فرطِ جذبات سے سرشار پلکیں بھیگی ہچکی بندھی آہوں سسکیوں تڑپ اورغموں سے چور بوجھل دل بے قابو ہونے سے ضبط کابندھن ٹوٹ گیا۔پہلے پہل ڈبڈبائی پھرتھرائی اورآنکھیں بھرآئیں۔ آنکھوں میں تیرنے والے اشک چھلکنے کے لیے بیتا ب ،انسان کی بے اختیاری کاواضح ثبوت اشکوں کا بحربیکراں ،چشم تر،دیدہ پُرنم دلی،کیفیات کااظہار نمناک آنکھوں میںچھپے اشک ہیں۔انسان کی قیمتی اورانمول متاع بے بہا آنسو، آنکھوں سے رواں ہونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے۔بے بسی ،مجبوری اورلاچارگی کی کیفیت میں واحدسہارا اشک ہوتے ہیں۔شکستہ دل والے آنسوئوں کی قدرومنزلت خوب جانتے ہیں۔دکھ، تکلیف ،غم ،رنج ،راحت ،خوشی اور انبساط کے لمحات میں چشم تر ہونافطری عمل ہے۔پاکیزہ صاف وشفاف ،کبھی کبھار نمکین آنسوئوں کے نمک پارے بن جاتے ہیں۔مولاناروم کا کہنا ہے کہ ’’آنسو تووہ خون ہے جسے غم اور صدمے نے پانی بنادیا ہے‘‘اشکوں کی دھند میں کچھ لوگ کمال ضبط کامظاہرہ کرتے ہوئے بغیرآنسوئوں کے رولیتے ہیں۔کوئی عیاں اورکوئی نہاں اشک بہاتا ہے۔ایسے اشک بہانے والوں کی آ ہ سے بچنا چاہیے۔اشکوں کی جھڑی دل کی تشنگی سیراب کردیتی ہے۔نالہ نیم شب اولیا ء اللہ اوردرویشوں کاشیوہ رہا ہے۔راہِ سلوک کی عبادت وریاضت ،روح کی طہارت کیف سرور،جذب ومستی میں ڈوب کر گریہ نیم شبی سے دعائوں کی مقبولیت وجدان میں القا ہونے سے چشم بصیرت عطاہوتی ہے۔تہی دامن ،مفلوک الحال کے پاس اشک ہی تو ہوتے ہیںجن سے وہ اپنی داستان غم بیان کرتا ہے۔ہجروصل کے لمحات کا اکسیر نسخہ آنسو ہیں۔محبت کے سوزونہاںمیں ڈوبے اشک، بیتی یادوں کے ترجمان بن کر داستان بیان کرتے ہیں ۔تنہائی کا انس شبِ تاریک میں مچلتا شرر کی مانند حصول رحمت رب العالمین کا ذریعہ ہے۔دیدہ پُرنم چھلکتے رقت طاری ہونے سے قدسی محوحیرت سے جلوہ قدرت کانظارہ کر رہے ہوتے ہیں۔روح کی حقیقت اشکوں سے منعکشف ہوتی ہے۔شبنم کے آنسو مرجھائے ہوئے پھولوں کو پھر سے کھِلادیتی ہے۔قلب کی کچھ خاص کیفتیںزبان بیان نہیں کرپاتی اشک ہی حالِ دل کا راز فاش کرتے ہیں۔ڈبڈ بائی آنکھوںسے رواں آنسو سخت دل کوپگھلا دیتے ہیں۔سرمگیںآنکھوں سے آنسوٹپ ٹپ گرتے ہیں توساون کی کالی گھٹائوں کاساماں باندھ جانے سے دامن میں اشکوں کا ذخیرہ ہوجاتا ہے۔وصل و فراق کے خوشگوار تلخ لمحات اشکوں سے محبت اورنفر ت کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔کچھ غم جو دل کو بے چین رکھتے ہیں۔ آنسوئوں کی صورت میں دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔اضطراب کے عالم میں گریہ زاری سے رواںاشک انتہائی قیمتی ہیں۔اشک اظہار بندگی ہوتے ہیں۔اشک ندامت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں حاضری نصیب والے کوہی ملتی ہے۔تنہائی کے لمحوں میں اشک بہانا چاہیے۔آنسوئووں سے انسان کا کیتھارسس ہوتا ہے۔موتیوں سے زیادہ صاف اشک رخساروں پرڈھلکے داستان غم بیان کررہے ہیں۔شب کے اُس پہرجب کوئی بھی آپ کے پاس نہ ہوخلوت میں آنکھیں نمناک ہوجائیں زندگی کاحاصل ہوتا ہے۔دل وجان سے چاہے جانے والا جب رشتے وناطے ختم کر کے جفا کی راہ لیتاہے تووفا کرنے والے کے پاس اشک فشانی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اشک کمزوری کی علامت نہیں بلکہ یہ بہت بڑی طاقت ہوتی ہے جوپتھردل کوبھی موم کردیتے ہیں۔