بلدیاتی اداروں سے منسلک تحریکی افراد
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
عنوان تو پورا یہ تھا کہ بلدیاتی اداروں سے وابستہ افراد کے لیے کچھ تجاویز۔ میرا یہ مقام تو نہیں ہے کہ جو میں اپنے سے زیادہ شعور کی دولت سے مالامال لوگوں کوجو یقینا مجھ سے زیادہ با صلاحیت اور متحرک بھی ہیں ان کے سامنے اس حوالے سے کچھ تجاویز یا مشورے دوں۔ پہلے کچھ بچپن ایک بات شیئر کرتے ہیں۔ بچپن میں ہمارے گھروں میں ہر قسم کے پیڑ ہوتے تھے۔ امرود کا درخت بہت عرصے رہا کبھی کبھی کچھ سبزیوں کے پودے بھی رہے چنبیلی کے پھول کا تو بہت دنوں تک رہا اور یہ کم وبیش ہر گھر میں ہوتا تھا۔ پیڑ کا ذکر اس لیے کیا کہ پیڑ ہوتے تھے تو چڑیا بھی آجاتی تھیں صبح ان کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی۔ کچھ بچے درختوں سے چڑیا پکڑنے کی کوشش کرتے لیکن کامیاب نہیں ہوئے ہم نے تو خیر کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ چڑیوں کو پکڑنے کی ایک کھیل نما ترکیب لوگوں نے بتائی۔ پہلے زمانے میں پھل فروٹ لکڑی پیٹیوں کے علاوہ لکڑی کے مضبوط سرکنڈوں سے بنی ہوئی ایک ٹوکرے میں بھی آتے تھے۔ اس کو ہم لوگ جھوا کہتے تھے۔ اسی جھوے کو چڑیوں کو پکڑنے کے لیے اس طرح استعمال کرتے کہ دوپہر کے وقت کھلے آنگن میں اس کو ایک چھوٹی سی لکڑی سے ٹکا کر رکھتے اور اس کے اندر باجرہ اور ایک پیالی میں پانی رکھتے وہ لکڑی جس پر یہ ٹوکرا ٹکا رہتا اسے ایک موٹے دھاگے یا ستلی سے باندھ کر اس کا دوسرا لے کر دور کمرے میں چھپ کر بیٹھ جاتے اور دیکھتے رہتے کہ جب چڑیاں آئیں گی ہم دھاگا کھینچ لیں گے تو کچھ اندر پھنس جائیں گی ایسا ہی ہوا جب دیکھا کہ پانچ چھے چڑیاں آگئیں تو دھاگا کھینچ لیا ہم خوشی خوشی قریب گئے اور ٹوکرے پر چادر ڈال کر آہستہ سے اسے اٹھا کر ہاتھ اندر ڈالا دو ہاتھ میں آگئیں باقی اڑ گئیں بس اتنی ہی کامیابی کی خوشی ہوئی تھوڑی دیر اپنی فتح کا جشن مناتے پھر خود ہی ان دونوں کو بھی آزاد کردیتے۔
کئی برسوں قبل کی بات ہے سیرت کے ایک جلسے میں ایک بڑا دلگداز واقعہ عنایت اللہ گجراتی مرحوم نے سنایا تھا کہ ایک دفعہ محمد ؐ گھر واپس آئے تو رونے لگے آپ کی زوجہ محترمہ جن کا معمول یہ تھا کہ وہ روز جب نبی کریم ؐ گھر تشریف لاتے تو ان سر دھلاتی کہ مخالفین مٹی کوڑا وغیرہ پھینکتے تھے نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ؐ آپ رو کیوں رہے ہیں آپ ؐ نے فرمایا کہ آج ایسا دن گزرا ہے کہ کسی ایک فرد نے بھی میری بات نہیں سنی جس کے قریب جاتا وہ راستہ بدل لیتا جسے بلانے کی کوشش کرتا وہ سنی ان سنی کردیتا کسی نے میری بات نہیں سنی بس اسی لیے رو رہا ہوں۔ یہ مکے کا سخت دور تھا جس میں تیرہ سال کے عرصے میں گنتی کے چند لوگ ایمان لائے تھے۔ پھر جب اپنے ربّ کے حکم سے ہجرت کرکے مدینے گئے تو وہاں اہل ایمان کی تعداد بڑھنے لگی اس لیے کہ پہلے سے بھی کچھ اہل ایمان وہاں موجود تھے جو ایک وفد کی شکل میں مہینوں پہلے آپ کے پاس آئے تھے اور مدینے آنے کی دعوت دی تھی لیکن اس وقت تک اللہ کی طرف سے حکم نہیں آیا تھا۔ مدینے میںغزوات اور جنگیں ہوئیں اہل ایمان کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی تاآنکہ فتح مکہ ہوگیا اور جب آپ نے خطبہ حج الوداع دیا تو اس میں صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ کہاں وہ دور جب ایک آدمی بھی بات نہیں سنتا تھا اور کہاں لاکھوں کا مجمع۔
کلا س میں استاد طلبہ ہی میں سے کسی ایک طالب علم کو کلاس کا مانیٹر بناتا ہے جس کا کام ڈسپلن کو برقرار رکھنا، اسکول انتظامیہ کی طرف سے آنے والی ہدایات پر عمل کروانا جو مانیٹر یہ ذمے داری بحسن خوبی ادا کرتا ہے اسے شاباشی اور تعریفی اسناد دی جاتی ہیں اور جو اپنی ذمے داری ٹھیک سے ادا نہیں کرتا اسے بدل دیا جاتا۔ اسی طرح جب کوئی بادشاہ اپنے کسی علاقے کا نظم و نسق چلانے کے لیے اور اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے گورنر مقرر کرتا ہے جب تک وہ گورنر ٹھیک کا کررہا ہوتا ہے تو اسے بادشاہ کا قرب حاصل رہتا لیکن جب کوئی گورنر ٹھیک سے اپنی ذمے داری ادا نہیں کرتا ہے تو اسے معزول کردیا جاتا ہے اور دوسرے کسی قابل اعتماد فرد کو یہ ذمے داری دی جاتی ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے انعامات اور احسانات کی تفصیلات بتائی ہیں جس میں سب سے برا انعام یہ تھا کہ اے آل یعقوب یاد کرو ہماری ان نعمت کو کہ ہم نے تم کو دنیا کی قوموں پر فضیلت دی تھی اور تمہیں امام بنایا تھا لیکن بنی اسرائیل نے اپنی ذمے داری ٹھیک سے ادا نہیں کی پھر اسی سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کی نافرمانوں کی طویل فہرست دی گئی ہے اور یہ نافرمانیاں صدیوں پر محیط ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس منصب سے معزول کرکے امت مسلمہ کو اس منصب پر فائز کردیا۔ بیش تر مفسرین کی رائے کہ تحویل قبلہ وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو معزول کرکے امت مسلمہ کو یہ ذمے داری دی گئی۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں وہ نصب العین اور پروگرام بتادیا گیا کہ تمہیں اس لیے اس منصب پر مامور کیا گیا ہے کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دو اور اللہ پر ایمان لائو۔ پھر قرآن میں ایک جگہ یہ بھی آیا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہونے چاہئیں جو ذمے داری ادا کریں یعنی اگر پوری امت یہ بھول جائے یا غفلت کا شکار ہوجائے تو کچھ لوگ ایسے ہونے چاہییں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ کے پردہ کرجانے کے بعد دو تین صدیوں تک پوری امت یہ فرض ادا کررہی تھی ہر طرف جہاد کا غلغلہ تھا ہر گھر سے نوجوان جہاد کے لیے جاتے تھے پھر جیسے جیسے ملوکیت کے سائے گہرے ہوتے گئے امت مسلمہ اپنی اصل ذمے داریوں سے اعراض برتنے لگی۔ فل ٹائم جاب پارٹ ٹائم میں بدل گئی لیکن ہر دور میں ایسی شخصیات اور گروہ اٹھتے رہے ہیں جو مسلمانوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتے رہے۔ ابن تیمیہ سے لے کر شاہ ولی اللہ تک ایک طویل فہرست ہے۔
جماعت اسلامی اسی مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے تشکیل دی گئی جو ایک طرف تو یہ فریضہ انجام دے رہی ہے کہ امت مسلمہ کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے دوسری طرف پوری عالم انسانیت میں اسلام کے انقلابی پیغام کا ابلاغ ہو۔ دنیا کے ہر ملک میں یہ تحریکی اور نظریاتی جماعت کسی نہ کسی شکل اور نام سے کام کررہی ہے کچھ ممالک میں جماعت اسلامی کے نام سے وہاں کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے متحرک ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی درجہ بدرجہ آگے بڑھ رہی ہے۔ انفرادی دعوت، تنظیم و تربیت، اصلاح معاشرہ اور اصلاح قیادت چاروں شعبوں بیک وقت کام کررہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ایک کارکن تھیلے میں دینی کتب رکھ کر اپنے متفقین، معاونین اور متعین افراد سے ملاقاتیںکرتا تھا، رابطہ عوام اور درس قران کے ذریعے عوام کو قریب لاتے تھے۔ انفرادی دعوت کا کام اب بھی ہوتا ہے لیکن اس کی رفتار مدھم ہوگئی کچھ نئے ٹولز آگئے ہیں۔ جس طرح مدینے میں جنگوں اور غزوات کی فتوحات کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی رہی کہ اگر غزوہ بدر میں 313 تھے تو غزوہ احد میں ایک ہزار مجاہدین تھے اسی طرح پاکستان میں مختلف ایونٹس یا عوامی اشوز میں فعال کردار کی وجہ سے جماعت کی پذیرائی میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا مثلاً 1970 کے انتخاب میں ویسے تو جماعت کامیابی حاصل نہ کرسکی لیکن بہت بڑی تعداد میں لوگ جماعت کے اندر جذب ہوگئے یا قادیانی اشو میں جماعت کا کلیدی کردار رہا اسی طرح 1977 کے انتخابات اور تحریک نظام مصطفی میں جماعت کے لیڈنگ رول کی وجہ سے دوسری جماعتوں سے قابل ذکر تعداد جماعت میں شامل ہوئی۔
