’تنظیموں کی اصل طاقت اس کے کارکن اور ووٹ بینک ہوتے ہیں‘
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر یہ چیزیں پہلی بار نظر آ رہی ہوں تو اس پر سوال اٹھتا ہے کہ کوئی اسٹریٹیجی بن سکتی ہے یا نہیں بن سکتی، عمران خان کی ایک چیز پر تو ان کے مخالف بھی قائل ہیں، متفق ہیں، کہ پی ٹی آئی عمران سے شروع ہوتی ہے اور عمران پر ختم ہو جاتی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ باقی جو لیڈر شپ اس وقت ہے اس پر جو الزام لگتا ہے کہ وہ کمپرومائزڈ ہے اس میں بہت سے بہت مواقع پر یہ ثابت بھی کرتے ہیں۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا اگر کوئی اس سے خوش ہو رہا ہے کہ اختلافات ہو گئے اور پی ٹی آئی کو اس سے بہت بڑا نقصان ہو جائے گا تو آپ اس بات کا یقین کر لیں کہ اسے اختلافات سے رتی برابر بھی نقصان نہیں پہنچے گا، ایسے اختلافات سے تنظیموں کو فرق نہیں پڑتا، تنظیموں کی اصل طاقت اس کے کارکن اور اس کا ووٹ بینک ہوتے ہیں، دونوں تحریک انصاف کے پاس اب تک موجود ہیں، اس پر کوئی فرق نہیں پڑا، تنظیمی عہدیدار آتے رہتے ہیں اور جاتے رہتے ہیں۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ جو تحریک کی بات ہو رہی ہے اور جو کچھ پی ٹی آئی کے اندر چڑی چھکا جاری ہے جیسے کہ میں عدالتوں کے بارے میں کہہ رہا تھا سپریم کورٹ میں ہے ہائیکورٹ میں ہے اور وہ پی ٹی آئی کے اندر بھی ہے، شیر افضل مروت نے اس کو سیدھے الفاظ میں بیان کر دیا کہ کیا اقتداراور اختیار کی لڑائی ہے جو خان صاحب کے پاس جا کر لوگ پیش کرتے ہیں جو بات کرتے ہیں تو اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔
تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی کے اندر انتشار اور تقسیم کی صورتحال ہے، پارٹی کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں لیکن یہ تو ہم پہلی بار تو نہیں دیکھ رہے، دیکھیے جب سیاسی جماعتیں خاص طورپرجب اپوزیشن میں آتی ہیں جب وہ پریشر میں آتی ہیں اور زیر عتاب ہوتی ہیں یا ان کی قیادت ملک سے باہر ہو یا ان کی قیادت جیل میں ہو تو قیادت کا پارٹی پر کنٹرول متاثر ہوتا ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا پی ٹی آئی کے لیڈروں میں کبھی بھی اتفاق نہیں رہا، اقتدار میں تھے اور اقتدار سے علحیدہ بھی تھے، ہمیشہ اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف کھینچا تانی کرتے ہں، ان کی سب سے بڑی پاور ان کے کارکن ہیں، کارکنوں نے ہی ابھی یک پارٹی کو زندہ رکھا ہوا ہے ورنہ لیڈروں میں دیکھ لیں کہ آئے دن چہرے چینج ہوتے رہتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے اندر تجزیہ کار نے کہا
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے لئے مشکلات
پی ٹی آئی کے لئے مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ بہت سارے دیہاڑی باز جوسوشل میڈیا پر ہر مہینے بلکہ ہر ہفتے رہائی کی ایک نئی تاریخ دیتے تھے غائب ہوچکے ہیں۔ اب ان کیلئے اْمید کی کوئی کرن نہیں ہے۔ ایک چراغ جو حکومت سے مذاکرات کے ذریعے پی ٹی آئی نے خود ہی جلایا تھا اسے بْجھا بھی خود ہی دیا۔ آرمی چیف کو خطوط لکھ کے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر اس پر بھی صاف جواب آ گیا اور اب ایک ٹرک کی بتی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد کوئی گرینڈ الائنس بنایا جائے گا اوراس کے بعد کوئی تحریک۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کچھ مقاصد اور کچھ مفادات پر اکٹھے ہیں توا س کے اعلان کے لئے رمضان المبارک کے گزرنے کا انتظار کیوں ہے یعنی کوئی ڈیڑھ دو ماہ بعد۔ میں جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے دھوپ چمک رہی ہے اور لگ رہا ہے کہ اس مرتبہ گرمی شائد گذشتہ برسوں کی نسبت کچھ پہلے آجائے اور شائد کچھ زیادہ بھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے سنگ جانی اور کاہنہ کے جلسوں سے اپنی عوامی حمایت کا اندازہ بھی لگا لیا ہے اور اس نے خیبرپختونخوا کے جلسوں میں اپنی حاضری بھی دیکھ لی ہے، کسی ایک جگہ بھی یہ تعداد دس ہزار نہیں تھی۔ اس کی مزاحمت میں کتنا دم ہے وہ اکتوبر میں ایس سی او کانفرنس سے پہلے احتجاج اور نومبر کی فائنل کال میں چیک کیا جا چکا ہے جب بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں فرار ہوئے۔اب پی ٹی آئی والے احتجاج کے لئے مولانا فضل الرحمان کی مذہبی اور سیاسی طاقت پر انحصار کرنا چاہ رہے ہیں مگر کیا مولانا ان کی چال میں آ جائیں گے اور اپنے کارکنوں کو حکومت کے سامنے اور اپنی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک ایسی جنگ میں کھڑا کر دیں گے جس کا فائدہ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی اٹھالیں۔ اگر کسی کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی ہے تو وہ چھبیسویں آئینی ترمیم کی پوری ڈویلپمنٹ پر غور کر سکتا ہے جس میں جمعیت العلمائے اسلام کے ارکان اسمبلی نے پی ٹی آئی کی اس موو کو ناکام بنایا جو وہ اعلیٰ عدالتوں میں تقسیم کے ذریعے کرنا چاہتی تھی۔ یہ حکومت کی ایک شاندار سیاسی، پارلیمانی اور قانونی مہم تھی۔ یہ درست ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے آئینی عدالت بننے کا راستہ روکا مگر آئینی بینچ قائم ہوا اور وہ تمام مقاصد حاصل ہوئے جو حکومت نے طے کر رکھے تھے۔ یہ شہبازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی مشترکہ جیت تھی۔
کوئی بھی سیاسی جماعت اگر کوئی بھی تحریک چلانا چاہتی ہے تواس کے لئے اس کے اندر قیادت اور نظرئیے کی یکسوئی ضروری ہے۔ پی ٹی آئی میں بہت سارے لوگ قائل ہیں کہ مزاحمت کی سیاست سے انہیں کچھ نہیں ملے گا اور اگر کچھ ملے گا تو وہ صرف اور صرف مشکل اور رسوائی جیسے نو مئی کے بعد ملی اور جیسے چھبیس نومبر کی رات۔پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر شور مچاتے ہیں مگر عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی اس وقت بہت سارے گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے جیسے مرکزی سطح پر علیمہ بی بی اور بشریٰ بی بی کے گروپ۔ بات یہاں تک محدو د نہیں ہے بلکہ ایک سوشل میڈیا کا گروپ بھی ہے اور ایک وکلا کا گروپ بھی۔ ایک گروپ پارٹی سے نکالے ہوئے رہنماؤں کا ہے جیسے فواد چوہدری اورشیر افضل مروت وغیرہ۔ یہ لوگ سوشل ہی نہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی رش لے رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ اختلاف رائے ہے جو پارٹیوں میں ہوجاتا ہے مگر یہ محض اختلاف رائے ہوتا تو یہ لوگ ایک دوسرے کو تھپڑ نہ مار رہے ہوتے، علیمہ بی بی نے عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ چلانے والے جبران الیاس پر جو الزامات عائد کئے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ اختلاف رائے نہیں، نفرتیں اور دشمنیاں ہیں۔
