Nai Baat:
2025-04-15@06:29:57 GMT

پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے

جولائی کے پہلے ہفتے گلابی رنگ جو ہر سو پھیلا تھا یہ فصل گندم کی تھی۔ بلندی پر اگنے والی اس فصل کو مقامی زبان میں گیاوس اور انگریزی میں بک وہیٹ کہتے ہیں جس کی روٹی قدرے سیاہی مائل ہوتی ہے۔ کہیں راستے میں تھریشر بھی چل رہے تھے اور کہیں ابھی یہ فصل کچی تھی۔ تھنگل کے بعد کچھ زیادہ سفر نہیں تھا مگر سفر تھا بہت زیادہ۔ ایک بات طے تھی کہ ہم سکولے کے قریب تھے، یعنی تہذیب کے آخری کنارے پر تھے۔ معروف مصنف اے گوگنا نے لکھا تھا ’’سکولے نام ہے چھوٹے چھوٹے نخلستانوں کا جو صحرا سے حاصل کیے گئے ہیں، وہاں یہ آخری گاؤں ہے اور آپ ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ دنیا کے آخری سرے پر پہنچ گئے ہیں‘‘۔ شام کے سرمئی سائے پھیل رہے تھے جب ہم سکولے میں داخل ہوئے۔ آخری چڑھائی کے بعد بائیں جانب آبادی کا آغاز ہوا تو آخری گاؤں کی پہلی صورت نظر آئی۔ یاک کے دودھ سے بنی مورت نظر آئی، برالدو کنارے اگی ہوئی فطرت ہمارے سامنے تھی۔ سنو لیک میں پڑھا تھا ’’ہماری ریاست نگر سے دس روز کی برف ہی برف مسافت پر ایک گاؤں ہے، جس کے باسی اتنے بھولے ہیں اور امن والے ہیں کہ اپنا شہد، پنیر، مارخور کی کھالیں، مکھن اور جو کے توڑے جنگ کیے بغیر ہم نگر والوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘‘۔ پڑھی ہوئی بات درست نکلی، بس یہی بات تھی جسے جیسے پڑھا تھا وہ ویسے ہی درست نکلی، ورنہ جو کچھ پڑھا گیا، وہ کبھی درست ثابت نہ ہوا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے راشد نے سکولے کے آخری سرے پر لگے بورڈ بھی پڑھ لیے اور ہم جیپ سے اترنے لگے۔ سکولے میں جتنے بھی لوگ تھے، بچے تھے، جوان تھے، وہ سبھی جیپ کو یوں دیکھتے تھے جیسے انسانوں کو دیکھے ہوئے مدت گزر گئی ہو۔ جیسے وہ لوگ آدم زاد کو دیکھے بغیر کئی موسم گزار چکے ہوں۔ سکولے گاؤں میں نو تعمیر شدہ گیسٹ ہاؤس کے سامنے ہمیں بٹھایا گیا۔ وہیں پر غلام رسول بروکو سے ملاقات ہوئی۔ غلام رسول ادب کا طالب علم تھا اور سکولے میں ایک لائبریری بنانا چاہتا تھا۔ سکردو سے شگر، داسو اور اب سکولے کا پُر پیچ سفر، مگر یہاں پر تھکن دم توڑ گئی تھی۔ جس طرح ہمارا استقبال کیا گیا، اس انداز نے تھکن اتار دی تھی۔ سال ہا سال سے کی گئی کوہ نوردی سکولے میں ہونے والے استقبال سے مات کھا گئی تھی۔ ہمیں ہر ہل سٹیشن سے با وقار انداز میں رخصت تو کیا جاتا تھا مگر ایسا استقبال کہیں نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کا سفر ہم آسانی سے کر چکے تھے تو پھر برالدو کے اس پار ’’تستے اور‘‘ کورفے کے گاؤں کو دیکھے بغیر کیسے جا سکتے تھے۔ کورفے کا گاؤں ایک امریکی کوہ پیما کے عطیہ سے بنائے گئے سکول کی وجہ سے مشہور تھا۔ 1993 میں کے ٹو مہم سے ناکام ہونے والے مسٹر گرگ مورٹنسن گرتا ہوا برالدو کے بائیں کنارے پہنچ گیا، جہاں پر بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ کاغذ، قلم نہیں تھا اور وہ لکڑی کے ذرا موٹے تنکوں سے زمین پر لکھتے تھے۔ کورفے کے لوگوں نے اس نیم جان کوہ پیما کی زندگی بچانے میں مدد دی تھی۔ اس لیے وہاں سکول بنا کر ان کے احسان برابر کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں کہا گیا کہ یہ سکول امریکیوں سے چندہ لے کر بنوائے گئے اور مورٹنسن نے فنڈز اپنی ذات پر بھی خرچ کیے مگر یہ سب باتیں منفی ہیں۔ سکولے سطح سمندر سے 3052 میٹر بلندی پر ہے اور یہاں پر فروٹ کے درخت موجود نہیں، صرف بید اور سفیدہ آسمانوں کو چھوتا ہے۔ یک فصلی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت کے علاوہ زیادہ تر سیاحوں کی باربرداری پر ہے اور یہ کام بھی صرف گرمیوں کے سیزن میں ہی ملتا ہے۔ سکولے میں ایک مڈل سکول موجود ہے جہاں اب میٹرک تک کی کلاسیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس وقت 292 کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جہاں تھونگل، سرنگو، سینو ، تستے اور سکولے کے گاؤں کے طلبا اور طالبات آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آخری گاؤں میں یہ شام بہت سارے وسوسے اور وہم لیے ہوئے تھی مگر پھر بھی یہ ایک خوبصورت شام تھی۔ پھر یہیں شب بسری کا منصوبہ بن گیا۔ حسن کا نو تعمیر ہوٹل، جس میں ابھی بیڈز اور چارپائیاں نہ تھیں بلکہ فرش پر بستر سجا دیئے گئے تھے۔ گاؤں کے جو لوگ ہمارے اردگرد جمع ہوئے تھے، وہ ایک ایک کر کے چلتے بنے۔ غلام رسول بروکو موجود رہا۔ اس گاؤں میں بھی تعلیم یافتہ لوگوں کی موجودگی ایک حیرت کا دریا تھا جو میدانی علاقوں کی جہالت کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ حسن نے کھانے کا انتظام ایسے ہی کیا جیسے ذیشان نے ترشنگ میں کیا تھا، وہی ترشنگ جہاں مانگا پربت ہمارے سامنے تھا اور سکولے میں کے ٹو کی بلند چوٹی سامنے نہ تھی بلکہ اوجھل تھی۔ سکولے میں رات کا پہلا حصہ گپ شپ اور گفتگو میں گزر گیا۔ بہت سے میزبان ہمارے اطراف میں کھڑے مہمان نوازی نبھاتے رہے، میں کچھ دوستوں کے ساتھ سکولے چوک تک چلا آیا۔ برالڈو کا پانی اپنی روانی میں بہتا جاتا تھا اور فلک پر جو ستارے تھے وہ ہمارے قریب آ چکے تھے۔ آخری گاؤں میں شائد یہ آخری رات تھی اور یہاں بھی محبت کے غبارے میں بھری قربت کی ہوا نیند سے بہت دور لے گئی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ا خری گاو ں گاو ں میں تھا اور

