Express News:
2025-02-20@11:52:08 GMT

تین دہشت گرد وزرائے اعظم (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

فلسطین میں ’’دہشت گردی کے جدِ امجد‘‘ کے گزشتہ تین سلسلے وار مضامین میں یہ بتانا مقصود تھا کہ فلسطین میں منظم ہتھیار بند سیاست کا آغاز عربوں نے نہیں صیہونیوں نے کیا تھا۔

ہم نے گزشتہ مضامین میں ہگانہ ، ارگون اور لیخی نامی تین دہشت گرد تنظیموں کا تذکرہ کیا۔جنھیں بعد ازاں اسرائیلی فوج کی باضابطہ شکل میں ڈھال دیا گیا۔آج یہ فوج اگر اپنے عسکری اجداد کے ڈی این اے کا حق ادا کر رہی تو حیرت کیوں۔آپ تو جانتے ہیں کہ اولاد ہی والدین کی وراثت آگے بڑھاتی ہے۔

بن گوریان سے بنجمن نیتن یاہو تک اسرائیل میں اب تک چودہ وزراِ اعظم آئے ہیں۔ان میں سے تین وزرائے اعظم بذاتِ خود دہشت گرد تھے۔ تینوں کا نظریاتی شجرہ صیہونی ترمیم پسند رہنما زیو جیوبٹنسکی سے جا ملتا ہے جو عربوں کی نسل کشی کے ایک بڑے وکیل تھے۔

پہلے سکہ بند دہشت گرد وزیرِ اعظم مینہم بیگن ہیں۔اسرائیل کی تشکیل سے قبل انیس سو تینتالیس تا اڑتالیس تک وہ مسلح ملیشیا ارگون کے سربراہ رہے۔ وارسا یونیورسٹی سے انیس سو تیس کی دہائی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔دوسری عالمی جنگ کے دوران بیگن پولینڈ اور لتھوینیا میں جرمنوں کے خلاف مزاحتمی تحریک میں سرگرم رہے۔

ستمبر انیس سو چالیس میں وہ اسٹالن کی خفیہ این کے وی ڈی کے ہتھے چڑھ گئے اور انھیں برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام میں آٹھ برس قید کی سزا سنا کے سائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بھیج دیا گیا۔جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کی تو سوویت یونین نے پولش مزاحتمی تحریک کی سرپرستی شروع کر دی اور مینہم بیگن سمیت پولش قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

بیگن فری پولش آرمی میں شامل ہو گئے اور مئی انیس سو بیالیس میں ان کا فوجی یونٹ براستہ ایران و عراق فلسطین پہنچا۔یہاں انھوں نے آرمی سے طویل رخصت لے لی اور ارگون ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔بیگن نے بہت تیزی سے ارگون کی بالائی قیادت تک کا سفر طے کیا۔ان کے والد ، والدہ اور بھائی کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی۔اس پس منظر کے ساتھ مینہم بیگن کی شخصی سخت گیری سمجھ میں آ سکتی ہے۔

جب انیس سو چھتیس تا انتالیس برطانیہ کی کھلی یہود نواز پالیسی کے خلاف عام عربوں نے بغاوت کی تو برطانیہ نے مسلح صیہونی آبادکاروں کی مدد سے مزاحمت کو کچل ضرور دیا مگر آیندہ ایسے کسی شدید عرب ردِ عمل سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور یہودیوں کی آمد کا کوٹہ انتہائی محدود کر دیا۔اس کے ردِ عمل میں مسلح صیہونیوں نے برطانیہ کو نشانے پر رکھ لیا۔

مینہم بیگن کا نظریہ یہ تھا کہ یہودیوں کو آئرلینڈ کی مزاحمتی تحریک کی طرح ایک ہتھیار بند چھاپہ مار جنگ شروع کرنی چاہیے۔جب برطانیہ تنگ آ کر یہودی مزاحمت سے سختی برتے گا تو ان یہودیوں کے حق میں ہمدردی کی عالمی لہر ابھرے گی جو یورپ میں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں اور جان بچانے کے لیے فلسطین آنا چاہ رہے ہیں۔

ایک دن برطانیہ زچ ہوکر بوریا بستر لپیٹے گا تو اس کے بعد عربوں سے نمٹنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔لہٰذا جو صیہونی اس وقت مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کے زریعے کسی حل کی امید رکھتے ہیں وہ دراصل احمق ہیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ مینہم بیگن کا تجزیہ حالات و واقعات نے درست ثابت کیا۔

ارگون ملیشیا کی مینہم بیگن کی سربراہی کے دور میں یروشلم میں امیگریشن اور انکم ٹیکس دفاتر پر حملے ، قاہرہ میں برطانوی نائب سفیر لارڈ میون کا قتل ، ایکر کی جیل پر حملہ کر کے چھبیس دہشت گردوں کو چھڑوانا ، برطانوی انتظامیہ کے مرکز کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو جولائی انیس سو چھیالیس میں بارود سے اڑانا نمایاں وارداتیں ہیں۔کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی تباہی سے نہ صرف تب تک کی صیہونی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا ریکارڈ تلف ہو گیا بلکہ اکیانوے ہلاکتیں بھی ہوئیں۔بیگن کا ایک اور بڑا کارنامہ ارگون سے بھی زیادہ متشدد گروہ لیخی کے اشتراک اور سوشلسٹ صیہونی رہنما بن گوریان کی خاموش حمایت سے نو اپریل انیس سو اڑتالیس کے دن دیر یاسین گاؤں کے ڈھائی سو کے لگ بھگ عرب زن و مرد کا قتلِ عام تھا۔( اس کا تذکرہ گزشتہ مضامین میں تفصیلاً ہو چکا ہے )۔

مفرور مینہم بیگن کے سر پر برطانوی انتظامیہ نے دس ہزار پاؤنڈ کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔انھوں نے انیس سو چوالیس کے بعد اگلے چار برس نام ، مقام اور بھیس بدل بدل کے کام کیا۔اسرائیل کی تشکیل کے بعد بھی ارگون نے اپنا مسلح تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کی اور بن گوریان کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔مگر بدلے حالات نے ارگون کو اسرائیلی فوج میں ضم ہونے پر مجبور کر دیا۔

بیگن نے چھاپہ مار زندگی ترک کر کے ہیروت (آزادی ) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔اس جماعت کا منشور اردن سے بحیرہ روم کے ساحل تک عظیم تر اسرائیل کا قیام تھا۔ ان کے دہشت گرد ماضی کے سبب برطانیہ میں داخلے پر انیس سو بہتر تک پابندی رہی۔انیس سو تہتر میں ہیروت پارٹی نے دائیں بازو کے لیخود اتحاد کا روپ دھارا۔

بن گوریان اور بیگن ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جب بن گوریان نے انیس سو پچپن میں ہالوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے لیے بطور زرِ تلافی پانچ ارب جرمن مارک کی رقم قبول کرنے کا معاہدہ کیا تو مینہم بیگن نے کہا کہ بن گوریان نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی لاشوں کا سودا کر کے جرمنی کے گناہ دھو ڈالے۔اس معاہدے کے خلاف بیگن نے یروشلم میں ایک بہت بڑے پرتشدد جلوس کی قیادت کی۔

 جب انیس سو اناسی میں بیگن نے بطور وزیرِ اعظم جمی کارٹر کی ثالثی میں مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ سجھوتے پر دستخط کے بعد جزیرہ نما سینا مصر کو واپس کر دیا اور اس کے عوض سادات کے ہمراہ نوبیل امن انعام وصول کیا تو مخالفین نے طعنہ دیا کہ اردن سے بحیرہ روم تک عظیم تر اسرائیل کے وکیل نے اپنا نظریہ اپنے ہی ہاتھوں قتل کر دیا۔مگر بیگن حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آبادکار بستیوں کی تعداد دوگنی کر کے اور روس سے مزید دس لاکھ یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے اور انیس سو سڑسٹھ میں شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم کر کے سینائی کی مصر کو واپسی کی تلافی کر لی۔

لیخود پارٹی نے عہد کیا کہ سینائی کے بعد کوئی علاقہ بشمول غربِ اردن واپس نہیں کیا جائے گا۔اس پالیسی پر بیگن کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے عمل کیا۔

امریکی دباؤ پر انیس سو بانوے میں دو ریاستی حل بظاہر تسلیم کر لیا گیا مگر جب پی ایل او نے اس معاہدے کی قیمت کے طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر کے ہتھیار رکھ دیے تو دو ریاستی حل بھی عملاً دفن ہوتا چلا گیا۔

