(گزشتہ سے پیوستہ)
29 جولائی عشاء کی نماز مسجد الحرام میں ادا کرنے کے بعد ہم (میں اور اہلیہ محترمہ) اپنے ہوٹل پہنچے تو ہم تھکے ہوئے تو تھے ہی اس کے ساتھ ہمیں اگلے دن 30 جولائی جو مکہ مکرمہ میں ہمارے قیام کا آخری دن تھا کی کچھ فکر مندی بھی تھی کہ اس دن صبح فجر کی نماز کے بعد خانہ کعبہ کا طواف ضروری ہے تو اس کے ساتھ مکہ مکرمہ کے مقدس تاریخی مقامات کی زیارات بھی کرنا ہیں۔ پھر سامان کی پیکنگ وغیرہ بھی دیکھنا ہو گی کہ شام کو جد ہ ائیر پورٹ روانگی ہونا تھی۔ یقینا اس سے کچھ تشویش تھی لیکن ساتھ ہی دل کو تسلی تھی کہ اللہ رحمان و رحیم اپنا کرم فرمائیں گے اور سب کچھ بخیر و خوبی سرانجام پا جائے گا۔ ہوٹل کے کمرے سے میں نے شیر افضل صاحب سے زیارات پر جانے کے لیے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ صبح کے وقت زیارات کے لیے بسیں اور دوسری سواریاں یہاں شارع ابراہیم خلیل سے مل جاتی ہیں ۔ میں اپنے ایک جاننے والے کو جو زیارات کے لیے لے جانے والی بسوں پر کام کرتے ہیں آپ کا فون نمبر دیتا ہوں، وہ آپ سے بات کریں گے اور آپ اُن کے ساتھ اپنا پروگرام وغیرہ طے کر لیں ۔ بس کا ایک شخص کا 10ریال کرایہ ہو گا۔ شیر افضل صاحب سے بات ختم ہوئی تو کچھ ہی دیر میں اُن کے جاننے والے صاحب کا فون آ گیا اور اُس صاحب نے بتایا کہ صبح فجر کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے کے وقت شارع ابراہیم خلیل سے بسیں زیارات کے لیے روانہ ہو جاتی ہیںآپ کو تیار رہنا ہو گا جونہی بس شارع ابراہیم خلیل پر اِدھر پہنچے گی میں آپ کو بلا لوں گا۔
مکہ مکرمہ کے مقدس تاریخی مقامات کی زیارت کے حوالے سے یہ پروگرام طے تو پا گیا لیکن قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا ہم کچھ تھکے ہوئے تھے رات کو نیند کچھ دیر سے آئی اور پہلی بار ایسا ہوا کہ مسجد الحرام میں فجر کی اذان کے بعد میری ہی نہیں اہلیہ محترمہ جو بفضلِ تعالیٰ صبح سحری کے وقت جاگنے کی عادی ہیں کی بھی آنکھ کھلی ۔ سچی بات ہے ہم دونوں کچھ پریشان ہوئے۔ جلدی جلدی وضو کیا، میں نے احرام باندھا کہ نیچے مطاف میں طواف کیا جا سکے اور مسجد الحرام کا رُخ کیا۔ فکر مندی تھی کہ فجر کی نماز کا وقت کہیں گزر نہ جائے۔ باب الملک فہد کے باہر کھلے احاطے میں بچھے قالینوں پر فجر کی نماز ادا کی اور پھر طواف کے لیے آگے چل پڑے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں اور اہلیہ محترمہ اکٹھے طواف کر رہے تھے ورنہ اس سے قبل جو بھی طواف کیے تھے میں اور عمران عموماً اکٹھے ہوتے تھے جبکہ اہلیہ محترمہ دیگر خواتین کے ساتھ طواف کرتی تھیں ۔ میرے اور اہلیہ محترمہ کے اکٹھے طواف کرنے میں ذرا مشکل بھی تھی کہ میں تیز چلنے کا عادی ہوں جبکہ اہلیہ محترمہ سانس کی بیماری کی وجہ سے زیادہ تیز نہیں چل پاتی ہیں۔ خیر اللہ کریم کا احسان کہ مطاف میں صبح کے وقت کافی رش ہونے کے باوجود ہمیں پہلو بہ پہلو چلتے اور چکر کاٹتے ہوئے کوئی زیادہ دقت پیش نہیں آ رہی تھی۔ ابھی طواف کے دو تین چکر باقی تھے کہ میرے فون کی گھنٹی بار بار بجنا شروع ہو گئی۔طواف کے دوران فون اٹینڈ کرنا آسان نہیں تھا ۔ طواف سے فارغ ہو کر میں نے کالز کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ زیارات پر لے کر جانے والے صاحب کی مس کالز تھیں۔ میں نے اُن کا دو تین بار فون ملاکر اُن سے رابطے کی کوشش کی لیکن آگے سے کوئی جواب نہ آیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ہمارا انتظار کرنے کے بعد چل پڑے ہونگے۔ ویسے بھی میں سمجھتا تھا کہ اُن سے جا کر ملنا ہمارے لئے آسان نہیں تھا۔ اس لیے کہ مسجد الحرام سے باہر آ کر شارع ابراہیم خلیل پر کسی پاکستانی ہوٹل سے ہم نے ناشتہ کر کے اپنے ہوٹل جانا تھا ۔ میں نے احرام وغیرہ کھول کر دوسرے کپڑے پہننا تھے اور پھر تیار ہو کر زیارات کے لیے جا سکتے تھے۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق زیارات کے لیے بس نہ پکڑ سکنے کا افسوس ضرور تھا مگر اس کے سوا اور چارہ کار ہی کیا تھا۔ اب ہمارے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ ہوٹل پہنچنے اور ضروری تیاری کے بعد زیارات پر لے جانے والی کسی اور بس یا ٹیکسی یا کسی اور سواری کے ذریعے زیارات کے سفر کی تکمیل کریں۔ شارع ابراہیم خلیل پر جہاں بسوں کا سٹاپ ہے اور بسیں اور ٹیکسیاں وغیرہ کھڑی ہوتی ہیں وہاں ہم نے مطعم عرفات پاکستانی ہوٹل پر ناشتہ کیا اور کچھ فاصلے پر چڑھائی پر اپنے ہوٹل میں آ گئے۔ احرام کی جگہ میں نے شلوار قمیض پہنی ۔ اہلیہ محترمہ کو کمرے میں ہی چھوڑ ااور نیچے شارع ابراہیم خلیل پر آ گیا تاکہ زیارات پر لے جانے والی کسی بس یا کسی دوسری سواری سے رابطہ کر سکوں۔ شارع ابراہیم خلیل پر سامنے جو بسیں وغیرہ کھڑی تھیں اُن میں سے زیارات پر جانے والی کوئی بس نہیں تھی البتہ وہاں ایک دو ٹیکسیوں اور چھ ، سات سیٹوں والی ایک دو ویگنوں کے پاکستانی ڈرائیور زیارات، زیارات کی آوازیں بلند کر رہے تھے ۔ اُن میں سے ایک ویگن والے سے میری بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ پوری گاڑی کے 100 ریال لوں گا ،ہاں اگر اور سواریاں مل جائیں تو آپ سے دو سواریوں کے 50 ریال لے لونگا۔ میں نے اُس سے ہٹ کر ایک ٹیکسی والے سے بات کی تو اُس نے کم از کم 60-70 ریال کرایہ بتایا۔ اسی دوران ایک دوسرا ٹیکسی والا جو مجھے کسی حد تک معقول لگ رہا تھا اُس سے میری بات ہوئی تو اُس نے 50 ریال کرایہ بتایا ۔ میں نے کرایہ کم کرنے پر اصرار کیا تو وہ مشکل سے ہی لیکن 40 ریال کرائے پر آمادہ ہو گیا۔ میں نے اُسے انتظار کرنے کو کہا کہ میں اُوپر ہوٹل سے اہلیہ محترمہ کو ساتھ لے کر آ جاتا ہوں۔ میں ہوٹل میں گیا اور آٹھ ، دس منٹوں کے اندر اہلیہ محترمہ کو لے کر نیچے سڑک کے کنارے آ گیا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ اور گاڑیاں تو کھڑی ہیں اور وہ ٹیکسی جس کے ڈرائیور سے میں بات پکی کر کے گیا تھا وہ موجود نہیں۔ اُسے شاید میری غیر موجودگی میں زیادہ کرایہ دینے والی سواریاں مل گئی ہونگی۔ مجھے کچھ افسوس ہوا اور میں ذرا پریشان بھی تھا اہلیہ محترمہ کو وہاں سڑک سے ہٹ کر بنے ہوٹل کے باہر بیٹھنے کو کہا اور خود آگے چل دیا کہ زیارات پرلے جانے والی کسی اور سواری کا بندوبست کر سکوں۔ اللہ کریم کا خصوصی کرم کہ اسی دوران بائیں طرف شارع ابراہیم خلیل کی کبوتر چوک والی سمت سے مجھے زیارات زیارات کی آواز سنائی دی۔ میں آوازیں لگانے والے صاحب کے پاس پہنچا تو اُس نے بتایا کہ یہ سامنے والی بس مقدس مقامات کی زیارات کے لیے زائرین کو لے کر جائے گی اور 12 ریال فی سواری کرایہ ہو گا۔ میں نے اُسے کہا کہ میں اہلیہ محترمہ کو ساتھ لے کر آتا ہوں آپ ہمارے لیے دو سیٹیں رکھ لیں ہم آپ کے ساتھ ہی جائیں گے ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اہلیہ محترمہ کو زیارات کے لیے لے جانے والی مسجد الحرام فجر کی نماز زیارات پر مکہ مکرمہ کے ساتھ کے وقت تھی کہ کے بعد کہ میں
پڑھیں:
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کرانے پر سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کی عدالت طلبی
عدالتی حکم کے باوجود بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے ملاقات نہ کرانے پر توہین عدالت کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے 27 فروری کو سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیاہے۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کو جس سیل میں رکھا گیا اس کا مریم نواز سے کیا تعلق ہے؟
اڈیالہ جیل سپرنٹینڈنٹ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے فیصل فرید چوہدری عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
فیصل فرید چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے اس عدالت کے حکم پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا، جیل سپرنٹینڈنٹ کے بیان کے باوجود بشریٰ بی بی کی عمران خان سے ملاقات نہیں کرائی جارہی۔
مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کو 14، بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا، القادر ٹرسٹ کی زمین بھی تحویل میں لینے کا حکم
قائمقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کا دریافت کرتے ہوئے اسٹیٹ کونسل کو ہدایت کی کہ عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد یقینی بنوائیں، عدالت نے سپرنٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کو طلب کرتے ہوئے سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اڈیالہ جیل اسٹیٹ کونسل اسلام آباد ہائیکورٹ بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی چیف جسٹس سپرنٹینڈنٹ سرفراز ڈوگر عدالتی حکم عمران خان فیصل فرید چوہدری