پڑھیں:

امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں

امریکی کانگریس کا ایک تین رکنی وفد آج کل پاکستان کے دورہ پر ہے۔اس دورہ کے حوالے سے پہلے تحریک انصاف میں بہت جوش و خروش تھا۔یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے دوست ہی ان کانگریس مین کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جا رہا تھا کہ ان کانگریس مینز کا وفد پاکستان پہنچ ہی تحریک انصاف کی مدد کے لیے رہا ہے۔

ہمیں تو یہی بتایا جا رہا تھا کہ اس وفد کو ایسے ہی سمجھیں جیسے ٹرمپ خود آرہے ہیں۔ یہ وفد پاکستان کی سیاست میں ایک طوفان لے آئے گا اور اسٹبلشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کر دے گا۔ پہلے تو یہ تاثر تھا کہ کانگریس کا یہ وفد پاکستان پہنچتے ہی سب سے پہلے اڈیالہ میں قید بانی تحریک انصاف کو ملنے پہنچ جائے گا بعد میں تحریک انصاف کی قیادت سے ملے گا۔ پھر بانی تحریک انصا ف کی بہنوں سے ملے گا۔ پھر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ سے ملے گا۔ وہ پاکستان کے بارے میں جو بتائیں گے اس کے بعد اس پر پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی باز پرس کرے گا۔ اس لیے تحریک انصاف امریکا نے کانگریس کے اس وفد کے دورہ کی اہمیت پر زور دیا تھا اور اس سے بہت سے امیدیں بھی باندھ لی تھیں۔

لیکن کھیل تو بدل گیا۔ بقول تحریک انصاف کے جس وفد کو انھوں نے پاکستان بھجوایا تھا وہ تو اڈیالہ نہیں گیا ہے اور اس نے اڈیالہ جانے کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا ہے۔ یہ وفد تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو مل رہا ہے، وفاقی وزیر احسن اقبال کو مل رہا ہے، حکومتی نمایندوں کو مل رہا ہے۔

سب سے زیادہ تو اس نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کر لی ہے۔ ابھی یہ وفد پاکستان میں ہے اس کی مزید ملاقاتیں ہونی ہیں۔ لیکن ابھی تک دورے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ تو پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ وفد پاکستان اور امریکا کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے دورے پر ہے۔ حالانکہ تاثر تو یہ بنایا گیا تھا کہ یہ تحریک انصاف کے ایجنڈے پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔

ابھی کی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے امریکا میں مقیم دوست سوشل میڈیا پر ان کانگریس مینز سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ آپ اڈیالہ جائیں، آپ علیمہ خان سے ملیں۔ لیکن تادم گفتگو مجھے ایسی کسی ملاقات کا کوئی علم نہیں اور نہ تحریک انصاف پاکستان ہی ایسی کسی ملاقات کی تصدیق کر رہی ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر اپیلوں کا ایک چکر چل رہا ہے۔

بیرسٹر شہزاد اکبر نے لندن بیٹھ کر تحریک انصاف امریکا کے دوستوں کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اور ان کا موقف ہے کہ کھیر بے شک تحریک انصاف امریکا نے پکائی تھی لیکن کھا اسٹبلشمنٹ گئی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ تحریک انصاف امریکا کے دوستوں میں ایسے غدار ہیں جنھوں نے اس وفد کی آرمی چیف سے ملاقات کی راہ ہموار کی ہے اور ان کے مطابق یہ تحریک انصاف کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ ان کے مطابق اب کھیل ہاتھ سے نکل بھی رہا ہے اور جدوجہد لمبی بھی ہو گئی ہے اب جلدی کچھ ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ایک بات اور سمجھیں کانگریس مینز کا یہ وفد کوئی امریکی حکومت کا وفدنہ ٹرمپ کے نمایندے ہیں، یہ کوئی امریکی انتظامیہ کے نمایندے نہیں۔ ان کا امریکی حکومت میں کوئی کردار نہیں۔ یہ کانگریس مین اپنے طور پر پاکستان کے دورے پر ہیں اور ان کے دورے کا امریکی پالیسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ یہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کا یہی پراپیگنڈا تھا کہ اس وقت ایک امریکی کانگریس مین نے پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے نام سے ایک بل جو تجویز کیا ہوا ہے۔ یہ کانگریس مینز اس بل کی کامیابی میں کردار ادا کریں گے اورکانگریس مینز کے اس وفد سے اس بل کی راہ ہموار ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا ہے، یہ سب پراپیگنڈا ثابت ہوا ہے۔  یہ دورہ ابھی تک سفارتی پروٹوکول کے مطابق ہی چل رہا ہے ا ور اس میں سفارتی آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے مجھے تو اس دورے کے نتائج پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے حق میں نظر آرہے ہیں۔

جب سے ٹرمپ کی حکو مت آئی ہے اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔پہلے ٹرمپ نے اپنے صدارتی خطاب میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ جب کہ ماحول تو یہ بنایا گیا تھا کہ ٹرمپ تب تک پاکستان میں کسی سے بات نہیں کریں گے جب تک بانی تحریک انصاف اقتدار میں نہ آجائیں گے۔

ماحول تو یہ تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو تحریک انصاف بھی آجائے گی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔ پہلے صدارتی خطاب میں شکریہ، پھر منرلز کانفرنس میں اعلیٰ سطح کے وفد کی آمد، ٹرمپ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ۔اب اس وفد کی آرمی چیف سے ملاقات سب اشارے تو اس حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے حق میں جا رہے ہیں۔ رچرڈ گرنیل بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ اب صرف جو ولسن رہ گئے ہیں۔ جو کانگریس کے اس وفد میں شامل نہیں ہیں۔

اوور سیز کنونشن کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی پوری دنیا کو پیغام ہے کہ اوور سیز پاکستانی بھی اس حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ کنونشن بھی اس ساری پراپیگنڈے کو ختم کرے گا۔ جس میں یہ تاثر پیدا کیاجا رہا تھا کہ اوورسیز تو سارے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب تو ایک بڑی اکثریت حکومت کی حامی بھی سامنے آئی ہے۔

اس کا بھی بیرونی دنیا پر اثر ہوگا اور پاکستان کی حکومت کے مخالف کام کرنے والی لابی کو نقصان پہنچے گا۔ آرمی چیف کی کانگریس مینز سے ملاقات پر تحریک انصاف کے اندر ایک صدمہ کی کیفیت ہے۔ان کا دکھ شدید ہے، وہ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔ اس کا ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں، اسے اپنی بڑی ناکامی تصور کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دوست بھول گئے تھے کہ تعلقات حکومتوں کے ہوتے ہیں، تعلقات ممالک کے ہوتے ہیں، تعلقات ریاست کے ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں، اداروں کے اداروں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔ یہی نظر آرہا ہے۔ باقی سب شور تھا۔ اور کچھ بھی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اوورسیزپاکستانیز کنونشن کا آخری دن،وزیر اعظم اور آرمی چیف کا اہم خطاب پر اختتام
  • حضورؐ آخری نبیؐ، شک کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج: طاہر القادری 
  • امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں
  •  ریاست بہاول پور (آخری قسط)
  • عازمین کیلئے اچھی خبر، 2025ء کا حج شدید گرمیوں کا آخری حج ہو گا
  • چین کا امریکا کو کھلا چیلنج: دنیا امریکا پر ختم نہیں ہوتی، ہم آخری دم تک لڑیں گے
  • ربیکا خان کی سسرال سے آخری عیدی، شادی کب ہوگی؟
  • پاکستان میں آج پنک مون کا نظارہ کیا جا سکے گا
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
  • دل پھر دل ہے، غم پھر غم ہے