اوآئی سی کااجلاس 4مارچ کوجدہ میں منعقدہوگا
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد (صباح نیوز)اسلامی تعاون تنظیم )او آئی سی(کا اجلاس 4 مارچ کو سعودی عرب کی سربراہی میں جدہ میں متوقع ہے جہاں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ فلسطین کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان اس اجلاس میں خصوصی شرکت کرے گا اور فلسطینی عوام کی حمایت میں اپنا موقف پیش کرے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
گیس انفرااسٹرکچر کیلئے 350 ارب استعمال نہ کیے جاسکے، آڈٹ حکام
گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) میں جمع 350 ارب روپے انفرااسٹرکچر کےلیے استعمال نہیں کیے جاسکے۔
اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت ہوا، جس میں پیٹرولیم ڈویژن کے مالی سال 24-2023ء کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں ساؤنڈ سسٹم بیٹھ گیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی میں جمع 350 ارب روپے کو انفرااسٹرکچر کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکا، پیٹرولیم ڈویژن نے 3 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔
اس پر چیئرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ کیا یہ اخراجات درست کیے گئے ہیں؟
پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ آئی پی پائپ لائن اورتاپی پائپ لائن پر مختلف ایشوز کے باعث کام نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان پیسوں کو گیس انفرااسٹرکچر میں استعمال کیا جانا ہے، وفاقی کابینہ سے ان کے متبادل استعمال پر رائے لی جاسکتی ہے۔
ن لیگ کے طارق فضل چوہدری نے کہا کہ فنڈز تو موجود ہیں ان کے استعمال کیلئے پیٹرولیم ڈویژن سے تجویز مانگی جائے۔
اس موقع پر حنا ربانی کھر نے کہا کہ ٹیکس گیس انفرااسٹرکچرکے نام پر وصول کیا گیا ہے، اب ٹیکس کو عوام کی بہتری کیلئے استعمال کیا جائے، ان پیسوں کو عوام سے وصول کرکے استعمال نہ کرنا درست نہیں ہے۔
دوران اجلاس اپوزیشن رہنما عامر ڈوگر نے کہا کہ تاپی منصوبہ قابل عمل ہے مگر اس پر پروگریس کیا ہے۔
جنید اکبر نے استفسار کیا کہ وزارت کی فنڈز کے استعمال پر کیا تجویز ہے؟وزارت پیٹرولیم ایک ماہ میں اپنے لائحہ عمل پر کمیٹی کو بریفنگ دے۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ یہ سیس2011ء میں لایا گیا اور 2020ء میں اس کو ختم کردیا گیا، ایران گیس پائپ لائن اور تاپی گیس پائپ لائن کو مکمل کیا جانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ پائپ لائن پر تنازع ہے، جو پیرس کورٹ میں پہنچ گیا ہے، اس مقدمہ بازی کے اخراجات بھی اس فنڈ سے دیے جارہے ہیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کے حل کےلیے غور جاری ہے، انٹر اسٹیٹ گیس کمپنی کو الگ کمپنی کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔
آڈٹ حکام نے شرکاء کو بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن 34 ارب روپے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی وصولی میں ناکام رہا۔
اس پر نوید قمر نے کہا کہ یہ جی ڈی ایس کا پیسہ وفاقی حکومت کا نہیں صوبوں کا ہے، اس کا فائدہ صرف کھاد کمپنیوں کو ہوا، صوبائی حکومتوں کی بجائے کھاد کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔
پیٹرولیم ڈویژن حکام نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 3 سال میں کھاد کمپنیوں کا ٹیرف نہیں بڑھایا، گیس ٹیرف میں اضافہ 3 سال بعد کیا گیا، گیس ٹیرف میں اضافہ کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل دیتی ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں مشترکہ مفادات کونسل کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا، اگر پی اے سی میں افسران مناسب جواب نہ دیں تو ان کو اجلاس میں نہ بیٹھنے دیں۔
