی اور وہ اس کو لٹاتے بھی بارش کی طرح تھے اور جب سب کچھ لٹاتے لٹاتے ختم ہو گیا تو نہ عزت رہی نہ دولت رہی نہ زمانہ رہا اور جب وقت رخصت قریب آیا تو آخری زندگی میں نہ دوست نہ غم خوار، نہ دل دینے والے کام آئے اور موت بھی آئی تو کسمپرسی کی حالت میں…
میں پی ٹی وی کے 70ء سے 2000ء تک کے دور کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس زمانے کی چھوٹی بڑی سکرین کے بڑے لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔ ایک نہیں سینکڑوں چھوٹے بڑے نام اور بڑے فنکاروں اور ان کی ذاتی زندگیوں سے لے کر فلمی سکرین پر کئے کاموں تک کو بڑے اخبارات کے سپرد قلم کر چکا ہوں۔ زندگی نے وفا کی تو اب چند اہم بڑے فنکاروں کے بڑے یادگار واقعات کو نئی نسل کے حوالے ضرور کروں گا۔ ایسی اداکارائیں، گلوکارائیں، اداکار اور گلوکار، ہدایت کار، کہانی نویس، موسیقاروں کی ایک لمبی فہرست آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ایک طویل ڈرامے کی سیریل کی طرح چل رہی ہے۔ کئی ان گنت واقعات، ان گنت کہانیاں، ان گنت داستانیں کسی بھی بڑے ناموں کے ساتھ واقعات کا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ ان میں کچھ واقعات تاریخ کا حصہ بن تو کچھ واقعات دوسروں کے لئے سبق آموز بن کر دوسروں کے لئے بڑا پیغام دے جاتے ہیں۔ آج کے کالم کے ذریعے ماضی کے حوالے سے ماضی کی ایک عظیم اداکارہ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جس نے ایک زمانے تک ٹی وی کے ذریعے نہ صرف خود کو منوایا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ ٹی وی کے ہر ڈرامے کی ضرورت بن گئی۔ اس وقت اس اداکارہ کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ایک وہ دور جب وہ ڈراموں کو بہت اپنے نام کر گئی۔ دوسری طرف اس نے عروج سے موت تک زندگی کے بڑے عذاب بھی جھیلے۔ کبھی پاگل خانے کبھی کسی ایسی جگہوں جہاں نفسیاتی امراض کو پناہ دی جاتی ہے۔ میری مراد روحی بانو سے ہے جس نے زندگی کی جہاں آسانیاں دیکھیں وہاں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔
اپنے دور کی سپر سٹار ٹی وی اداکارہ روحی بانو برصغیر کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کی بیٹی اور طبلہ نواز ذاکر حسین کی سوتیلی بہن بھی تھی۔ یاد رہے ذاکر حسین کا 2024ء کو بھارت میں انتقال ہوا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے نے روحی بانو کی طرح کئی فنکاروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ وہ اپنے دور کی جتنی بڑی انسان، جتنی بڑی اداکارہ تھی اس سے کئی گناہ عذاب جھیلتی رہی۔ اس کی اور بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک کرائم واقعہ میں اس کا جوان بیٹا مار دیا گیا اور یہی نہیں دولت اور گھر کے لالچ میں روحی بانو کو اس کے اپنوں نے اسے اس کے اپنے ہی گھر سے بے گھر کردیا گیا۔ جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ نتیجتاً وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اپنے آخری وقت میں وہ گلبرگ کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح پھرتی رہی۔ آخرکار اس کی ایک بہن فرام ترکی اسے اپنے ساتھ لے گئی اور وہیں روحی بانو کا انتقال ہو گیا۔ مشہور زمانہ رائٹر منو بھائی (مرحوم) روحی بانو کو سب سے زیادہ باصلاحیت اداکارہ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے روحی کردار کو اوڑھ لیتی ہے۔ ہدایت کار جتنا بتاتا ہے، وہ اس سے زیادہ سمجھتی ہے۔ منو بھائی کے لکھے کئی ڈراموں میں روحی بانو نے یادگار کردار ادا کئے۔منو بھائی کی نظر شناسی ایک جگہ سہی میرے نزدیک روحی بانو ایک ذہین انسان ہی نہیں وہ اپنے دور کی کسی بھی بڑی فنکارہ سے کم حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے زندگی کے ساتھ کیا کھیل کھیلا یا زندگی اس کے ساتھ کیا کھیل گئی۔ یہ سوال اس کی آخری گزری زندگی کے دوران بھی اٹھا تھا۔ اگر ان واقعات کی طرف جائوں گا تو یہ ایک پوری داستان بن جائے گی۔ کہیں وہ خود تو کہیں زمانے نے بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ وہ تو تہذیب کی اداکارہ تھی۔ وہ تو زندگی کے اصل کرداروں کی اداکارہ تھی، وہ تو کردار کے اندر ڈوب کر مر جانے والی اداکارہ تھی، وہ تو اداکاری میں اس حد تک چلی جاتی تھی کہ کردار بھی اس کے آگے لاجواب ہو جاتے اور بہت شہرت حاصل کی گئی عزت اور بہت کچھ ہونے کے باوجود اس کی زندگی اتنی عبرتناک ماحول اور برے حالات میں گزرے گی یہ کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ نجانے اس کی زندگی میں اس سے کونسی خطا ہو گئی، کیا بھول ہو گئی کہ اس کو نہ صرف کئی بار پاگل خانے میں دن گزارنے پڑے اور کئی دکھوں کے ساتھ زندگی اس کو اپنوں سے بھی دور کر دی گئی۔ (جاری ہے)