سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا،سلمان اکرم راجا
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وکیل سلمان اکرم راجا نے مؤقف اپنایا ہے کہ سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
9 مئی کے ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل جاری ہیں جس میں انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آج گیارہ بجے تک اپنے دلائل مکمل کر دوں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کریں تو زیادہ اچھا ہوگا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہنے دیں تاکہ گیارہ تک مکمل کر لوں، سادہ لفظوں میں بات کروں تو سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجا
پڑھیں:
21 ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قراردیا گیا؟ جج کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے ایک جج نے سوال اٹھایا کہ 21 ویں ترمیم میں فوجی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قرار دیا گیا؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آج عذیر بھنڈاری نے دلائل دینے تھے، عذی بھنڈاری سے بات ہوگئی ہے، آج میں دلائل دوں گا۔
سماعت کے آغاز میں وکیل اعتزاز احسن نے سلمان اکرم راجہ کے گزشتہ روز کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم میرے وکیل ہیں، لیکن انہوں نے جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا، جس پر میں نے انہیں ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی، اور میں خود جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔
سلمان اکرم راجہ نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف جسٹس منیب کے فیصلے کے ایک پیراگراف سے اختلاف رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز ارزم جنید نے دلائل دیے تھے اور وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ سلمان اکرم نے یہ بھی کہا کہ میڈیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے انہوں نے کچھ غلط کہا ہو۔
جسٹس نعیم اختر کے سوالات پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عالمی قوانین میں سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں ہے، جس پر جسٹس نعیم نے جواب دیا کہ ان کا سوال سب کے سامنے ہے، اور انہیں سوشل میڈیا کا اثر نہیں لینا چاہیے۔ جسٹس نعیم نے مزید کہا کہ وہ خود بھی سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ رپورٹنگ میں احتیاط برتنی چاہیے، جبکہ جسٹس مسرت نے کہا کہ ان کے خلاف اکثر خبریں چلتی ہیں اور دل چاہتا ہے کہ وہ جواب دیں، مگر ان کا منصب ایسا نہیں ہونے دیتا۔
لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں، اور اس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر دباؤ ہے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ پر کوئی دباؤ نہیں، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
لطیف کھوسہ نے قرآن اور دین اسلام میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر کیا، اور کہا کہ خلیفہ وقت کے خلاف یہودی کے حق میں فیصلہ آیا تھا، جس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی خلفائے راشدین کے دور میں بھی موجود تھی۔
بعد ازاں عدالت نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