Nai Baat:
2025-02-20@20:33:12 GMT

تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان

تصوف اسلامی معاشرت و ممالک اور خاص طور پر برصغیر میں روحانیت بعض ترک دنیا اور کچھ قرب الٰہی حاصل کرنے کا مفہوم دیتے ہیں۔ مسلمان علماء میں سے بہت سے متفق اور زیادہ تر غیر متفق ہی نہیں باقاعدہ معترض ہیں۔ اسلامی تاریخ میں تیسری ہجری میں اس کی شروعات کے شواہد ملتے ہیں۔ برصغیر میں بڑے علماء اور فقراء کے باقاعدہ آگے سلسلے چلتے جاتے ہیں لیکن انسانی تاریخ اور اس کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ تصوف پر صرف مسلمانوں کا قبضہ تصور کرنا سخت زیادتی ہے۔ انسان روح اور بدن کے سنگم کا نام ہے۔ روح کو ہمیشہ فطرت کے مطابق پاک جانا جاتا ہے جبکہ بدن بر تقاضا بشریت اس کے برعکس ہے۔ کسی شخص کے بشری تقاضوں پر روح حاوی ہو اور اپنا کردار ادا کرتی رہے تو وہ شخصیت روحانی شخصیت کہلاتی ہے۔ بشریت کے تقاضے انسان کا حسن مگر ان پر قابو پانا اور روح راج ہونا صوفی اور نیک سیرت ہونا ہے۔ بشری تقاضوں میں ڈوبا ہوا شخص معاشرتی حیوان کہلاتا ہے جب ایسا کیا جائے تو روح کا کچھ لینا دینا نہیں۔ روح کو آقا کریمؐ نے امر اللہ قرار دیا۔ اس کے تجربہ کیلئے کوئی اپنی ذات کی تلاشی لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ وہ ہر وقت ایک کی بجائے دو کیوں ہے۔ اگر بازار میں ہے تو اس کی توجہ گھر میں، گھر میں ہے تو توجہ دفتر میں ہے۔ یہ انسان سے جدا ہو کر اس کا اپنا آپ ہی اگر کہیں اور ہے اس کو روح کہا جا سکتا ہے۔ ہندوئوں، پارسیوں، عیسائیوں، بدھوں غرض دنیا کے تمام مذاہب حتیٰ کہ ملحدین میں بھی صاحب تصوف لوگ پائے جاتے ہیں البتہ اسلامی حوالہ سے اس کا جائزہ لیا جائے تو تزکیہ نفس اور حصول قرب الٰہی و بارگاہ رسالتؐ میں شرف قبولیت اس کا مرکز ہے۔تصوف فرقہ واریت اور نفرت سے پاک ہوا کرتا ہے۔ اہل تصوف میں جن کو معراج حاصل ہو وہ صاحب کشف بھی ہوا کرتے ہیں جن کو القاء ہونا معمولی بات ہے۔ انسانوں کی انتہائی تھوڑی انگلیوں پر گنی جانے والی ہستیاں اس سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیت صاحب علم بھی ہو دینی علم کے علاوہ اس کو سائنسی علوم پر بھی دسترس ہو، علم العداد بھی ہو اور یہ انسانیت کا مبلغ ہونے کے ساتھ قرآنی آیات مبارکہ کے فضائل سے بھی بھرپور واقف ہو۔ اللہ پر اس کے اس کرم کو جب زبان ملے گی جب وہ بات کرے گا تو پھر لوگ اس کو پروفیسر جناب احمد رفیق اختر صاحب کے نام سے جانیں گے۔ آج ان کے معتقدین دنیا بھر میں پائے جاتے، ہزاروں گھرانے ان کی بات سنتے ہیں۔ آیات مبارکہ اور دعا جات کے علم اور انسانی مسائل ورد کے ذریعے حل ہونے کا کشف انہیں عطا ہوا ہے۔ یہ سلسلے آج کے نہیں یہ شاہ شمس تبریزی، مولانا رومی اور ڈاکٹر محمد اقبال تک صوفیاء کی تاریخ پر ماتھے کا جھومر ہوا کرتے ہیں۔ ان کی جلائی ہوئی جوت انسانوں میں موجود رہ کر انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرتی ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جو دلوں کو اجالا کردار کو جلا بخشتی ہے اور سکون قلب کا سبب بنتی ہے۔ پروفیسر صاحب کا مجھے ایک دوست نے 2005ء میں بتایا کہ گوجر خان کے ہر شخص کے ہاتھ میں تسبیح اور اللہ کا ذکر پروفیسر صاحب کی تعلیمات کی بدولت ہے۔

پروفیسر صاحب کی بدولت تسبیح اور روحانی پاکیزگی ہی نہیں انسانی خدمت کی صورت میں لوگ ملتے ہیں جیسے سابق ایم این اے زمرد خان جو سویٹ ہوم کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں۔ وطن عزیز کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ اگست 2013 کو ملک سکندر نامی شخص نے ایک کار چوری کی اور کئی پولیس اہلکاروں کو بے بس کر لیا۔ بالآخر وہ بلیو ایریا میں جناح ایونیو کے وسط میں چلا گیا۔ جائے وقوعہ پر موجود پولیس ابتدائی طور پر اس شخص کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ یہ واقعہ چھ گھنٹے تک براہ راست نشر کیا گیا۔ کئی سیاست دانوں نے یرغمال بنانے والے کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ زمرد خان جائے وقوعہ پر صورت حال دیکھ رہا تھا جہاں اس نے بندوق بردار سے رابطہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ خان نے بندوق بردار کے ساتھ چند الفاظ کا تبادلہ کیا۔ بچوں سے مصافحہ کرتے ہوئے، خان نے اچانک اس شخص کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے پاؤں کھو گئے۔ بندوق بردار نے کئی گولیاں چلائیں تاہم خان زخمی ہونے سے بچ گیا۔ خان بچوں کی طرف بھاگا اور انہیں خطرے سے دور کر دیا۔ اس کے بعد دستیاب پولیس نے بندوق بردار کی ٹانگوں پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہو گیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

گزشتہ روز پروفیسر صاحب گوجرہ میں مذہبی اجتماع تھا جس میں انہوں نے فرمایا… بڑھتا ہوا دماغ اور ترقی انسان کو تباہی کے قریب لے جا رہی ہے، وسائل تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں موجودہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زمین کا ایک تہائی حصہ باقی رہ گیا ہے جبکہ حیاتیاتی وسائل پورے کرنے کیلئے چار مزید زمینوں کی ضرورت ہے۔ اے آئی سے خود اسکے خالق خوفزدہ ہیں یہ ترقی کی معراج ہے مگر اے آئی میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے جو دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا، ابھی ایک بہت بڑی جنگ ہونا باقی ہے جسے اے آئی لیڈ کریگی۔ آج قرآن کی ہر سٹیٹمنٹ سو فیصد درست ثابت ہو چکی ہے، اب اللہ کا انکار آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نیکی بدی کو جانچنے کا شعور بخشا ہے، عقل اللہ اور انسان کے مابین پل کا کام دیتی ہے۔ اے آئی 2030 تک نوجوان جسم پر بوڑھے شخص کا سر لگانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سائنس بتاتی ہے کہ انسانی دماغ 300 سال تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر بدن نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عنقریب لوگوں پر دھوکے کے بھرپور سال آئیں گے جب بددیانت کو دیانتدار، جھوٹے کو سچا اور بے وقوفوں کی رائے کو عوامی معاملات میں اہمیت حاصل ہو گی، علم صرف دکھلاوے کیلئے رہ جائیگا، دعوئوں کی منڈیاں لگیں گی، چھوٹے لڑکوں کو مذہب پر اتھارٹی مانا جائیگا، دجال کا فتنہ بھی یہی ہو گا کہ آسمان سے بارش برسائیگا اور بارش کے بغیر غلہ اگائے گا، اور کہے گا میں تمہارے باپ یا بھائی کو زندہ کر دوں گا تو مجھے خدا مان لو گے۔ اب اے آئی بھی یہی کرنے جا رہی ہے، ہم نے زمین مال اور اقتدار کے بدلے اللہ تعالیٰ سے جو جنگ شروع کر رکھی ہے اس میں ہمیں مکمل ہار ہو گی۔