پی ٹی آئی کا ہوم گراؤنڈ خیبرپختونخوا ہے اور وہاں پر اس کی تنظیمی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔علی امین گنڈا پور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا کے جنید اکبر کو لایا جا چکا ہے اور ان دونوں کے درمیان جو معاملات چل رہے ہیں وہ آٹھ فروری کے جلسے کے موقعے پر واضح رہے۔ خیبرپختونخوا میں گروپ بندی علی امین اور جنید اکبر سے بھی اوپر کی ہے یعنی مراد سعید، اسد قیصر، علی محمد خان اور شیر افضل مروت وغیرہ کے گروپ۔ شیر افضل خان مروت کے ساتھ بہت سارے رہنماؤں اور کارکنوں نے سوشل میڈیا پر باقاعدہ جانے کے اعلانات کر دئیے ہیں۔ سندھ اوربلوچستان میں پی ٹی آئی کا کوئی حال نہیں ہے اور پنجاب میں حماد اظہر،شاہ محمو د قریشی اور چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ میاں اسلم اقبال کے بھی گروپ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کو بھی پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ ہوجائے گا کہ اس پر بھرپور مہم چل رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طاقتور گروپ حماد اظہر کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹانے کے لئے سرگرم ہے اور یہ واحد پارٹی ہے جو اپنے عہدوں اور پالیسیوں کا فیصلہ سوشل میڈیا کو دیکھ کے کرتی ہے۔ میں نے یہاں سلمان اکرم راجا کے گروپ کی بات نہیں کی کیونکہ ان کا کوئی گرو پ نہیں اور میں نے انہیں چوبیس نومبر کو اپنی گاڑی میں اکیلے گھومتے اور ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا ہے۔ پنجاب میں فواد چوہدری بھی کارکنوں کی توجہ لے رہے ہیں مگر وہ مرکزی سیاسی کمیٹی کو منی لانڈرنگ کمیٹی بھی کہہ رہے ہیں، شعیب شاہین کو تھپڑ مار رہے تووقاص اکرم پر پوری کے پی حکومت بیچنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
ایک کاؤنٹر آرگومنٹ یہ ہے کہ ووٹ تو عمران خان کا ہے اور وہی ووٹ آٹھ فروری کو بھی پڑاسو ان اختلافات سے فرق نہیں پڑتا مگرتب کیا ہو اگر عمران خان خود جیل میں بیٹھ کے یہ گیم کررہے ہوں، انہیں آپس میں لڑوا رہے ہوں۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوتی ہے جب وہ بشریٰ بی بی کی بھی تعریفیں کرتے ہیں اور علیمہ بی بی کو بھی ہلہ شیری دیتے ہیں، اسی طرح تھپڑ کھانے والے شعیب شاہین سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں اور تھپڑ مارنے فواد چوہدری سے بھی۔ کیا یہ وہی بڑی گیم ہے جس کا ذکر پی ٹی آئی کے کارکن کرتے ہیں کہ وہ میں جیل میں بیٹھ کے کر رہے ہیں، خیر، اب تو یہ باتیں کہنے والے بھی نہیں رہے ورنہ وہ کیا دن تھے جب روزانہ بتایا جاتا تھا کہ جیل کا پچھلا دروازہ کھلا اور فلاں، فلاں نے عمران خان کے پاؤں پکڑ لئے۔ اب تو اپنے وکیلوں تک ملاقاتیں نہ ہونے کے رونے دھونے ہیں جو اس برس تو اسی طرح چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ رہ گئی تحریک تو یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں، یہ منہ اور مسور کی دال؟