سپریم کورٹ انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو، جسٹس منصور اور عائشہ اطہر شامل نہیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے درمیان تصادم اس وقت شدت اختیار کر گیا جب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ہائی کورٹس کے ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے خلاف خط لکھنے والے4 ججوں کو انتظامی کمیٹیوں سے ہٹا دیا گیا۔
چیف جسٹس کی طرف سے تشکیل نو کی گئی کمیٹیوں میں جسٹس منصور ،جسٹس منیب ،جسٹس عائشہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو شامل نہیں کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں مشیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا،وہ ایک سال سے وہاں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کو لا کلرک شپ پروگرام کمیٹی کی کمیٹی سے ہٹا دیا گیا۔
اب جسٹس محمد علی مظہر سربراہی کریں گے، جسٹس گل حسن اورنگزیب دوسرے رکن ہیں، جسٹس عقیل احمد عباسی کو سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی سے ہٹا دیا گی، جسٹس اطہر من اللہ کوآرکائیو اینڈ میوزیم کمیٹی سے بھی ہٹا دیا گیا اور جسٹس عرفان سعادت خان کو بھی کسی بھی کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔
واضح رہے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں8 ججوں کی تقرری پر غور کیلئے جے سی پی کا اجلاس طلب کیا تو4 ججوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست پر فیصلہ آنے تک نئی تقرریوں کی مخالفت کی۔
جسٹس شاہ اور جسٹس منیب اختر نے 10 فروری کو جے سی پی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اب انہیں انتظامی کمیٹیوں سے ہٹا دیا گیا۔
چیف جسٹس 6 رکنی کیس مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ہونگے۔ جس میں جسٹس نعیم افغان ،جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس شفیع صدیقی اور ایڈیشنل رجسٹرار اور ڈائریکٹر آئی ٹی بھی شامل ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی کوکے پی کے کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کی نگران جج مقرر کیا گیا ہے ۔جسٹس ملک شہزاد پنجاب، جسٹس ہاشم کاکڑ کو بلوچستان کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کا نگران مقررکیا گیا ہے ۔جسٹس صلاح الدین پنور سندھ ،جسٹس عامر فاروق اسلام آباد کی اے ٹی سی عدالتوں کے نگران ہوں گے۔
سپریم کورٹ کی بلڈنگ کمیٹی کی سربراہی جسٹس جمال مندوخیل کے سپرد کر دی گئی ۔ جسٹس شفیع صدیقی ،جسٹس عامر فاروق ارکان ہونگے۔چیف جسٹس آئی ٹی کمیٹی کے سربراہ ،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس گل حسن ارکان ہونگے۔
ریسرچ سینٹر کمیٹی کی سربراہی جسٹس شاہد بلال حسن کے سپرد کر دی گئی، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس عامر فاروق ارکان ہونگے۔جسٹس محمد علی مظہر لا کلرک پروگرام کمیٹی کے سربراہ، جسٹس گل حسن ارکان ہونگے ۔
فوری انصاف اور ماڈل کورٹس سے متعلق کمیٹی کے سربراہ جسٹس ملک شہزاد جبکہ جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین، جسٹس اشتیاق ابراہیم ارکان ہونگے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کمیٹی کے سربراہ سے ہٹا دیا گیا ارکان ہونگے سپریم کورٹ چیف جسٹس اور جسٹس کیا گیا
پڑھیں:
وزیراعظم اور چیف جسٹس کی مُلاقات میں کیا ہوا؟
گزشتہ روز سپریم کورٹ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ میں ملاقات کی۔
وزیراعظم کا خط12 فروری کو جب آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی تو اُس کے بعد چیف جسٹس نے صحافیوں سے خصوصی ملاقات کی، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد کی آمد سے قبل اُنہیں وزیراعظم کا ایک خط ملا، جس میں اُنہوں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان میں جائیداد کے حق ملکیت کا تحفظ اور کنٹریکٹ حقوق کے بارے میں یقین دہانی چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات، ٹیکس سے متعلق کیسز کے فیصلے میرٹ پر جلد سنانے کی استدعا
آپ کے خط کا جواب نہیں دوں گاچیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ میں نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ کے خط کا جواب نہیں دوں گا، بلکہ آپ خود سپریم کورٹ تشریف لائیں ہم آپ کے ساتھ نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کا ایجنڈا شیئر کریں گے اور اُس کے بارے میں آپ اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، کیونکہ ہم پہلے ہی عدالتی نظام کی اصلاح پر کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی، اس موقع پر اُن کے ساتھ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور مشیر احمد چیمہ بھی تھے۔
سپریم کورٹ کا اعلامیہسپریم کورٹ سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے کہا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے حوالے سے حزبِ اختلاف کو بھی اعتماد میں لوں گا تاکہ اصلاحات غیرمتنازع اور پائیدار ہوں۔ اور وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ٹیکس معاملات پر جلد فیصلے کرنے کی بھی گزارش کی۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات پر آئینی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ملاقات میں رجسٹرار سپریم کورٹ اور سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن بھی شریک ہوئیں۔
کیا انتظامی عہدیداران سے چیف جسٹس مِل سکتے ہیں؟15 فروری کو یہ سوال جب ہم نے ماہرین آئین و قانون کامران مرتضیٰ اور اکرام چوہدری کے سامنے رکھا تو اُن کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور انتظامیہ 2 الگ اگ شعبے ہیں۔ گو کہ چیف جسٹس کے آئی ایم وفد سے ملنے پر کوئی قدغن نہیں لیکن عدالتی روایات کے مطابق تو چیف جسٹس یا دیگر ججز اپنے ملک کے وزیراعظم اور انتظامی عہدیداران سے بھی نہیں ملتے۔
اِس سے قبل ہمیں چیف جسٹس اور وزرائے اعظم کے درمیان ون آن ون ملاقاتوں کا پتا نہیں چلتا لیکن وزیراعظم شہباز شریف 2 چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ ملاقاتیں کر چُکے ہیں اور اِسی طرح سے سابق وزیراعظم عمران خان اور اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقت نثار کے درمیان بھی ایسی ایک مُلاقات ہوئی تھی۔
چیف جسٹس اس سے قبل وزرائے اعظم سے کب ملے؟28 مارچ 2024 کو وزیراعظم شہباز شریف اِسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے سلسلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ سپریم کورٹ ملنے کے لئے آئے۔
ف
05 دسمبر 2018 کو اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں سپریم کورٹ کے منعقدہ سمپوزیم سے پہلے کی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں