ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے اضافی ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائل نے درخواست میں کہا کہ این ایچ اے نے 31 جنوری کو ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے 25 فیصد زائد ٹیکس وصول کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے اضافی ٹول ٹیکس کی وصولی غیر قانونی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں موٹروے پر ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے 25 فیصد اضافی ٹیکس وصول کرنے کے خلاف درخواست دائر ہو گئی جسے سماعت کے لیے مقرر بھی کر دیا گیا۔ درخواست محمد سجاد بلوچ ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی، جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ موٹر وے پر اسلام آباد سے لاہور سفر کیا تو 1210 کے بجائے 1510 روپے ٹول ٹیکس وصول کیا گیا۔ سجاد بلوچ نے درخواست میں کہا کہ این ایچ اے نے 31 جنوری کو ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے 25 فیصد زائد ٹیکس وصول کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے اضافی ٹول ٹیکس کی وصولی غیر قانونی ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ کیش ادائیگی کرنے والی گاڑیوں سے اضافی ٹول ٹیکس کی وصولی کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ ایم ٹیگ کے بغیر گاڑیوں سے اضافی ٹیکس وصولی کیخلاف درخواست کل سماعت کے لیے مقرر ہو گئی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر درخواست پر کل سماعت کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ ٹیکس وصول ٹول ٹیکس
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے سینیارٹی سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 فروری 2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز نے سینیارٹی سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججوں نے اپنی سینیارٹی کے معاملے پر قانونی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، اس مقصد کے لیے ججز نے سینئر وکلاء منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کی خدمات حاصل کرلیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیارٹی کے خلاف دائر کردہ ریپریزنٹیشن مسترد ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی کیوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس عامر فاروق نے اپنے فیصلے میں پانچ ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد کردی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ درخواست گزار ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس رفعت امتیاز اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان شامل ہیں، ان ججز نے درخواست کے ساتھ حکم امتناعی کی علیحدہ درخواست بھی دائر کی گئی ہے، 49 صفحات پر مشتمل آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کی گئی، درخواست میں تینوں ٹرانسفر ججز، قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کو فریق بنایا گیا، ججز نے درخواست میں وفاقی حکومت اور مختلف ہائیکورٹس کو بھی فریق بنایا۔(جاری ہے)
معلوم ہوا ہے کہ درخواست میں 13 مختلف استدعائیں کی گئی ہیں جن میں جسٹس سرفراز ڈوگر سمیت تین ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی شامل ہے، درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی ایڈمنسٹریٹو کمیٹی اور ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹیوں کی تشکیل نو کو بھی چیلنج کیا گیا، اس کے علاوہ ججز کے ٹرانسفر کا نوٹیفیکیشن اور سابق چیف جسٹس عامر فاروق کی جانب سے سینیارٹی ریپریزنٹیشن مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ درخواست میں جوڈیشل کمیشن کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی فہرست پر نظرثانی کے عمل کو بھی چیلنج کیا گیا ہے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینیارٹی میں سینئر پیونی جج تعینات کرنے کے خلاف ریپریزنٹیشن دائر کی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست دائر کی گئی ہے، سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 (1) کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں اور مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائی کورٹ منتقل نہیں کیا جا سکتا، صدر کے اختیارات کو جوڈیشل کمیشن کی منظوری سے مشروط کیا جائے۔