عامر ڈوگر نے کہا کہ کھاد کمپنیاں اتنی با اثر ہیں کہ ایک سال سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں ہونے دیا۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ اس مالی سال کے آخر تک جی ڈی ایس میں 70 ارب روپے جمع ہوں گے، کھاد فیکٹریوں کا ٹیرف کافی عرصہ نہیں بڑھایا گیا تھا تاہم اب اس کو بڑھا دیا ہے۔
کمیٹی ارکان نے اجلاس میں رائے دی کہ گزشتہ 3 سالوں کا جی ڈی ایس کھاد کمپنیوں سے وصول کیا جانا چاہیے۔ نوید قمر نےکہا کہ اس معاملے پر آپ وزیراعظم کو ہدایت نہیں کرسکتے، تاہم سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا کہہ سکتے ہیں۔
ایم ڈی جنکو ٹو نے کہا کہ جنکو ٹو جی ڈی ایس میں 23 ارب روپے ایک سال میں ادا کردیں گے، حکومت جب کیپیسٹی چارجز دے گی تو ہم بھی ادا کر دیں گے۔
طارق فضل چوہدری نے کہا کہ افسران میٹنگ میں مکمل تیاری کر کے نہیں آتے، اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری پاور سے جواب لیا جائے گا۔
آڈٹ حکام نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ دو کمپنیوں نے پیٹرولیم لیوی جمع نہیں کرائی جو 14 ارب 63 کروڑ روپے بنتی ہے۔
جنید اکبر نے کہا کہ ان میں سے تو ایک کمپنی ڈیفالٹ ہوئی اور نئے نام سے آگئے، میرا سوال تھا کہ ڈیفالٹ شدہ کمپنی نئے نام پر کس طرح کام کر رہی ہے؟
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ ان کمپنیوں نے 2019 سے 2022 تک کم لیوی ادا کی، اصل رقم 47 ارب روپے ہے جس پر لیٹ پیمنٹ سرچارج 21 ارب روپے ہے، اس معاملے کا جواب سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن دے سکتا ہے۔
دوران اجلاس ثناء اللّٰہ خان نے تجویز دی کہ اس معاملے کو نیب کو بھیجا جائے جبکہ نوید قمر نے کہا کہ اس معاملےکو نیب نے سیٹل کیا ہے نیب سے تفصیلات لی جائیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ کمپنیوں نے ایک ارب روپے ماہانہ ادا کرنے پر اتفاق کیا مگر لیٹ پیمنٹ سرچارج ادا کرنے کو تیار نہیں، یہ ساری رقم 4 سال میں ادا ہوگئی تاہم ہم لیٹ پیمنٹ سرچارج بھی وصول کریں گے۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ کمپنیوں نےعوام سے47 ارب کی پیٹرولیم لیوی وصول کرلی اب حکومت کو ادا تیار کو تیار نہیں، اس طرح کا کام کسی ملک میں نہیں ہوسکتا، اس کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے۔
چوہدری جنید انوار نے کہا کہ کیا اس ریفائنری میں وہی لوگ ڈائریکٹرز ہیں جو نام کی تبدیلی سے پہلے تھے؟ اس سوال پر سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ اس کا جواب سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن دے سکتا ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں چیئرمین نیب اورڈی جی ایف آئی اے کو بریفنگ کیلئے بلایا جائے۔
اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کی آڈٹ پیراز پر غور کیا گیا، حکام نے بتایا کہ مالی سال 2022-23 میں پیٹرولیم ڈویژن نے 20 کروڑ 40 لاکھ روپے کی گرانٹ سرنڈر کی۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ اس مالی سال پی ایس او کو ایکسچینج ریٹ نقصانات پر 57 ارب روپے دیے گئے۔
نوید قمر نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن کیلئے فنڈز مختص کیے گئے تھے اتنے ہی 63 ارب روپےکی سپلیمنٹری گرانٹ لی گئی، لگتاہے وزارت کی طرف سے اپنا کام پورا نہیں کیا گیا جس کے باعث ضمنی گرانٹ لی گئی۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ ان سالوں میں ایکسچینج ریٹ کےنقصانات کافی زیادہ تھے جس کے باعث ضمنی گرانٹ لی گئی۔