آنسو صحت کے لیے بہت مفید ہوتے ہیںماہرین امراض چشم کے مطابق آنسوئوں کے ساتھ رونے کا عمل آنکھوں کے لیے موثر تھراپی کادرجہ رکھتا ہے۔جس کی وجہ سے آنکھوں کی کارکردگی بہترہوتی ہے۔اشک بہانے کا عمل انسان کے جذباتی زخموں کو مندمل کرنے میں مدددیتا ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق آنسوٹپکنے سے جلد کی حساسیت بڑھ جاتی ہے اورگہرے سانس لینے کاعمل تیز ہوجاتا ہے جو صحت کے لیے اچھی علامت ہوتی ہے۔رونے کاعمل ہر فرد کے لیے تھراپی کی حیثیت رکھتا ہے۔آنسو آنکھ کاعدسہ دھو کر شفاف منظر دیکھنے میںمددگار ہوتے ہیںمٹی ،گردوغبار صاف کرنے کے ساتھ آنکھوں کو نمی فراہم کرتے ہیں۔جس سے ہماری بینائی میں بہتری پیداہوتی ہے۔بے قرار اوربے سکوں دل کی گریہ زاری سے نہ تھمنے والے آنسو رحمت ابر بن کر صدف امید پراس طرح برستی ہے کہ گوہر مقصود برآمد ہوتا ہے۔آنکھوں میں بحرِ بیکراں رکھتے ہوئے چپکے چپکے آنسو بہانا اورحسین یادوں میں کھوجانا زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ ہوتا ہے۔مشہور مزاحیہ اداکار چارلی چپلن نے کیا خوب بات کہی کہ”مجھے بارش میںآنسو بہانا اچھا لگتا ہے کیونکہ بارش میں رونے سے کسی دوسرے انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ آنکھوں سے ٹپکنے والے اشکوں کاسلِ رواں ہے۔’’شبنم صبح کے قطروں کی طرح چھلکتے ڈھکتے رخساروں پر آنسوئوں سے آنچل کابھیگانا پھر اچانک سے کوئی اشک شوئی کردے تو کیا کہنے کبھی کبھارکسی کی سادگی پر آنکھ بھرآتی ہے۔آنسو کوقطرہ سے قلزم بنتے دیرنہیں لگتی۔دل کی لگی آنسوئوں کے پانی کے بغیر نہیں بجھ سکتی۔کسی کی جدائی میں بہائے جانے والے اشک حقیقی طورپر اثرپذیر ہو کر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں۔داغِ مفارقت دے جانے والے پیاروں کی جدائی میں اشک تھمنے کا نام نہیں لیتے ایک کسک دل میں اُٹھتی ہے۔
ـ’’ہرکجا آبِ رواں غنچہ بود-ہرکجا اشک رواں رحمت بودترجمہ جب آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین پر پھول اورغنچے کھلتے ہیں -جب آنسو جاری ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے۔(مولانہ روم)اشکوں کی اہمیت کااندازہ سورۃ یوسف (آیت 86)سے بخوبی ہوتا ہے۔حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام بیٹے کی جدائی کے غم میں مبتلا خاموشی سے روتے روتے آنسو ختم ہوگئے اور آنکھیں سفید پڑگئیں بینائی چلے گئی انہوں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ’’ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا بے شک میں اپنا رنج وغم صرف اپنے اللہ پاک سے بیان کرتا ہوں۔وہ میری دلی کیفیات کو مجھ سے بہتر جانتا ہے وہی سکون دینے والا ہے۔وہ میرے بچے سے مجھے ملانے والا ہے‘‘اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کی گریہ زاری کی بدولت بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سے ملوادیا۔پدرانہ شفقت اورجوش محبت سے یہ معجزہ ہوا۔خزن وملال کی کیفیت میں مانگی جانے والی دُعائیں کبھی رد نہیں ہوتی ہیںکیونکہ اللہ رب العزت کی رحمتیں آنسوئوں میں رہتی ہیں۔