پاکستان اور سعودیہ کے درمیان کئی معاہدے زیر غور ہیں، وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
جدہ (صباح نیوز) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حکومتی سطح پرکئی معاہدے زیر غور ہیں۔ سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے العلا کانفرنس پر عرب نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی کامیابیوں سے پاکستان کو اپنی اقتصادی اصلاحات میں رہنمائی مل سکتی ہے‘ پاک سعودی عرب کی شراکت داری طویل المدتی، انتہائی مضبوط ہے، وزیرخزانہ نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی سعودی سرمایہ کاری پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ سعودی آرامکو کی پاکستان کے ڈاؤن اسٹریم پیٹرولیم سیکٹرمیں سرمایہ کاری خوش آئند ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کی حمایت اور آئی ایم ایف پروگرام میں تعاون پر شکر گزار ہیں، العلا کانفرنس ابھرتی معیشتوں کے درمیان تعاون اور اقتصادی استحکام کے لیے اہم فورم ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کاروباری لائسنسوں کا اجرا: صدر و وزیراعظم کا کیا کام
سٹیٹ بینک کے حوالے سے ایک تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 6 ماہ کے دوران 36.23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی رفتار اس سے بھی تیز ہو سکتی ہے اگر سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل کچھ رکاوٹیں دور کر لی جائیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بیرون ملک مقیم شہریوں کے دل اپنے وطن اور اپنے لوگوں کے لیے دھڑکتے ہیں۔ ان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ بیرون ملک کام کر کے انہوں نے جو سرمایہ اکٹھا کیا ہے وہ پاکستان میں لگائیں تاکہ یہاں کی معیشت ترقی کرے اور لوگ خوش حال ہو جائیں۔ اسی طرح جب صدر یا وزیر اعظم کی سربراہی میں ہمارے وفود بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری پر رضامند نظر آتے ہیں۔ پھر یہاں مقامی متمول خاندان اور افراد بھی سیاسی ماحول سازگار ہونے پر سرمایہ کاری کے خواہاں نظر آتے ہیں’ لیکن مشاہدے میں آتا ہے کہ یہ سارے سرمایہ کار پاکستان میں سرخ فیتے کے رواج اور اختیارات کی مرکزیت کی وجہ سے فوراً ہی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ ایسی سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ سرمایہ کار سرمایہ یہاں لے کر آئے کہ کوئی فیکٹری لگائیں یا کارخانہ کھولیں’ لیکن جلد ہی سسٹم کی پیچیدگیوں اور نظام کی مرکزیت کی وجہ سے اپنے ارادے سے تائب ہو گئے ۔یہ سب کیا ہے ؟عسکری نظام سے وابستہ کاروباری ادارے قومی معیشت کے فروغ کے لئے اسی لئے مثبت کردار ادا کر رہے ہیں کہ وہاں چیکنگ، معائنہ اور لائسنسوں کے نام پر بار بار پریشان کرنے والے محکموں کے لوگ نہیں جاتے۔پاکستان اکنامک موومنٹ ، جس کا میں عہدیدار ہوں، اس کے اراکین کی دو دو سال سے درخواستیں سرکاری اندھے کنووں میں پڑی ہیں۔ایسے میں سرمایہ کاری کیسے ہو،کاروبار کیسے شروع ہو۔حکومت اگر کاروبار و سرمایہ کاری میں اضافہ چاہتی ہے تو اسے اکنامک ایڈوائزری کونسل میں بزنس کمیونٹی کو بٹھانا چاہئے۔ہر اختیار کو اپنے پاس رکھنے کا کام انگریز کرتا تھا ،اب یہ ملک ہمارا ہے ۔صدر ، وزیر اعظم،وزرائے اعلیٰ ہمارے ہیں ۔انہیں متعلقہ شعبے کے نمائندوں پر اعتماد کرناچاہئے مگر انہوں نے کاروباری برادری سے دور رہ کر سب کچھ اپنے قابو میں رکھا ہے۔اس طرح کاروبار ترقی نہیں کر سکتے۔
اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جیسے سیاسی و معاشی عدم استحکام، سکیورٹی خدشات، متضاد اقتصادی پالیسیاں، سسٹم کی خرابیاں، نچلی اور اعلیٰ سطح پر پائی جانے والی بد عنوانی، پیچیدہ قوانین، مارکیٹ تک رسائی میں تجارتی رکاوٹیں، لیکن میرے خیال میں
سب سے اہم فیصلوں کے اختیارات کا ڈی سینٹرلائز نہ ہونا ہے۔ موجودہ اور سابق وزرائے اعظم کی جانب سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے لیے تیزی سے اصلاحات جاری ہیں، اور حکومت ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر رہی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی ورلڈ بینک کے وفد سے کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز نے کہا کہ قرض کے بجائے سرمایہ کاری اور شراکت داری ترجیح ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ ان اصلاحات میں پیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اصلاحات ہوتی بھی ہیں’ لیکن جو اصلاحات سب سے اہم اور سب سے زیادہ ناگزیر ہیں’ انہی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ کہ سرمایہ کاری اور کارخانوں اور فیکٹریوں کے سیٹ اپ کے بارے میں فیصلوں کا اختیار اعلیٰ ترین انتظامی سطح سے نیچے محکموں اور ان کے ارباب بست و کشاد تک لایا جائے تاکہ سرمایہ کاری کے حوالے سے ڈاکومنٹیشن میں آسانی ہو۔
پاکستان میں اختیارات کی مرکزیت کس قدر زیادہ ہے اس کا اندازہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو حاصل اختیارات سے لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم وفاق جبکہ وزرائے اعلیٰ صوبوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور اسی حوالے سے ان کے پاس اہم ایگزیکٹو اختیارات ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بالترتیب وفاقی اور صوبائی سرکاری محکموں کی سائننگ اتھارٹی ( Signing Authority ) ہوتی ہے۔ اہم فیصلوں کے لیے اکثر اعلیٰ ترین ایگزیکٹو اتھارٹیز (مراد وفاق میں وزیر اعظم اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ) سے منظوری درکار ہوتی ہے’ جیسے مالیاتی معاملات، تقرریاں، پالیسی میں بڑی تبدیلیاں، حکمرانی کے عمل میں کنٹرول کو یقینی بنانا۔ سائننگ اتھارٹی ہونا انہیں کلیدی فیصلوں میں براہ راست شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ اگرچہ کچھ اختیارات وزرا، سیکرٹریز یا محکموں کے دیگر اہلکاروں کو بھی سونپے جاتے ہیں’ لیکن اہم یا تزویراتی فیصلوں کی منظوری بالآخر وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ ہی دیتے ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر معاملات آگے بڑھ نہیں پاتے۔ قانون سازی کے احکامات، مالیاتی بجٹ اور اہم تقرریوں جیسے معاملات کے لیے قانونی طور پر ان کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ صورت حال اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اعلیٰ ترین منتخب اہلکار اہم فیصلوں میں براہ راست ملوث ہوں۔ وزیر اعظم کا عام طور پر درج ذیل شعبوں پر براہ راست کنٹرول ہوتا ہے: کابینہ ڈویژن’ وزارت خزانہ’ وزارت داخلہ’ وزارت خارجہ’ وزارت دفاع’ وزارت اطلاعات و نشریات’ منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کی وزارت’ وزارت توانائی’ وزارت قانون و انصاف’ انسانی حقوق کی وزارت’ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت’ وزارت تعلیم’ وزارت قومی صحت و خدمات۔ وزیر اعظم کئی اہم کمیٹیوں اور فورمز جیسے کہ نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) قومی سلامتی کمیٹی، اور دیگر سٹریٹجک قومی اداروں کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ ایک وزیر اعلیٰ کے تحت بھی درجنوں محکمے اور بے شمار اختیارات آتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختیارات اور طاقت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہے’ لیکن کاروباری طبقے کی سوچ الگ نوعیت کی ہوتی ہے۔ کاروباری لوگوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو پروجیکٹ شروع کرنا چاہتے ہیں’ اس کی فائل وزیر اعظم تک جائے گی اور وہی اس کا فیصلہ کریں گے تو 99 فیصد لوگ وہیں سے سلپ ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ یہاں ایس او پیز ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے اور اسے سزا ہونی چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کیسوں کا فیصلہ جلد از جلد (زیاہ سے زیادہ ایک ماہ میں) ہو جائے۔ جب عدلیہ سے بروقت انصاف نہیں ملتا تو بہت سے معاملات لٹک جاتے ہیں۔ کیا تْک بنتی ہے کہ ایک میڈیکل کالج بننا ہے تو اس کی منظوری وزیر اعظم دے؟ کیا تْک بنتی ہے کہ ایل ڈی اے کا سربراہ وزیر اعلیٰ ہو؟ کیا دوسرے ممالک میں ایسا ہوتا ہے؟ وہاں آپ کسی آفس میں جاتے ہیں اور آپ کے ڈاکومنٹس پورے ہیں تو آپ این او سی لے کر باہر نکلتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں معاشرہ۔ اس کو بولتے ہیں ایس او پیز۔ اس کو کہتے ہیں کام۔ سارے فساد کی جڑ سنٹرلائزیشن کا ہونا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نظام سخت نہیں ہے۔ قانون کی پاس داری نہیں ہے۔ ملک کو اچھے طریقے سے چلانا ہے اور گڈ گورننس کا نظام قائم کرنا ہے تو انقلابی تبدیلیاںلانا پڑیں گی’ نظام کو سخت بنانا پڑے گا۔ کسی کی ٹرانسفر’ پوسٹنگ جیسے معاملات اور اختیارات وزیر اعظم اور صوبے کی سطح پر وزیر اعلیٰ ضرور اپنے پاس رکھیں’ لیکن جہاں لائسنس دینا ہے’ جہاں این او سی دینا ہے’ وہاں کیا تْک بنتی ہے کہ صدر یا وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اس میں involve ہوں؟ باقی ایگزیکٹو آرڈرز وہ ضرور اپنے پاس رکھیں’ مثلاً اگر کسی نے شوگر مل لگانی ہے تو اس کا فیصلہ وزیر اعظم صاحب نہ کریں بلکہ وزیر صنعت و زراعت’ اس سے بھی نیچے صنعت اور زراعت کے سیکرٹریز کو یہ اختیارات ہونے چاہئیں کہ وہ ملک میں شوگر مل لگنے یا نہ لگنے کا فیصلہ کریں اور یہ فیصلہ ملک میں چینی کی ضروریات کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔ اس کے لیے سرمایہ کار کو وزیر اعظم تک فائل جانے کے صبر آزما مرحلے سے نہیں گزرنا چاہیے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو چیز بزنس مین بالکل نہیں سوچتا سیاست دان ایک منٹ میں سوچ لیتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ کام کی Permission وزیر اعظم کی طرف سے آنی ہوتی ہے۔ سیاست دان کہتا ہے کہ میں یہ کام کسی نہ کسی طرح کرا ہی لوں گا’ بزنس مین کہتا ہے کہ میں اس چکر میں نہیں پڑنا۔ اس ساری بحث کو ایک فقرے میں سمیٹنا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ اگر ملک میں سرمایہ کاری بڑھانا ہے تو فیصلہ سازی کے کچھ اختیارات کو اوپر سے نیچے لانا پڑے گا۔