او آئی سی ممالک کے سفیروں سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور او آئی سی کا مشترکہ ہدف عالمی امن، سلامتی اور ترقی ہے، فلسطین، کشمیر کے عوام کو ان کا حق ملنے تک پاکستان آواز بلند کرتا رہے گا۔ اسلام ٹائمز۔ نیویارک، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ او آئی سی امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کا حقیقی ترجمان ہے، پاکستان مسلم دنیا کے اہم مسائل کے حل کے لیے سفارتی محاذ پرسرگرم ہے۔ او آئی سی ممالک کے سفیروں سے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور او آئی سی کا مشترکہ ہدف عالمی امن، سلامتی اور ترقی ہے، فلسطین، کشمیر کے عوام کو ان کا حق ملنے تک پاکستان آواز بلند کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کے مسائل کے منصفانہ حل کے بغیر عالمی استحکام ممکن نہیں، 2 ریاستی حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن ممکن نہیں، بھارت اور اسرائیل جارحیت سے باز رہیں، عالمی برادری فوری اقدامات کرے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق عالمی امن کے فروغ کے لیے پرعزم ہے، عالمی برادری تنازعات کے منصفانہ حل کے لیے عملی کردار ادا کرے، او آئی سی رکن ممالک کے ساتھ قریبی تعاون، ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کا دفاع پوری مسلم دنیا کی مشترکہ ذمہ داری ہے، پاکستان فلسطینی ریاست کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کرے گا، اسرائیل کو جنگ بندی کا پابند کرنا ہوگا، عالمی برادری کردار ادا کرے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: او ا ئی سی پاکستان ا اسحاق ڈار کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور ترکیہ: امتِ مسلمہ کی امیدوں کا مرکز

میڈیا میں 14فروری کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان نے وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ قائد اعظم ؒاور علامہ اقبالؒ ہمارے بھی ہیروز ہیں، علامہ اقبال ؒنے اپنی شاعری سے دنیا بھر میں انقلاب برپا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی مدد ہمارا فرض ہے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک ہماری کوششیں جاری رہیں گی۔ انہوں نے کشمیر کے تنازع کو مذاکرات کے ذریعے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آ کر خوشی ہوئی، یہ ہمارا دوسرا گھر ہے۔
ترکیہ کے صدر محترم حافظ رجب طیب اردگان کی پاکستان تشریف آوری اور سرگرمیاں ہمارے لیے خوش آئند بھی ہیں اور حوصلہ افزا بھی کہ ملکی تاریخ کے اس نازک دور میں ہمارے دوست ہماری خبرگیری کے ساتھ ساتھ بحران سے نکالنے کے لیے تعاون بھی کر رہے ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان کے حکمرانوں میں کیا معاملات طے پائے ہیں اس کی تفصیلات دھیرے دھیرے سامنے آئیں گی مگر ہمارے لیے اتنی بات ہی تسلی بخش ہے کہ صدر اردگان اس مرحلہ میں پاکستان تشریف لائے ہیں اور دوستوں کا مل بیٹھنا ہی کافی ہوتا ہے باقی معاملات خودبخود اپنے رخ پر بڑھنے لگ جاتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ان مذاکرات کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے اور ترکیہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے داخلی مسائل و معاملات میں مزید بہتری آنے کے علاوہ ان دونوں مملکتوں سے عالمِ اسلام اور ملتِ اسلامیہ نے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں ان کے پورا ہونے کی بھی کوئی صورت ضرور نکلے گی۔
ترکیہ اب سے ایک صدی قبل تک خلافتِ عثمانیہ کے عنوان سے امتِ مسلمہ کی راہنمائی اور نمائندگی کے مقام پر فائز تھا اور کم وبیش چار صدیاں اس نے اس ماحول میں گزارے ہیں، قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے ہیں اور خلافتِ عثمانیہ بھی اتار چڑھاؤ کے ان مراحل سے کئی بار گزری ہے مگر اپنے اضمحلال کے دور میں بھی اسے یہ حیثیت ضرور حاصل رہی ہے، جس کا اظہار پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بوسنیا اور سربیا کے سنگین بحران کے دوران ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافتِ عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے سامنے ہم اپنے دکھ درد کا اظہار کر سکیں۔‘‘
ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اب سے ایک صدی قبل جب خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے یورپی ممالک کی سازشیں اور سرگرمیاں عروج پر تھیں مولانا محمد علی جوہرؒ کی قیادت میں برصغیر کے مسلمان پشاور سے کلکتہ تک سڑکوں پر آ گئے تھے اور جب مولانا محمد علی جوہرؒ گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تو ان کی والدہ محترمہ میدان میں آ گئیں جن کا یہ نعرہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں گونج رہا تھا ’’بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔ مسلمانانِ برصغیر کے یہ جذبات و احساسات محض ترکیہ کے لیے نہیں تھے بلکہ امتِ مسلمہ کی وحدت و مرکزیت کے لیے تھے جس کا عنوان اس وقت خلافتِ عثمانیہ تھی۔
یہ جذبات و احساسات اب بھی موجود ہیں اور دنیا کے ہر خطہ کے مسلمانوں کے دلوں میں پھر سے ابھر رہے ہیں، اس لیے وہ جب ترکیہ کی سیکولرازم سے اسلامیت کی طرف واپسی کا کوئی پہلو بھی دیکھتے ہیں اور ترکیہ کے حکمرانوں میں سے کسی کی زبان پر خلافتِ عثمانیہ کا تذکرہ سنتے ہیں تو ان کے دلوں کی گرم جوشی پھر سے انگڑائی لینے لگتی ہے اور وہ بہت سی توقعات پھر سے اپنے دل و دماغ میں زندہ کر لیتے ہیں۔ آج کی مسلم دنیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور نظریاتی و تہذیبی شناخت و امتیاز اور ترکیہ کی ماضی کی طرف واپسی کے مرحلہ وار سفر کو دیکھتی ہے تو بلاشبہ اس کے دلوں میں امیدوں کے نئے چراغ روشن ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
صدر حافظ رجب طیب اردگان کی پاکستان میں آمد کو ہم بھی اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں دعاگو ہیں کہ یااللہ! پاکستان اور ترکیہ کو اس نازک ترین مرحلہ میں امتِ مسلمہ کی صحیح راہنمائی اور اسے بحران کے گرداب سے نکالنے کی توفیق عطا فرما، آمین یا رب العالمین۔

متعلقہ مضامین

  • خطے میں شرانگیزی کے نتائج صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہینگے، لبنانی صدر
  • اسحاق ڈار کی چینی وزیر خارجہ سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات، علاقائی اور عالمی امور پر بات چیت
  • اسحاق ڈار کی یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات
  • اسحاق ڈار کی یو این سیکرٹری جنرل سے ملاقات، سرحد پار دہشتگردی اور دیگر امور پر گفتگو
  • غزہ پر قبضہ: امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے؟
  • دہشت گردی پوری دنیا کیلئے بڑا چیلنج ، عالمی امن وسلامتی کیلئے اجتماعی اقدامات درکارہیں،اسحاق ڈار
  • پاکستان اور ترکیہ: امتِ مسلمہ کی امیدوں کا مرکز
  • پاکستان اور چینی وزرائے خارجہ کی نیویارک میں آج اہم ملاقات
  • نیویارک میں اسحاق ڈار کا او آئی سی کے سفرا سے خطاب، فلسطین و کشمیر کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