شوق دید کو دل میں رکھ کر نگاہ الفت سے نہاں خانہ جھوم جاتاہے۔خوف اورخثیت الہٰی سے رات کی تاریکی میں نمناک آنکھوں سے ٹپکنے والا بندہ مومن کے آنسو کا قطرہ اللہ تعالیٰ کوبے حد پسند ہے اوریہی لمحہ قرب ہے جب یزداں شہ رگ سے بھی قریب ہوتا ہے۔وجدانی کیفیت میں رازونیاز کالطف نرالا ہے۔دل کی نرمی ،روح کی بالیدگی خوف خداکی واضح دلیل اشک ہیں۔روٹھنے والوں کو منانے کے لیے آنسو کارگر ثابت ہوتے ہیں ۔آنسوئوں سے داغ دل دھل جاتے ہیںاس کے لیے اشک ندامت بہانا لازم ہے۔کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کی چشم تر ہونے پراُس کی ڈھارس بندھائی جائے۔ہماری وجہ سے کسی کے اشک رواں ہونے سے تھم جائیں بہت بڑی نیکی ہوگی۔ آنسو آپ کا بہت ہی قیمتی اثاثہ ہیں ۔ کسی کو دکھ، درد،تکلیف میں مبتلاپاکر اس کے غم کومحسوس کرتے ہوئے آنکھوں سے چھلکنے والے اشکوں کو خاک بسر ہونے سے پہلے اپنے دامن میں سمو لیناچاہیے۔ سکوتِ شب تنہائی میں اشک بہانے سے مرادیں برآتی ہیں۔خشوع وخضوع ،سچے ،پاک وشفاف ،خثیت الہٰی سے لبریز متبرک اورقابل رشک ،اشک محسن انسانیتؐ کے تھے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ا نسوئوں کے اللہ تعالی ا نکھوں سے ہوتے ہیں والے اشک کرتے ہیں ہوتا ہے ہوتی ہے ہونے سے والے ا کے لیے
پڑھیں:
کراچی کا ماڈل تھانہ، جہاں جاتے ہی تھانے کے حوالے سے آپ کا روایتی تاثر بدل جائے
اکثر تھانہ کلچر کے حوالے سے تنقید کی جاتی ہے، اس لیے کہ روایتی طور پر پاکستان میں تھانہ کلچر عوامی سہولت کے لیے کم اور تکلیف کا لیے زیادہ مشہور ہے۔ اس حوالے سے بہت سی حکومتوں کی جانب سے مؤثر اقدامات اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن تھانہ کلچر نہیں بدل سکا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایک عام شہری تھانے جانے سے گھبراتا ہے۔
حال ہی میں کراچی کے تھانہ شارع فیصل کو بطور ماڈل تھانہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ تھانہ شہریوں کے لیے سہولیات کے ساتھ تھانہ کلچر میں تبدیلی کا سبب بنے گا۔ عموماً تھانے میں داخل ہوتے ہی پریشان شہری مزید پریشانیوں سے دوچار ہوجاتا ہے، جبکہ اس تھانے میں داخل ہوتے ہی ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ وہ ایسے کہ ایک خاتون پولیس اہلکار ریسپشن پر بیٹھے آپ کو خوش آمدید کہے گی۔
ماڈل تھانے میں داخل ہوتے ہی آپ کو اپنی باری کی پرچی کمپیوٹر سے لینا ہوگی، جس کے بعد اے سی والے ویٹنگ ایریا میں آپ اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اس دوران آپ چاہییں تو چائے، پانی، یا کافی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، تاہم آپ کو یہ سہولت تھانے میں موجود ’کفس اینڈ کیفے‘ سے کم قیمت پر دستیاب ہوگی۔
اس تھانے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر طرح شکایت اور خواتین و بچوں کے لیے الگ الگ کمرے ہیں، جہاں انتہائی رازداری کے ساتھ نہ صرف آپ کی شکایت سنی جائے گی، بلکہ فوری اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔ سرویلنس کے لیے کیمرے نصب کیے گئے ہیں جس سے دیکھا جا سکے گا کہ کسی سائل کے ساتھ ناروا رویہ نہ تو نہیں برتا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں