مودی کا شائننگ انڈیا اور ٹرمپ کا ریگ مال
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
سنہ2014 میں انڈیا کی مودی سرکار نے میک ان انڈیا انی شیئیٹو کا اعلان کیا۔ اس کے تحت انڈیا میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور پروڈکشن شروع کی جانی تھی۔ اسی پروگرام کے تحت انڈین ایئر فورس نے 114 سنگل انجن فائٹر جیٹ خریدنے کا اعلان کیا۔ یہ ایک بڑا آڈر تھا جس کی بنیادی شرط یہ بھی تھی کہ انڈیا کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی جائے۔ انڈیا میں ان طیاروں کی پروڈکشن بھی کی جائے۔
اس ابتدائی پروگرام میں لاک ہیڈ مارٹن کا ایف سکسٹین اور سویڈن کی ساب کمپنی کا گرپن ای ہی 2 طیارے شارٹ لسٹ ہوئے تھے۔ ایف 16 کو انڈیا کی ضرورت کے مطابق تبدیل کر کے اس کا نام ایف 21 رکھا گیا تھا۔ جس حساب سے انڈین آڈر کے سامنے عالمی کمپنیاں آلو شوربا ہو رہی تھیں۔ ہم دل مسوس کر رہ گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چابہار پر امریکی پابندیاں، پاکستان کے لیے نئے امکانات
سال 2017 کے آخر اور سال 2018 کے شروع میں انڈین حکومت نے ٹوئن انجن فائٹر جیٹ کو بھی خریداری لسٹ میں شامل کر لیا۔ وجہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے درپیش مشکلات تھیں۔ انڈیا حساس ٹیکنالوجی روس اور اس کے رستے چین سے کیسے بچائے گا۔ انڈیا کو ایف 16 نام بدل کر خریدنا بھی خاص پسند نہیں آیا تھا۔ وجہ یہ بھی تھی کہ جتنا بھی نیا ہوا پاکستانی اس جہاز کے اچھے واقف ہیں۔ ٹوئین انجن کا آپشن لینے سے ایف 18 ای ، رافیل ، مگ 35 ، یوروفائٹر ٹائفون اور ایس یو 35 بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کے دورہ واشنگٹن پر کہا ہے کہ انڈیا ہم سے بڑی دفاعی خریداریاں کرے گا۔ جس کے بعد ایف 35 کی انڈیا کو فروخت کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا ہے کہ یہ ابھی صرف ایک تجویز ہے۔ انڈین سیکریٹری خارجہ کے بیان سے ہچکچاہٹ جھلکتی ہے۔ تو سوال بنتا ہے کہ ٹرمپ نے تو آفر دی ہے، انڈین کیا اسے دھمکی سمجھ رہے ہیں۔
امریکی کانگریس ریسرچ سروس کے مطابق انڈین فورسز کو ایک بڑے اپ گریڈ کی ضرورت ہے۔ انڈیا اگلے 10 سال میں اس اپ گریڈ پر 200 ارب ڈالر خرچے گا۔ یہ ایک بڑی رقم ہے جس پر عالمی ڈیفنس انڈسٹری کی نظر ہے۔ انڈیا کی بحری، بری اور فضائی افواج کا بڑا انحصار روس پر ہے۔
روس پر انڈین فورسز کا انحصار اپنے عروج پر 70 سے 85 فیصد تک رہا ہے۔ اس انحصار کو کم کیا جا رہا ہے۔ انڈین آرمی کے پاس 90 فیصد دفاعی سامان اور آلات روسی ساخت کے ہیں۔ انڈین ایئر فورس کے 71 فیصد فائٹر جیٹ روسی ساخت کے ہیں۔ ان میں ایس یو 30، مگ 29 اور مگ 21 شامل ہیں۔ انڈین نیوی کا صرف 44 فیصد دفاعی سامان روسی ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان میں اندرونی تناؤ، ہمارے امکانات اور امریکا
انڈیا امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ یہ ایسا پارٹنر ہے جس کا دفاعی انحصار سارا ہی روس پر ہے۔ انڈیا امریکا کی باہمی تجارت 129 ارب ڈالر ہے۔ انڈیا 87 ارب ڈالر کا سامان امریکا کو بیچتا ہے اور امریکا سے 42 ارب ڈالر کی خریداری کرتا ہے۔ امریکی مصنوعات پر انڈیا میں ٹیرف زیادہ ہے اور انڈین مصنوعات پر امریکا میں ٹیرف کم ہے۔
اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کو ٹیرف ابیوزر بھی کہتا ہے۔ ایسا ملک جو امریکا سے کماتا تو ہے لیکن امریکا سے خریداری نہیں کرتا۔ تجارتی عدم توازن 45 ارب ڈالر کے ساتھ انڈیا کے حق میں ہے۔ بائیڈن دور میں انڈیا نے امریکا سے 4 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدا۔ ٹرمپ اب مودی پر زور زبردستی دفاعی سامان بیچنا چاہ رہا ہے۔
انڈیا کے پاس روس کا جدید ایس 400 میزائل سسٹم بھی ہے۔ یہ میزائل سسٹم خریدنے پر امریکا نے ترکی کو ایف 35 کے پروگرام سے نکال دیا تھا۔ ایف 35 پروگرام کے تحت ترکی کو بہت سے آلات اس فائٹر جیٹ (ایف 35) کے تیار کرنے تھے اور جدید امریکی ٹیکنالوجی بھی ترکی کے ساتھ شریک کی جانی تھی۔
ترکی کو پروگرام سے نکالنے کی تکنیکی وجوہات تھیں۔ ایس 400 روس کا جدید میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔ یہ جدید انداز میں ڈیٹا جمع کرتا ہے۔ ایف 35 کی ترکی کے پاس موجودگی کی صورت میں حساس ڈیٹا روس کے ہاتھ لگنے کا حقیقی خطرہ موجود تھا۔ اب یہی صورتحال انڈیا کی ہے۔ اب یہاں رک کر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان پھر پڑھیں، جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ہم انڈیا کو دفاعی سامان فروخت کریں گے۔ جس کے بعد بتدریج انڈیا کو ایف 35 بھی مل سکیں گے۔
