Nai Baat:
2025-02-20@20:46:45 GMT

پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے

جولائی کے پہلے ہفتے گلابی رنگ جو ہر سو پھیلا تھا یہ فصل گندم کی تھی۔ بلندی پر اگنے والی اس فصل کو مقامی زبان میں گیاوس اور انگریزی میں بک وہیٹ کہتے ہیں جس کی روٹی قدرے سیاہی مائل ہوتی ہے۔ کہیں راستے میں تھریشر بھی چل رہے تھے اور کہیں ابھی یہ فصل کچی تھی۔ تھنگل کے بعد کچھ زیادہ سفر نہیں تھا مگر سفر تھا بہت زیادہ۔ ایک بات طے تھی کہ ہم سکولے کے قریب تھے، یعنی تہذیب کے آخری کنارے پر تھے۔ معروف مصنف اے گوگنا نے لکھا تھا ’’سکولے نام ہے چھوٹے چھوٹے نخلستانوں کا جو صحرا سے حاصل کیے گئے ہیں، وہاں یہ آخری گاؤں ہے اور آپ ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ دنیا کے آخری سرے پر پہنچ گئے ہیں‘‘۔ شام کے سرمئی سائے پھیل رہے تھے جب ہم سکولے میں داخل ہوئے۔ آخری چڑھائی کے بعد بائیں جانب آبادی کا آغاز ہوا تو آخری گاؤں کی پہلی صورت نظر آئی۔ یاک کے دودھ سے بنی مورت نظر آئی، برالدو کنارے اگی ہوئی فطرت ہمارے سامنے تھی۔ سنو لیک میں پڑھا تھا ’’ہماری ریاست نگر سے دس روز کی برف ہی برف مسافت پر ایک گاؤں ہے، جس کے باسی اتنے بھولے ہیں اور امن والے ہیں کہ اپنا شہد، پنیر، مارخور کی کھالیں، مکھن اور جو کے توڑے جنگ کیے بغیر ہم نگر والوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘‘۔ پڑھی ہوئی بات درست نکلی، بس یہی بات تھی جسے جیسے پڑھا تھا وہ ویسے ہی درست نکلی، ورنہ جو کچھ پڑھا گیا، وہ کبھی درست ثابت نہ ہوا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے راشد نے سکولے کے آخری سرے پر لگے بورڈ بھی پڑھ لیے اور ہم جیپ سے اترنے لگے۔ سکولے میں جتنے بھی لوگ تھے، بچے تھے، جوان تھے، وہ سبھی جیپ کو یوں دیکھتے تھے جیسے انسانوں کو دیکھے ہوئے مدت گزر گئی ہو۔ جیسے وہ لوگ آدم زاد کو دیکھے بغیر کئی موسم گزار چکے ہوں۔ سکولے گاؤں میں نو تعمیر شدہ گیسٹ ہاؤس کے سامنے ہمیں بٹھایا گیا۔ وہیں پر غلام رسول بروکو سے ملاقات ہوئی۔ غلام رسول ادب کا طالب علم تھا اور سکولے میں ایک لائبریری بنانا چاہتا تھا۔ سکردو سے شگر، داسو اور اب سکولے کا پُر پیچ سفر، مگر یہاں پر تھکن دم توڑ گئی تھی۔ جس طرح ہمارا استقبال کیا گیا، اس انداز نے تھکن اتار دی تھی۔ سال ہا سال سے کی گئی کوہ نوردی سکولے میں ہونے والے استقبال سے مات کھا گئی تھی۔ ہمیں ہر ہل سٹیشن سے با وقار انداز میں رخصت تو کیا جاتا تھا مگر ایسا استقبال کہیں نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کا سفر ہم آسانی سے کر چکے تھے تو پھر برالدو کے اس پار ’’تستے اور‘‘ کورفے کے گاؤں کو دیکھے بغیر کیسے جا سکتے تھے۔ کورفے کا گاؤں ایک امریکی کوہ پیما کے عطیہ سے بنائے گئے سکول کی وجہ سے مشہور تھا۔ 1993 میں کے ٹو مہم سے ناکام ہونے والے مسٹر گرگ مورٹنسن گرتا ہوا برالدو کے بائیں کنارے پہنچ گیا، جہاں پر بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ کاغذ، قلم نہیں تھا اور وہ لکڑی کے ذرا موٹے تنکوں سے زمین پر لکھتے تھے۔ کورفے کے لوگوں نے اس نیم جان کوہ پیما کی زندگی بچانے میں مدد دی تھی۔ اس لیے وہاں سکول بنا کر ان کے احسان برابر کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں کہا گیا کہ یہ سکول امریکیوں سے چندہ لے کر بنوائے گئے اور مورٹنسن نے فنڈز اپنی ذات پر بھی خرچ کیے مگر یہ سب باتیں منفی ہیں۔ سکولے سطح سمندر سے 3052 میٹر بلندی پر ہے اور یہاں پر فروٹ کے درخت موجود نہیں، صرف بید اور سفیدہ آسمانوں کو چھوتا ہے۔ یک فصلی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت کے علاوہ زیادہ تر سیاحوں کی باربرداری پر ہے اور یہ کام بھی صرف گرمیوں کے سیزن میں ہی ملتا ہے۔ سکولے میں ایک مڈل سکول موجود ہے جہاں اب میٹرک تک کی کلاسیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس وقت 292 کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جہاں تھونگل، سرنگو، سینو ، تستے اور سکولے کے گاؤں کے طلبا اور طالبات آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آخری گاؤں میں یہ شام بہت سارے وسوسے اور وہم لیے ہوئے تھی مگر پھر بھی یہ ایک خوبصورت شام تھی۔ پھر یہیں شب بسری کا منصوبہ بن گیا۔ حسن کا نو تعمیر ہوٹل، جس میں ابھی بیڈز اور چارپائیاں نہ تھیں بلکہ فرش پر بستر سجا دیئے گئے تھے۔ گاؤں کے جو لوگ ہمارے اردگرد جمع ہوئے تھے، وہ ایک ایک کر کے چلتے بنے۔ غلام رسول بروکو موجود رہا۔ اس گاؤں میں بھی تعلیم یافتہ لوگوں کی موجودگی ایک حیرت کا دریا تھا جو میدانی علاقوں کی جہالت کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ حسن نے کھانے کا انتظام ایسے ہی کیا جیسے ذیشان نے ترشنگ میں کیا تھا، وہی ترشنگ جہاں مانگا پربت ہمارے سامنے تھا اور سکولے میں کے ٹو کی بلند چوٹی سامنے نہ تھی بلکہ اوجھل تھی۔ سکولے میں رات کا پہلا حصہ گپ شپ اور گفتگو میں گزر گیا۔ بہت سے میزبان ہمارے اطراف میں کھڑے مہمان نوازی نبھاتے رہے، میں کچھ دوستوں کے ساتھ سکولے چوک تک چلا آیا۔ برالڈو کا پانی اپنی روانی میں بہتا جاتا تھا اور فلک پر جو ستارے تھے وہ ہمارے قریب آ چکے تھے۔ آخری گاؤں میں شائد یہ آخری رات تھی اور یہاں بھی محبت کے غبارے میں بھری قربت کی ہوا نیند سے بہت دور لے گئی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ا خری گاو ں گاو ں میں تھا اور

پڑھیں:

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی: پاکستان کے لیے کرکٹ سے بڑھ کر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے نویں ایڈیشن کا افتتاحی میچ بدھ انیس فروری کو سابق فاتح میزبان پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان کراچی کے نیشنل بینک اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کو آٹھ سال بعد بحال کیا جا رہا ہے۔ اس میں دنیا کی آٹھ ٹیمیں پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں میدانوں پر اتریں گی۔

بھارت اپنی مہم کا آغاز 20 فروری کو دبئی میں بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے کرے گا۔

جنوبی ایشیا کے دونوں سیاسی حریفوں بھارت اور پاکستان نے آئی سی سی ٹورنامنٹس کے لئے ایک دوسرے کے ملک کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے بھارت اپنے تمام میچ غیر جانبدار مقام پر، دبئی میں، کھیلے گا۔

چیمپیئنز ٹرافی: بھارتی ٹیم کا جرسی پر 'پاکستان' لکھنے سے انکار

تقریباً 30 سالوں میں اپنے پہلے بڑے کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنا پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج اور سنگ میل بھی ہے، جسے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اس کی اجازت نہیں مل پارہی تھی۔

(جاری ہے)

چیمپیئنز ٹرافی کا کامیاب انعقاد پاکستان کے لیے اس کی تنظیمی صلاحیتوں اور حفاظتی انتظامات کو ثابت کرنے کا ایک اہم موقع بھی فراہم کرے گا۔

چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی شرکت، پاکستان کو آئی سی سی سے منصفانہ فیصلے کی امید

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نےفرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، "دنیا کو یہ باور کرانا کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے اور یہ انتظامی نقطہ نظر سے اس طرح کے عالمی ایونٹ کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، سخت محنت اور قائل کرنے کی ضرورت ہے۔

"

رمی‍ز راجہ، جن کے دور میں پاکستان کو اس مقابلے کی میزبانی دی گئی تھی نے کہا، "دنیا نے بالآخر ہمارے نقطہ نظر کو سمجھ لیا۔"

ایونٹ کے انعقاد میں پاکستان کو درپیش چیلنجز

اس اہم سنگ میل کے باوجود، اس کے انعقاد کی تیاریوں میں پاکستان کو کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص سیاسی تناؤ کے باعث دیرینہ حریف اور پڑوسی بھارت کی طرف سے پاکستان میں نہیں کھیلنے کے فیصلے کی وجہ سے پریشانی پیش آئی۔

کرکٹ میں اہم مقام رکھنے والا بھارت اب پاکستان کے بجائے دبئی میں اپنے میچ کھیلے گا لیکن بقیہ سات ممالک پاکستان میں کھیلیں گے۔

پاکستان چمپیئنز ٹرافی پر بھارتی خدشات دور کرنے کے لیے تیار

پاکستان کو 2008 میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی تھی، جو کرکٹ ورلڈ کپ کے بعد سب سے بڑا ایک روزہ مقابلہ ہے۔

پاکستان نے اس ٹورنامنٹ کے مدنظر ملک بھر میں اور خاص طور پر میزبان شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں، سکیورٹی بڑھا دی ہے۔

آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے حالیہ دورہ پاکستان نے ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے پاکستان کے معاملے کو مضبوط کیا ہے۔

رمیز راجہ نے ایونٹ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، "یہ چیمپئنز ٹرافی عالمی کرکٹ کمیونٹی میں پاکستان کے موقف کو معمول پر لانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یہ قومی فخر کا اظہار ہے اور لچک اور عزم کے حوالے سے ایک مضبوط پیغام بھیجے گا ۔

یہ نوجوانوں کی مصروفیت، ثقافتی فروغ اور عالمی امیج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اب یہ ذمہ داری ہم پر ہے کہ ہم اسے کس طرح کامیاب بناتے ہیں۔" عوام میں زبردست جوش

ستتر سالہ تاجر حاجی عبدالرزاق کے لیے چمپیئنز ٹرافی کی پاکستان واپسی ایک عالمی تقریب اور ان کی سالگرہ کی طرح ہے۔

پاکستان نے آخری بار 1996 میں بھارت اور سری لنکا کے ساتھ شریک میزبان کے طور پر کسی بڑے بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تھا۔

حاجی عبدالرزاق نے 17 مارچ 1996 کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں سری لنکا کا قومی پرچم بلند کیا تھا جب اس نے آسٹریلیا کو شکست دے کر خطاب اپنے نام کیا تھا۔

انتیس سال بعد کرکٹ کے دیوانے پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان بدھ کو کراچی میں چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں شرکت کریں گے۔

عبدالرزاق نے اے ایف پی کو بتایا، "یہ میرے ذہن میں تازہ ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "دہشت گردی نے ہم سے سب کچھ چھین لیا۔ میں اپنے ملک میں ایک عالمی تقریب کو واپس آتے دیکھ کر بہت خوش ہوں اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ میری سالگرہ ہو گی۔"

ج ا ⁄ ص ز ( اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی خارجہ پالیسی کو ’’ست‘‘ سلام
  • الحمرا میں نئے عہد کی جدوجہد!
  • ملک پر اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایم ایف کا راج ہے‘لیاقت بلوچ
  • پاک ترکیہ باہمی تجارت
  • پاکستان کانیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کرفیلڈنگ کافیصلہ
  • بلوچستان: سینیٹ انتخاب، کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا آج آخری روز
  • دہشت گردی اور ضلع کرم
  • پاکستان چلا چاند پر، مشن کو نام دیں اور انعام لیں
  • آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی: پاکستان کے لیے کرکٹ سے بڑھ کر