جنگ نہیں مذاکرات، ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں، مولانافضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
بلوچستان کے چھ سات اضلاع آزادی کا اعلان کردیں تو اقوام متحدہ درخواست منظور کرلے گی،کے پی کے اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں پولیس تو چیک پوسٹیں خالی کرچکی تھی اب فوج بھی خالی کرچکی ہے
اسٹیبلشمنٹ فیصلے کرتی ہے حکومت کو بندکمروں میں کئے گئے فیصلوں پر انگوٹھا لگاتا پڑتا ہے ،وزیر اعظم یہاں تو یہ کہتے کہ میرے علم میں نہیں ہے ، وزیراعظم کو افغانستان جانے والے جرگوں کا علم تک نہیں ہے، سربراہ جے یو آئی
جمعیت علما ئے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں اور وزیراعظم کو افغانستان جانے والے جرگوں کا علم تک نہیں ہے، ملک سیاست دانوں کے حوالے کر کے انہیں بات کرنے دی جائے ۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا کہ حکومت تسلیم کرے کہ دوصوبوں میں اس کی رٹ نہیں ہے ، وزیر اعظم یہاں تو یہی کہتے کہ میرے علم میں نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان جانے والے جرگوں کا وزیر اعظم کو پتہ نہیں ہونا، اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی موجود نہیں اور نظریاتی سیاست بھی نہیں ہے ۔فضل الرحمان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ فیصلے کرتی ہے حکومت کو بندکمروں میں کئے گئے فیصلوں پر انگوٹھا لگاتا پڑتا ہے ، کے پی کے اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں پولیس تو چیک پوسٹیں خالی کرچکی تھی اب فوج بھی خالی کرچکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے چھ سات اضلاع ایسے ہیں جو آزادی کا اعلان کردیں تو اقوام متحدہ اس کی درخواست منظور کرلے گی۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صوبائی اسمبلیاں عوام کی نمائندہ نہیں ہیں، کوئی نمائندہ، وزیر عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، ان انتخابات کے نتیجے میں آنے والی پارلیمان کو جائز تسلیم نہیں کرتا،نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارا کوئی بازو ٹوٹ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم غصہ افغانستان پر نکال لیتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں دیکھتے ، کلنٹن آیا تو مشرف کے ساتھ تصویر سے انکار کردیا، ہم نے امریکیوں کو ہوائی اڈے دیے ، افغانستان کے لوگوں پر کیا مظالم نہیں ہوئے ، ہم نے ان ہی کو پاکستان کے حمایتی سمجھا۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ انتخابات سے پہلے وفد لیکر افغانستان گیا، ایجنڈے کے ایک ایک نکتے پر قائل کیا، کس نے اس پراسس کو روک دیا، میں نے وزارت خارجہ سے بریفنگ لی اور پھر افغانستان جاکر طالبات سے بات کی جو بہت مثبت رہی تھی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بتایا جائے کس نے افغانستان سے ہونے والی مثبت گفتگو سبوتاژ کی؟فضل الرحمان نے کہا کہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے اور پالیسیاں سیاستدانوں کے حوالے کی جائیں، جنگ کے راستے بند کئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے مستقبل کے فیصلے سلامتی کونسل و اقوام متحدہ میں ہوتے ہیں، ان کے فیصلے موثر ہمارے فیصلے غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ آج ہماری معیشت عالمی اداروں کے حوالے کردی گئی ہے ، آئے روز آئی ایم ایف وفد آرہے ہیں۔ آج تو آئی ایم ایف چیف جسٹس سے ملاقاتیں کرتا ہے ۔ آج سپریم کورٹ بار سے آئی ایم ایف مل رہا ہے ، آئی ایم ایف کا عدلیہ سے کیا تعلق ہے ؟فضل الرحمان نے کہا کہ ایک سیاستدان کو لانے اور دوسرے کو نکالنے پر قوت صرف کی جاتی ہے ، دفاعی معاملات میں ایٹم بم و میزائل میرا ہے مگر بین الاقوامی ادارے مجھ سے دستخط کرائے جاتے ہیں، میزائل و جہاز میرا ہوگا، اسے چلانے کا اختیار عالمی اداروں کا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان اداروں کے بغیر اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتے ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چھبیسیویں ترمیم کے وقت مدراس بارے بل منظور ہوا مگر پھر صدر نے کہا کہ مدارس بل عالمی اداروں کو تحفظات پیدا کرے گا ، بمشکل مرکز سے مدارس بل منظور ہوا اب صوبوں میں لٹکا دیا ہے ۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ادھر ٹرمپ آیا ہے ، آج فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں بسانے کی بات کی جارہی ہے ، ٹرمپ ہوتا کون ہے ایسی بات کرنے والا؟ جس نتین یاہو کو سرعام پھانسی لگنی چاہیے اُسے امریکا کی سرپرستی حاصل ہے ۔فضل الرحمان کا کہنا تھا کہا چال سال سے سرحدوں پر کیا کچھ نہیں ہورہا، افغانستان میں چین رسائی کررہا ہے ۔ٹرمپ غزہ پر قبضہ کرسکتا ہے تو کل وہ وزیرستان پر بھی قبضے کا سوچ سکتا ہے ، امریکہ کل وزیرستان سے معدنیات نکال کر لے جاسکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ انضمام کے وژن کا قبائل میں بھانڈہ پھوٹ چکا ہے ۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ یہ ایوان اجتماعی دانش سے اہم فیصلے کرسکتا ہے ، کیا وجہ ہے ہم ایک بھی فیصلے کے لئے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں، ہماری جماعت نوے لاشیں باجوڑ سے اٹھا چکی ہے ۔ سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ قبائل امن کی بھیک مانگ رہے ہیں، قبائل کی خواتین گلی کوچوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک ان سیاستدانوں کے حوالے کرو، سویلین قیادت پر اعتماد کرو، اگر سیاستدانوں کوآپس میں بات نہیں کرنے دیں گے تو ملک کیسے چلے گا۔
ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت کا افغانستان سے براہ راست مذاکرات کا فیصلہ
