اناج منڈی کے تاجر سے لوٹ مار،مزاحمت پر گولی مار دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)انجمن تاجران سندھ حیدرآباد کے صدر صلاح الدین غوری جنرل سیکرٹری امجد آرائیں و دیگر عہدیداران نے اناج منڈی کے تاجر فاروق سبحانی کے منشی انیس قریشی سے قاسم آباد میں ریکوری کے دوران نسیم نگر تھانے کی حدود میں 8 لاکھ بیس ہزار روپے کی رقم،دو عدد موبائل فون اور پرس چھین لینے کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں، دوران واردات مزاحمت کرنے پر ڈاکوؤں نے انیس قریشی کے پاؤں پر گولی مار کر فرار ہوگئے ،انیس قریشی سول اسپتال میں زیر علاج ہے، ہم انجمن تاجران سندھ حیدآباد کے پلٹ فارم سے ایس ایس پی حیدرآباد اور نسیم نگر کے ایس ایچ او سے مطالبہ کرتے ہیں تاجروں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور واردات میں ملوث عناصر ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے اور چھنیی گئی رقم کو فوری طور ریکوری کرائی جائے۔ انجمن تاجران سندھ حیدرآباد اناج منڈی کی یونین سے مشاورت کے بعد جلد لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جب میں ہکا بکا رہ گیا
محمد طفیل
ان دنوں ہمارے علاقے میں بہت زیادہ برساتیں ہوئی تھیں۔ نشیبی علاقے زیر آب آگئے، لوگ بے گھر ہوگئے، فصلیں تباہ ہوگئیں، اس صورت حال کی خبریں نظم بالا تک پہنچیں، ان دنوں ڈویژنل نظم تھا۔ اچانک میرے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں عبدالوحید قریشی، عبدالغفار عمر کے ساتھ باہر کھڑے ہیں۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بے ساختہ بغلگیر ہوئے۔ درویش عبدالوحید قریشی کی زبان سے نکلا آج تو انقلاب آگیا۔ واقعی انقلاب آگیا تھا حسب توفیق خاطر مدارت کی اپنے گھر کی کھڑکی سے برسات کے پانی کا نظارا کرایا۔ سمندر تھا، ساری صورت حال کا جائزہ لیا۔ رفقا سے ملاقاتیں کیں مزید تباہی و بربادی کا اندازہ ہوا۔ چند روز بعد 20 ہزار روپے امداد موصول ہوئی کہ جن زمینداروں کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں ان کی مدد کی جائے۔ طے ہوا متاثرین کو کھاد لے کر دی جائے، ان دنوں دو اڑھائی سو روپے کھاد کی بوری تھی۔ اس طرح ہر متاثر کو دو بوری کھاد دینے کا طے ہوا۔ اس طرح 40 لوگوں کو کھاد دینے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں امیر ضلع عبدالستار غوری مرحوم و مغفور بھی شریک ہوئے اور عبدالوحید قریشی صاحب بھی۔
عبدالوحید قریشی صاحب ایک خدامست درویش صفت مجسم مخدوم تھے۔ میں نے سب سے پہلے انہیں ریاض العلوم میں سہ روزہ تربیتی گاہ میں دیکھا۔ جب وہ اپنے سینے پر ایک بڑا سا بیج لگائے ہوئے تھے جس پر لکھا تھا ناظم آب رسائی اس کے بعد ان سے انفرادی اور اجتماعی بے شمار ملاقاتیں رہیں۔ وہ بہت ہی خلیق و شفیق انسان تھے۔ میرے ذاتی معاملات میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ ایک بار کیا ہوا میری بہو کی ڈاڑھ میں تکلیف ہوگئی منہ سوج گیا۔ سانگھڑ اسپتال کے ڈاکٹروں نے حیدر آباد ریفر کردیا۔ اتفاق سے وہ دن ہفتے کا تھا ہم جب شام کو حیدر آباد لال بتی پہنچے تو وہاں کسی نے توجہ نہ دی، میں عبدالوحید قریشی صاحب کے پاس دفتر پہنچ گیا انہیں اپنی بپتا سنائی انہوں نے فوراً چند ایک فون کیے۔ میں جب اسپتال پہنچا تو دیکھا میرے مریض کے اردگرد کئی ڈاکٹر کھڑے ہیں کوئی کچھ کہہ رہا تھا کوئی کچھ غرض مریض کو فرسٹ ایڈ دی گئی اور رات کو قیام کے لیے کمرہ بھی۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ان سے منسوب ہیں اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ عبدالوحید قریشی صاحب وہ شخصیت تھے جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ جن سے مل کر روح کو راحت حاصل ہوتی تھی۔ وہ بغیر کسی کو تکلیف دیے آناً فاناً ربّ کے حضور حاضر ہوگئے۔ وہ ربّ سے راضی ربّ ان سے راضی (ان شاء اللہ) جاتے ہوئے وہ اپنی زبان حال سے کہہ گئے۔ حشر میں پھر ملیں گے میرے دوستو بس یہی ہے پیغام آخری آخری۔