تل ابیب : اسرائیل نے غزہ کی جنگ ہار دی ، قابض اسرائیل کے سابق قومی سلامتی کونسل کے سربراہ غیورا آئلینڈ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی جنگ ہار چکا ہے۔

ایک بیان میں انہوںنے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ اسرائیل کو شکست ہو چکی ہے ،صہیونی قیادت کی ناکامی اور مزاحمت کی ثابت قدمی کا واضح ثبوت ہیں۔

یہ بیان اس حقیقت کو مزید تقویت دیتا ہے کہ قابض اسرائیل کے تمام فوجی اور سیاسی حربے ناکام ہو چکے ہیں، اور غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے ناقابل تسخیر عزم کے ساتھ دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ اعتراف نہ صرف اسرائیلی عسکری و سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ حق اور مزاحمت ہمیشہ ظلم اور جبر پرغالب آتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

اسرائیلی طاقت کا بھرم توڑنے والی 4 ضربیں

اسلام ٹائمز: مزاحمتی قوتوں کے لیے جنگ میں "ان کی طاقت کا جو فقط تاثر تھا"دشمن کو "اس طاقت کا عملی احساس ہوا"۔ یہ جنگ دو دھاری تلوار ثابت ہوئی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 470 دن، تقریباً 16 ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی نے مقبوضہ علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا کر دی جو اسرائیلی طاقت کے فسانے کو زائل کرنے کا باعث بنی۔ یہ شاید اسرائیل کی سب سے بڑی شکست ہے۔  تحریر: رضا رحمتی

اسرائیل غزہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن بین الاقوامی تعلقات کے تناظر اور طاقت کی منطق  کے عنوان سے رائج سیاسی علمی اصطلاحات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ اور اسرائیل غزہ تعلقات کا تجزیہ کیسے کیا جائےکہ بین الاقوامی تعلقات کے علم و فن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے ایشو یعنی طاقت کی زبان کے تناظر میں اہم نتائج حاصل کیے جا سکیں جو موجودہ سیاسی ادب کا حصہ قرار پائیں۔ اس تحریر میں ہم طاقت  کی بنیاد پر تعلقات کے ماڈل، طاقت کی تفہیم، طاقت کے توازن، طاقت سے متعلق افسانوی خیالات اور دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات  سامنے رکھتے ہوئے  صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرینگے۔

1- طاقت کی تنظیم اور دینے کے نقطہ نظرسے طاقت کے توازن کو بنانے والے سب سے اہم عوامل"استحکام" اور "پاور" ہیں۔طاقت کے حصول کا محور استحکام ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے فرض کر لیا کہ مقبوضہ علاقوں میں طاقت کا نظم اسرائیل کی مرضی پر ہو گا، یہی وجہ تھی کہ فضائی بمباری کے بعد، جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی شمال سے رفح کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی، اسرائیل نے غزہ کو کئی علاقوں میں تقسیم کر دیا اور 4 ڈویژن فوج کے ساتھ غزہ میں داخل ہو گیا۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ افواج کی یہ اتنے بڑے پیمانے پر تعیناتی غاصب ریاست کے گرد  حریف مقابل کے طاقت کےنظم کو مکمل طور پر تباہ کر سکتی ہے۔ 

بے پناہ تباہی اور فضائی سے زمینی، مکمل بکتر بند موجودگی جیسی جنگی تدابیر کے ذریعے غزہ میں مستقل فوجی موجودگی قائم کرنے کی  کوششوں کے باوجود، اسرائیل بالآخر فوجی کارروائیوں کے ذریعے اپنے قیدیوں کو بازیاب کرانے میں بھی ناکام رہا اوراس کے لئے فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ اسرائیلی فوج کا ایک مقصد غزہ کی پٹی میں مستقل فوجی تنصیبات قائم کرنا تھا تاکہ خطے میں اپنی مستقل موجودگی قائم کی جا سکے۔ صیہونی اخبار ییودیاوتھ آرنوتھ نے 10 نومبر 2024 کو لکھا: "نیتزاریم محور مستقل فوجی تنصیبات، حراستی مراکز اور کمانڈ سینٹرز کے قیام کے ساتھ اسرائیل کا ایک وسیع فوجی مرکز بن جائے گا۔"