جناب قبلہ محمد صادق صاحب ڈی جی کسٹم ویلیو ایشن نے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کا شعر لکھ کر دیا۔ جس کا مفہوم ہے ’’گزرا ہوا سرود دوبارہ آتا ہے کہ نہیں؟ حجاز سے پھر وہی نسیم سحر آتی ہے کہ نہیں؟ اس فقیر کی زندگی کا آخری وقت آن پہنچا، کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں؟‘‘۔
پروفیسر صاحب کو اللہ زندگی دے لوگوں کے روحانی مسیحا ہیں اور سائنسی امتزاج کے ساتھ کمال درجے کے انسان ہیں اور امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پروفیسر صاحب کے ساتھ اے ا ئی

پڑھیں:

بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا: جسٹس نعیم اختر افغان

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کی۔

دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ملٹری کورٹ سے سزا کے خلاف اپیل کنندہ ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کریں تو زیادہ اچھا ہو گا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہنے دیں تاکہ 11 بجے تک دلائل مکمل کر لوں، سادہ لفظوں میں بات کروں تو سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کر کے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا، سویلینز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے، بین الاقوامی تقاضہ ہے کہ ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہئیں، دنیا بھر کے ملٹری ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں عدالتوں میں جاتی ہیں، یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بدلنے پر مجبور کیا۔

یہ تفریق کیسے کی گئی کہ کونسا کیس ملٹری کورٹس میں، کونسا اے ٹی سی میں جائے گا؟ جسٹس نعیم اختر افغان

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ کر رہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ 

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہو گا؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں، شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ 

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یو کے میں کورٹ مارشل فوجی نہیں بلکہ آزاد ججز کرتے ہیں، ایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول نہیں تھا، پہلے تو ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار فوجداری ٹرائلز کرتے تھے، کہا گیا اگر ڈی سی فوجداری ٹرائل کر سکتا ہے تو کرنل صاحب بھی کر سکتے ہیں، تمام ممالک بین الاقوامی اصولوں پر عملدرآمد کی رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کرتے ہیں، یو این کی انسانی حقوق کمیٹی رپورٹس کا جائزہ لے کر اپنی رائے دیتی ہے، گزشتہ سال اکتوبر اور نومبر کے اجلاسوں میں پاکستان کے فوجی نظام انصاف کا جائزہ لیا گیا، یو این کی انسانی حقوق کمیٹی نے پاکستان میں سویلنز کے کورٹ مارشل پر تشویش ظاہر کی، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد نہیں، رپورٹ میں حکومت کو فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت دینے کا کہا گیا ہے، یورپی کمیشن کے مطابق احتجاج والوں کا کورٹ مارشل کرنا درست نہیں، یورپی یونین نے ہی پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس دے رکھا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں یہی نکات اٹھائے ہیں، ہزاروں افراد کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہو سکتا تو ان 105 کا کیوں نہیں؟

متعلقہ مضامین

  • رضی احمد رضوی؛ پاکستان کے بڑے براڈ کاسٹر جنہوں نے امریکہ میں بھی نام بنایا
  • 26 ویں ترمیم کی منظوری پر کسی رکن پارلیمنٹ نے استعفیٰ دیا؟ جج آئینی بنچ
  • ’’مظلوم کشمیری‘‘ صاحب سے ملاقات
  • سلمان اکرم راجہ نے کل جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، میں نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی، اعتزاز احسن 
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: اعتزاز احسن کا سلمان اکرم راجہ کے موقف سے اختلاف
  • بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا سویلیز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا: جسٹس نعیم اختر
  • ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا
  • امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث
  • بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا: جسٹس نعیم اختر افغان