 بیگن نے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کے ساتھ مل کر ستمبر انیس سو بیاسی میں بیروت کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں تین ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام بھی کیا۔ایک عدالتی کمیشن نے بیگن کو بلاواسطہ اور شیرون کو براہ راست ذمے دار ٹھہرایا۔دونوں نے استعفی دے دیا۔بیگن نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اسی حالت میں نو مارچ انیس سو بانوے کو انتقال ہوا۔

بیگن کو ان کی وصیت کے مطابق ماؤنٹ ہرزل کے بجائے کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔وہیں پر ارگون کے دہشت گرد مائر فینسٹائین اور موشے برزانی بھی دفن ہیں جنھیں اسرائیل کے قیام سے قبل ایک برطانوی عدالت نے دہشت گردی کی پاداش میں سزاِ موت سنائی تھی۔ دونوں نے تختہ دار پر جھولنے کے بجائے خود کو دستی بموں سے اڑا لیا۔

بیگن انیس سو انچاس کی پہلی کنیسٹ سے لے کر انیس سو تراسی تک مسلسل پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔دس اکتوبر انیس سو تراسی کو وزارتِ عظمی سے بیگن کے استعفی کے بعد ایک اور اشتہاری دہشت گرد نے کرسی سنبھالی۔اگلے مضمون میں اس کا احوال پیش ہو گا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مینہم بیگن بن گوریان کے خلاف بیگن نے کے لیے کر دیا کے بعد

پڑھیں:

کون ہارا ، کون جیتا؟

(گزشتہ سےپیوستہ)
جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالمی دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھرنہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کیلئے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کیلئے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔خود نیتن یاہو کیلئے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آنے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نہ صرف گلوبل ساتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔جیک لیو کے مطابق بائیڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیر اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکا میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کررہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی اعدادوشمار ہیں؟غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانشوروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکائونٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والی فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے ہیں ۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کورس منہدم ہو چکا ہے۔انکے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
جدوجہد ابھی طویل ہو گی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟ ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کادھارا بدل دیاہے۔ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت؟
بات ابھی ختم نہیں، خطے میں طاقت کا کوئی توازن ہی نہیں۔ طاقت ور دشمن سازشیں کررہا ہے اور مسلمانوں کے پاس ایک ہی رستہ ہے: عسکری قوت، اقتصادی طاقت۔ آج کی دنیا میں ان دو ہتھیاروں کے بغیر جینا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لمحوں میں مشرق وسطی کا نقشہ بدل دیا ہے، ایک طرف شامی مزاحمت کار فتح یاب ہوئے ہیں اور دوسری طرف فلسطینی جاں باز۔ خدا کرے عالم اسلام اور مسلمان باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے خود کو مضبوط کریں اور مشترکہ دشمن کے خلاف تیاری کریں۔ اب کامیابی کا یہی راستہ ہے۔
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہوتا ہے
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
میرے انتہائی عزیزترین دوستو اور بھائیو اور بہنو، دنیاکے طول وعرض میں کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں خون کی ہولی نہ کھیلی جارہی ہو۔۔وہ اسلامی ممالک جوکہ دولت کے لحاظ سے دنیاکی غربت وافلاس ختم کرسکتے ہیں ان کے خزانوں کااستعمال بھی اغیارکے ہاتھوں میں ہے اوروہ اس دولت کوانسانی فلاح کی بجائے اسلحے کے بڑے بڑے کارخانوں میں کھپاکر انسانیت کی ہلاکت کاساماں تیار کررہے ہیں اوریہی ممالک جوکہ دنیاوی ترقی کی معراج پرہیں آج اپنی ہی تہذیب اورسوسائٹی سے اس قدرنالاں ہیں کہ ان کی سمجھ میں اصلاح کی کوئی تدبیرنہیں آرہی،آخریہ کیوں ہے؟یہ ایسا سوال ہےجس کاجواب ہرکوئی چاہتا ہے۔دنیاکی حیرت انگیزترقی ،دولت کی ریل پیل ،حیرت انگیز وسائل رکھنے کے باوجوددنیاکے دانشورآج بے بس اورمجبورکیوں نظرآرہے ہیں، آخر کیوں؟
موت توکوئی نئی چیز نہیں۔موت تو ہر ایک کو آنی ہے۔موت کے قانون سے نہ تو کوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔جو بھی آیا ہے اپنا مقررہ وقت پورا کرکے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ہم سب اس کی امانت ہیں، پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے۔کسی کااس بھری جوانی میںاس طرح حالتِ ایمان اورراہِ خدامیں قربان ہوجانااس کے حق میں بڑی نعمت ہے اورپھرکیوں نہ ہو،ایسی موت تووصل حبیب اوربقائے حبیب کاخوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اورپھربقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت کیاہوگی!
انتہائی واجب الاحترام دوستو اور بھائیو اور بہنو، جب ہم اپنے اسلاف کی طرف دیکھتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس نظرآتاہے۔اس زمانے میں اگرتندوتیزہوایاآندھی چل پڑے تولوگ دیوانہ وارمساجدکی طرف دوڑتے تھے کہ مباداقیامت کا نزول ہونے والا ہے ۔صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت اس عالم میں اللہ کےحضورگڑگڑاکر اپنی مغفرت کی دعائیں کرتی تھی اوراللہ کی رحمت کی طالب ہوتی تھی۔رحمت دوعالمﷺکارخ انور بھی ان مواقع پرکبھی سفیداورکبھی پیلاہوجاتاتھا لیکن آج زلزلوں کی تباہی،سمندروں کے طوفان، قحط کاعذاب اورخانہ جنگیوں کی تباہ کاریاں بھی ہمارے دلوں میں ذراسی جنبش پیدانہیں کرتیں۔
عملی زندگی میں جس طرح پولیس والے کی اچانک دستک ہمیں بدحواس کردیتی ہے، ناکردہ گناہوں کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ ہمارے ذہنوں سے سفرکرکے زبان کی نوک پرآجاتے ہیں،کیاان تمام ناگہانی آفتوں پرجویقینا ہمارے اپنے ہی اعمال کی سزاہیں،ان کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ کانزول اپنے دل ودماغ پرہوتے ہوئے دیکھاہے اورپھراپنی زبان سے آئندہ اعتراف کرکے تائب ہونے کی کوشش کی ہے؟ اگرایمانداری سے اس کاجواب تلاش کیا جائے تویقینانفی میں ہوگاکیونکہ آج ہمارادل خوفِ خداسے خالی اوردنیاکے خوف کی آماجگاہ بناہواہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں خوف ایک دل میں کبھی یکجا نہیں رہ سکتے۔ایک خوف اندر آتاہے تو دوسراخوف چپکے سے نکل جاتا ہے۔مقامِ حیرت تویہ ہے کہ پہاڑجیسافرق ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن دنیاوی دولت یاعزت وحشمت میں بال برابربھی فرق آن پڑے تواس کافوری نوٹس لیا جاتاہے اوراس کیلئے پوری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں۔ اس کابھرپورعلاج تلاش کرکے پھراس پرپوری ثابت قدمی سے عمل کیاجاتاہے لیکن صدحیف!!!روزانہ ہم قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں،احادیث اورتاریخی اسلامی کتب بھی زیرِمطالعہ رہتی ہیں لیکن اس کے باوجودجسم کے اندرچھوٹاسالوتھڑا(دل) جوکہ پہاڑوں کوتسخیر کرنے کی قوت رکھتاہے اس پرقرآن واحادیث کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • ’’جہنم کے دروازے‘‘
  • بارش برسانے والا سسٹم پاکستان میں داخل ہونے کو تیار،پاکستانیوں کیلئے اہم خبر
  • کیمپ ڈیوڈ کی موت
  • پاک-چین وزرائے خارجہ کا عالمی فورمز پر تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق
  • پاکستان اور چین وزرائے خارجہ کا عالمی فورمز پر تعاون مزید بڑھانے پر اتفاق
  • کون ہارا ، کون جیتا؟
  • اناج منڈی کے تاجر سے لوٹ مار،مزاحمت پر گولی مار دی گئی
  • ریاض : وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب مختلف ممالک کے وزرائے خزانہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی گروپ ڈسکشن میں مصروف ہیں
  • پاکستان اور چینی وزرائے خارجہ کی نیویارک میں آج اہم ملاقات