کراچی میں تین ٹرم جماعت اسلامی بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہوئی۔ دو مرتبہ عبد الستار افغانی اور ایک بار نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ناظم کراچی رہے اب چوتھی مرتبہ جماعت کراچی میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ کی پی پی پی پر مہربانی کی وجہ سے جماعت کا میئر نہ آسکا۔ اس وقت ہمارے جو کونسلرز، چیئرمین اور وائس چیئر مین یوسیز اور ٹائون میں کامیاب ہوئے ہیں ان کے سامنے عوامی مسائل کا ایک پہاڑ ہے لیکن پی پی پی کی صوبائی حکومت اور میئر کی طرف سے رکاوٹوں کا پہاڑ اس سے بھی بڑا ہے۔ تمام بلدیاتی ساتھی ان مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس گٹر پانی کے چکر میں ہم اپنے نظریاتی و دعوتی تشخص کو پیچھے دھکیل دیں۔ بلکہ اس کو ہر وقت نظروں کے سامنے رکھیں اور جو چڑیا دانے پانی کے چکر میں آپ کے ٹوکرے کے نیچے آئیں انہیں حکمت سے پکڑنے کی کوشش کیجیے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ اپنے مسائل کے حوالے سے آپ کے پاس آئیں انہیں پکڑ لیں اور گرفت ڈھیلی نہ کریں کہ وہ سلپ ہوجائیں۔ ہمیں آنے والے کے مسائل تو حل کرنے ہی ہیں لیکن یہی وہ وقت ہے جب لوگ چل کر آرہے ہیں بس ان ہی کو اپنی دعوت کا حدف بنائیں اور ان ہی میں ان سعید روحوں کو تلاش کریں جو آپ کے شانہ بشانہ اسلامی انقلاب کی منزل کے حصول کے لیے ساتھ چلیں۔ کراچی میں جو یوسیز ہماری ہیں یوسی دفتر میں ہفت روزہ یا پندرہ روزہ درس قرآن رکھا جائے۔ ہر یوسی دفتر میں روزنامہ جسارت آنا چاہیے، یوسی دفتر میں گنجائش ہو تو کچھ حصہ دارالمطالعے اور لائبریری کے لیے مختص کیا جائے۔ یوسی اسٹاف کو اپنے اہداف میں رکھیں اور انہیں اپنا متعین فرد بنائیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے تمام بلدیاتی ذمے داریوں پر فائز رفقاء پہلے سے یہ کام کررہے ہوں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی بنی اسرائیل کی وجہ سے کی تعداد کی کوشش تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا حکومت اور بلدیاتی نمائندوں کا وفاق کیخلاف احتجاج اور عدالت جانے کا فیصلہ
ضلع کرم کی صورتحال پر اعلی سطح کا اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے لوئر کرم میں کل ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت ترین کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حکومت خیبر پختونخوا نے لوئر کرم میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔ ضلع کرم کی صورتحال پر اعلی سطح کا اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے لوئر کرم میں کل ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت ترین کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ لوئر کرم کے چار گاؤں اوچت، مندوری، داد کمر اور بگن کو خالی کرایا جائے گا، یہ فیصلہ ان علاقوں کے عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہے، تاکہ سرچ آپریشنز کے دوران لوگوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ صوبائی حکومت نے کرم میں ریاست کے خلاف واقعات میں ملوث افراد کو شیڈول فور میں ڈالنے اوربے امنی ملوث افراد اور ماسٹر مائنڈز کے سروں کی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کل کے واقعے کے بعد کرم میں امدادی رقوم کی تقسیم کا سلسلہ عارضی طور پر روک دیا گیا ہے، جبکہ بنکرز کی مسماری کے سلسلے کو تیزی سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں امن معاہدے کے مطابق کرم کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ امن معاہدے کے تحت قائم امن کمیٹیوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی۔