اسرائیلی سیکورٹی حلقوں میں اس مسئلے پر بھی زور دیا گیا کہ اسرائیل غزہ میں مستقل موجودگی کے بغیر غزہ سے پیدا ہونے والے مستقل خطرات پر قابو نہیں پا سکتا۔ انٹیلی جنس کی ناکامی سے پہلے اسرائیل غزہ کو تین محوروں میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صیہونیوں نے دعویٰ کیا کہ "اسرائیلی فوج ایک نیا محور قائم کریگی جو شمالی غزہ کی پٹی کو اس پٹی کے باقی حصوں سے الگ کر دے گی" اور اس کے مطابق وہ اس فلسطینی پٹی پر مستقل تسلط قائم کرنے کے لیے جنوبی غزہ کی پٹی میں تیسرا محور بنائے گی۔

2- طاقت کے بل بوتے پر ساکھ پیدا کرنا "طاقت کے علاقائی توازن کو منظم کرنے کے لیے  ممالک اپنی طاقت پیدا کرنے کے لیے مختلف انداز اور آلات استعمال کرتے ہیں۔ دفاعی اور سیکورٹی تدابیر کو ان وسائل میں شمار کیا جا سکتا ہے جو ریاستیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ طاقت کی نمائش، ساکھ بنانا اور طاقت کا اظہار ایسے معاملات ہیں جو علاقائی توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں طاقت کے توازن کی موجودہ صورتحال کو چانچنے کے لئے طاقت کی حقیقی ساکھ کو ایک واقعیت کے طور پرملحوظ رکھا جاتا ہے۔

طاقت کوئی بیان بازی کا مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کو ازخود دوبارہ بحالی کے قابل ہونے کا نام ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد، اسرائیل کو جو معلوماتی دھچکا لگا، اس سے زیادہ وہ دھچکا تھا جس نے اسرائیل کی طاقت کی پیداوار اوراس کی تولید کر سکنے کی ساکھ کو منفی طور پرمتاثر کیا۔ اسرائیل کی فضائی حملوں میں کامیابی سے قطع نظر، اسرائیل کبھی بھی زمینی کارروائیوں میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ فقط زبانی جمع خرچ کر کےاپنی طاقت ثابت نہیں کر سکا۔

3- بحران اور جنگ کی حالت میں طاقت کے اہداف میں ناکامی، سیاسی اداروں کو میدان جنگ میں نبرد آزما فوجی دستوں کے لیے قابل رسائی اہداف کا تعین کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ وہ اہداف جو یہ قوتیں میدان جنگ کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ قابل حصول اہداف لڑاکا جنگی قوتوں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں اور انہیں مزید برتر اور اعلیٰ تر اہداف حاصل کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد پہلے ہی دن سے، اسرائیل نے اپنی فوجی قوتوں کے لئے ناقابل حصول مقاصد تعین کیا۔

دوسری طرف 7 اکتوبر سے پہلے کے حالات میں توازن بحال کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے حوالے سے اپنے تمام مقاصد میں واضح طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اسرائیل حماس کو تباہ کرنے، فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنے اور فوجی کارروائیوں کے ذریعے قیدیوں کو آزاد کرنے جیسے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور ان تمام ناکامیوں کو اسرائیل کی "فوجی طاقت" کی ناکامی سمجھا گیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ غزہ پر حملہ کرنے میں اس کا ایک مقصد حماس کو تباہ کرنا تھا لیکن نہ صرف حماس کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی طاقت کے عروج پر ہے۔

علاوہ از ایں اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اس نے تقریباً 20 ہزار نئی فعال افرادی قوت بنا لی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو اپنے لیے ایک محفوظ زون میں تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن نہ صرف غزہ ایسی ریاست نہیں بن سکا بلکہ انتہائی مضبوط محرکات کے ساتھ ایک فعال اسرائیل مخالف قوت کی تیاری کے لیے حالات پیدا ہو گئے، 470 دن کے جنگی تجربے کے ساتھ اسرائیل کو زمینی شکست  کا سامنا کرنا پڑا۔