اسلام ٹائمز: یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ دہشتگردی کے مسئلہ پر اسوقت وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین سیاسی کشمکش کیوجہ سے ہم آہنگی نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسوقت خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا مسئلہ یقینی طور پر سرحد پار سے منسلک ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں دہشتگرد حملے بڑھنے کیوجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی مسلسل مالی اور لاجسٹک مدد حاصل ہے۔ رپورٹ: سید عدیل زیدی
خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان میں امن، افغانستان میں امن کے ساتھ مشروط ہے، لہذا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے ساتھ حکومتی سطح پر براہ راست مذاکرات کیے جائیں۔ اس حوالے سے گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اکابرین کا ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد ہوا، جس میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور متحدہ علماء بورڈ کے رہنماء بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے شرکاء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ پاکستان میں امن، افغانستان میں امن کے ساتھ مشروط ہے، لہذا دہشتگردی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے ساتھ حکومتی سطح پر مذاکرات جلد شروع کیے جائیں، شرکاء نے اتفاق کیا کہ قیام امن سب سے اہم ہے، قومی مفاد کی وقت کی اہم ضرورت ہے، ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سیاسی اور مذہبی جماعتیں ملکر کام کریں گی۔ ضلع کرم کا مسئلہ اگرچہ علاقائی ہے، لیکن یہ ایک قومی مسئلہ بن سکتا ہے، کرم کے مسئلہ کے پائیدار حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر سیاسی و مذہبی رہنماوں نے کہا کہ آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سدباب کیا جائے، ملک میں امن، خوشحالی اور معاشی ترقی کے لیے قومی مفاہمت اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ اس ایجنڈے پر تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کیا جائے، اس مقصد کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے، جو تمام سیاسی جماعتوں سے روابط قائم کرے، اہم قومی امور پر مشاورتی اجلاس کے انعقاد پر وزیراعلیٰ اور مشیر اطلاعات کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ شرکاء نے کہا کہ مشاورتی اجلاس ملک میں پائیدار امن، دہشتگردی کے خاتمے اور قومی مفاہمت کے فروغ کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرے گا، اس قسم کی سرگرمیاں پورے ملک میں اضلاع کی سطح پر منعقد کرنے کی ضرورت ہے، ملی یک جہتی کونسل اس کاوش میں صوبائی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی، دہشت گردی کے خلاف اور امن کے قیام کے لیے علماء کرام جمعہ کے خطبات میں عوام کی رہنمائی کریں گے۔
شرکاء نے متفقہ فیصلہ کیا کہ پورے ملک میں امن کے پیغام کو لے کر آگے بڑھیں گے، ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ اور امن و امان کے ماحول کو فروغ دینا ہم سب کا مقصد ہے، دہشتگردی کے خلاف قوم متحد ہے، ملکر قوم کو اس ناسور سے نجات دلائیں گے۔ شرکاء نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے معاملے پر قومی سطح پر سیاسی قیادت کا گرینڈ اجلاس منعقد کیا جائے، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جرگہ تشکیل دیا جائے، جو با اثر سیاسی اور مذہبی شخصیات پر مشتمل ہو۔ اس اہم اجلاس کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے افغان حکومت کیساتھ براہ راست مذاکرات اور افغانستان کے دورے کے حوالے سے ٹی او آرز تیار کرلیے۔ مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے افغان عبوری حکومت سے بات چیت کے لیے وفد افغانستان بھیجنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے دورے کے لیے ٹی او آرز تیار کر لیے گئے ہیں، جن کے مطابق افغان طالبان سے بات چیت کیلئے دو وفد افغانستان جائیں گے، پہلا وفد مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بنائے گا اور سفارتی امور نمٹائے گا جبکہ دوسرا وفد کئی اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہوگا۔
بیرسٹر سیف کو اس حوالے سے رابطہ کاری کیلئے فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے، خیبر پختونخوا حکومت مذاکرات کیلئے وفاقی حکومت سے رابطے میں رہے گی۔ ٹی او آرز کے مطابق وفد بھیجنے کا مقصد کراس بارڈر ٹرائبل ڈپلومیسی مضبوط کرنے کے علاوہ اقتصادی اور معاشرتی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سیاسی و مذہبی قیادت کا یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ دہشتگردی کے مسئلہ پر اس وقت وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین سیاسی کشمکش کیوجہ سے ہم آہنگی نہیں ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کا مسئلہ یقینی طور پر سرحد پار سے منسلک ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں دہشتگرد حملے بڑھنے کی وجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی مسلسل مالی اور لاجسٹک مدد حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، ء2024 کے دوران اُس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے۔
یو این او کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ 43 ہزار ڈالر فراہم کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے نئے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے داعش اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک سے گٹھ جوڑ اور اسے افغانستان سے ملنے والی مدد کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں، لیکن اس کے باوجود افغان سرحد سے ٹی ٹی پی کے دہشتگرد مسلسل پاکستان میں حملے کر رہے ہیں اور پاکستان میں دہشتگردی میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی افغان حکومت کو پیش کر چکا ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں افغان حکومت کیساتھ اس مسئلہ پر رابطہ اور مذاکرات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