مزید پڑھیں: چین کا بحری سلک روٹ، ٹرمپ اور ہم
آسان زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ روسی اسلحے پر انڈین انحصار ختم کیا جائے۔ کوئی مذاق اے؟ ہمارا بھارت مہان اپنے دفاع پر 70 فیصد انحصار روس پر کرتا ہے۔ ٹرمپ جس دور کی بتی پیچھے انڈیا کو روانہ کرنا چاہ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیفنس کو اپ گریڈ کرنے کی بجائے مکمل تبدیل کرنا ہے۔
انڈیا دنیا کی چوتھی بڑی دفاعی قوت ہے۔ اتنی بڑی وار مشین کو تبدیل کرنا اس پر ہونے والے اخراجات کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ انڈیا جو علاقے کے چودھری کی طرح بی ہیو کرنے لگ گیا تھا۔ اس کی ساری چودھراہٹ پر ٹرمپ کا ریگ مال پھر گیا ہے۔ آپ صورتحال پر اتنا نہ مسکرائیں کہ ہم ہنستے ہوئے پکڑے ہی جائیں۔ کہانی کے بہت سے رخ اور بھی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
امریکا امریکا انڈیا اسٹریٹیجک پارٹنرشپ ایف 16 ایف 21 ایف 35 بھارت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایف 16 ایف 21 ایف 35 بھارت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ڈونلڈ ٹرمپ دفاعی سامان ڈونلڈ ٹرمپ امریکا سے فائٹر جیٹ انڈیا کو انڈیا کی ارب ڈالر رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ یوکرین کو بھی پورا ہڑپ کرنے کے لیے بے تاب
امریکا نے یوکرین کو تعمیرِنو کے لیے 500 ارب ڈالر کی ڈیل پیش کی ہے۔ یہ ڈیل دوسری جنگِ عظیم کے دوران تباہی سے دوچار ہونے والے جرمنی کو تعمیرِنو کے لیے دی جانے والی رقم سے زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یوکرین کے صدر ولودومور زیلنسکی نے صدر ٹرمپ کی پیشکش مسترد کردی ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرین کو جو ڈیل پیش کی جارہی ہے اُس کے عوض امریکا کو یوکرین کے معدنیات کے ذخائر، تیل اور گیس کی پروڈکشن، بندر گاہوں اور بنیادی ڈھانچے کے دیگر حصوں تک رسائی حاصل ہوکی۔
برطانوی اخبار ڈی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرینی ہم منصب کو جو پیشکش کی ہے اُس کے تحت یوکرین کے قدرتی وسائل کے نصف پر امریکا کا کنٹرول ہوگا اور وہ اِن وسائل کو اپنی مرضی کے مطابق بروئے کار لاسکے گا۔
برطانوی اخبار نے بتایا ہے کہ اس ڈیل کی دستاویز کا متن 7 فروری کو تیار کیا گیا تھا۔ اِس پر پریولیجڈ اینڈ کانفیڈینشل لکھا ہوا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ یوکرین کے قدرتی وسائل سے ہونے والے منافع کا نصف اپنے پاس رکھے۔ مزید یہ کہ اگر یوکرین کسی تیسرے فریق کو قدرتی وسائل کی کشید ک لائسنس جاری کرے تو اُس کی ویلیو کا نصف بھی امریکا کے پاس رہے گا۔
اس ڈیل کے تحت، جسے قانونی تحفظ حاصل ہوگا، امریکا برآمد کی جانے والی معدنیات کو خرید بھی سکے گا۔ ساتھ ہی ساتھ مستقبل کی سرمایہ کاری کے حوالے سے شرائط بھی امریکا کی مرضی سے طے کی جائیں گی۔
امریکی صدر نے جو پیشکش کی ہے اُسے موجودہ حالت میں قبول کرنا یوکرین کے لیے مشکل ہے کیونکہ اِس صورت میں یوکرین کو اپنے ہی قدرتی وسائل پر تصرف حاصل نہ رہے گا اور آگے چل کر اِس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ ڈیل کے متن کے تحت امریکا اور یوکرین مل کر ایک سرمایہ کاری فنڈ قائم کریں گے تاکہ کوئی بھی تیسرا ملک یوکرین میں تعمیرِنو کے عمل میں شریک ہوکر زیادہ منافع نہ بٹور سکے۔
فاکس نیوز سے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے دعوٰی کیا کہ یوکریں ابتدائی طور پر تو اس ڈیل کے لیے تیار ہوگیا تھا۔ یوکرین کے قدرتی وسائل غیر معمولی ہیں۔ امریکا کے لیے ایسی کوئی بھی ڈیل بہت موافق ہوگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یوکرین نے امریکی پیشکش قبول نہ کی تو یوکرین کو پلیٹ میں رکھ کر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو پیش کردیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس، جب یوکرین کو اسلحے اور گولا بارود کی اشد ضرورت تھی، ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹرمپ ٹاور میں ملاقات کے دوران یوکرین کے قدرتی وسائل تک امریکا کی غیر معمولی رسائی یقینی بنانے پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