4- طاقت کے متعلق افسانوی تاثر کا محو ہونا، عسکری طور پر اہم نکتہ شمار ہوتا ہے۔ طاقت کے متعلق افسانوی تاثر کا معنی یہ لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی ملک یا ریاست اپنے طاقتور ہونیکے متعلق پر اسراریت کو برقرار رکھتے ہوئے حریف کو زیادہ سے زیادہ ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ جارحانہ یا پیچیدہ اقدامات نہ کریں۔ یہ صورت حال ایک ذہنی کیفیت پیدا کرتی ہے جس کی روشنی میں اپنی صلاحیتوں کے صرف ایک حصے کو عملی طور پر استعمال کر کے وہ اپنی قوتِ کے ناقابل ادراک ہونیکا تاثر پیدا کر سکتے ہیں۔

قابل فہم اور پیمائش کے قابل طاقت ، طاقتور ہونیکی ایک ایسی سطح ہے جو حریف اور دشمن خیال کر رہاہو۔ اس قسم کی طاقت ضروری نہیں کہ حقیقی طاقت ہو۔ممکن ہے حقیقت میں اس کی کوئی جڑیں بھی نہیں ہوں،  لیکن اس کے باوجود یہ ایک طاقت شمار ہوتی ہے۔ اس کو طاقت کافسانہ یا طاقت کا واہمہ بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں ریاستیں اس نفسیاتی کیفیت کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ نفسیاتی کیفیت ان کے لیے سب سے کم خرچ ہے، نہ تو فوجی وسائل کو ضائع ہوتے ہیں۔

اسی طرح نہ ہی ملک کو وہ نقصان پہنچتا ہے جو دشمن کوحقیقی طاقت کے ادراک کیو صورت میں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی ممالک کو ہتھیاروں کی دوڑ میں بھاگنا پڑتاہے۔ اسرائیل کی اہل غزہ کے ساتھ حالیہ دست بدست لڑائی سے پہلے یہ صورتحال تھی کہ اسرائیل کے طاقتور ہونیکا بھرم اور اس کی ساکھ قائم تھی۔ طوفان الاقصیٰ کی جنگ اسرائیل کی پاور پروجیکشن  کی صلاحیت کو تباہ کرنے میں کامیاب رہی۔ جنگ نے اس طاقت کو کم کر دیا جس کا "تصویر" کیا جاتا تھا اور اس کے متعلق جو کچھ محسوس کیا جاتا تھا۔

اس کے برعکس، مزاحمتی قوتوں کے لیے جنگ میں "ان کی طاقت کا جو فقط تاثر تھا"دشمن کو "اس طاقت کا عملی احساس ہوا"۔ یہ جنگ دو دھاری تلوار ثابت ہوئی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 470 دن، تقریباً 16 ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی نے مقبوضہ علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا کر دی جو اسرائیلی طاقت کے فسانے کو زائل کرنے کا باعث بنی۔ یہ شاید اسرائیل کی سب سے بڑی شکست ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کی قومی سلامتی کے مشیر سے زیاد النخالہ کی ملاقات
  • حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو بیک وقت رہا کرنے پر رضامند
  • سرحد پار سے دہشتگردی، پاکستان کی افغانستان میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ سے تعاون کی اپیل
  • پاکستان افغانستان سے دہشتگردی کا مقدمہ سلامتی کونسل میں لے گیا
  • اسرائیلی طاقت کا بھرم توڑنے والی 4 ضربیں
  • کون ہارا ، کون جیتا؟
  • اسرائیل غزہ جنگ ہار چکا ،سابق سربراہ اسرائیلی قومی سلامتی کونسل
  • سلامتی کونسل میں یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کی بازگشت
  • اسرائیلی فوج کو لبنان سے نکل جانا چاہیے، حزب اللہ سربراہ نے 18 فروری کی ڈیڈلائن دے دی