کانگو: بوکاؤ میں امدادی سامان کی لوٹ مار کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے جمہوریہ کانگو کے مشرقی شہر بوکاؤ میں ہزاروں ٹن امدادی سامان لوٹے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہےکہ ایسے واقعات سے لاکھوں تباہ حال لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ واقعہ روانڈا کے حمایت یافتہ ایم 23 باغیوں کی جانب سے شہر پر حملے اور قبضے کے دوران پیش آیا۔
'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ لوٹا جانے والا امدادی سامان انسانی بحران سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے رکھا گیا تھا جنہیں اب مزید مشکل حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' نے بتایا ہے کہ اس کے گوداموں سے مجموعی طور پر 7,000 ٹن غذائی سامان لوٹا گیا تاہم اس کے باوجود ادارہ اس علاقے میں لوگوں کو ہرممکن مدد پہنچانے کے لیے تیار ہے۔
(جاری ہے)
تمام متحارب فریقین کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کریں جن میں شہریوں اور امدادی کارکنوں کو تحفظ کی فراہمی بھی شامل ہے۔ایم 23 باغی جمہوریہ کانگو کے مشرقی صوبوں میں متواتر پیش قدمی کر رہے ہیں۔ بوکاؤ پر قبضے میں انہیں قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس سے پہلے انہوں نے شدید لڑائی کے بعد شمالی کیوو کے دارالحکومت گوما پر بھی پر قبضہ کر لیا تھا۔
قیمتی معدنیات سے مالا مال اس علاقے میں درجنوں مسلح گروہ وسائل پر قبضے کے لیے کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں۔امداد کی رسائی میں رکاوٹیںملک میں اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر (اوچا) کے نمائندے برونو لامارکیز خبردار کر چکے ہیں کہ امدادی راہداریوں کی کمی کے باعث لوگوں تک مدد پہنچانے میں مشکلات درپیش ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں ایم 23 کا حملہ شروع ہونے سے پہلے بھی جنوبی کیوو میں حالات مخدوش تھے۔
علاقے میں 16 لاکھ 50 ہزار لوگ یا 20 فیصد سے زیادہ آبادی معتدد وجوہات کی بنا پر پہلے ہی بے گھر ہو چکی ہے۔ ہفتے کے روز سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا تھا کہ یہ تنازع علاقائی جنگ کا سبب بن سکتا ہے جسے روکنے کے لیے افریقی ممالک کو سفارتی کردار ادا کرنا ہو گا۔
ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں افریقن یونین کی کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے پہوئےا نہوں نے کہا کہ اب جنگ روکنے، سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا وقت ہے۔
جمہوریہ کانگو کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اقوام متحدہ کا امن مشن 'مونوسکو' بدستور لوگوں کو انسانی امداد مہیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ طاقت کے ذریعے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اگر افریقہ کے ممالک باہم مل کر سفارتی اقدامات کریں تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔
سیکرٹری جنرل نے اس حوالے سے تنزانیہ میں ساؤتھ افریقن ڈویلپمنٹ کمیونٹی کے حالیہ اجلاس کا حوالہ بھی دیا جس میں فوری جنگ بندی کے لیے واضح لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
وہ دن جس کا وعدہ ہے
بعض لوگوں کا یہ وصف رہا کہ وہ سوئے ہوئے زخموں کو جگاتے ہیں اور بس چلے تو ان زخموں پر نمک پاشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ پاکستان کے عوام ان لوگوں کو سیاسی پیش منظر سے ہٹانا بھی چاہیں تو نہیں ہٹا سکتے کہ ان کی بے اندازہ دولت دیوار بن جاتی ہے جس سے وہ ہر ایک کو خرید لینے کی قدرت رکھتے ہیں،کسی کو یاد نہ ہوتو میاں نواز شریف شریف کا یہ جملہ تو تاریخ پاکستان میں آہنی حروف سے لکھا ہوا ہے کہ ’’میں وہ تاجر ہوں جو اشیاء ہی کی نہیں ہر انسان کی قیمت بھی جانتا ہوں‘‘ اس جملے پر ولی خان مرحوم نے کہا تھا ’’جتنے قومی اسمبلی کے اراکین ہیں میرے پاس اتنے دو کروڑ ہوں تو میں اس ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہوں‘‘ یہ بات بر سبیل تذکرہ آگئی وگرنہ آج کا موضوع تو میرے پیارے پاکستان کے قدرتی وسائل ہیں۔ چار موسم، سرسبزو شاداب سونا اگلتی زمینیں ،برف سے ڈھنپے کہسار،گہرے سمندر اور زمین کے سینے میں پوشیدہ بے انتہا خزانے جو کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں ۔ہم مقدر کے اتنے دھنی ہیں کہ آبی وسائل، معدنی دولت اور آبی ذخائر سے لے کر زرعی استعداد اور توانائی کے ذرائع تک ہماری رسائی میں ہیں، لیکن ان بے بہا اور بیش قیمت وسائل کے استعمال کا صحیح سلیقہ ہمیں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سروں سے معاشی بد حالی کے سائے نہیں ٹلے۔
توانائی کا بحران ہو یا بیرونی قرضوں کا بوجھ یہ ہمارے پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچے کی کمر پر اس وقت ہی لد جاتا ہے جب ابھی وہ رحم مادر ہی میں ہوتا ہے ۔آج پھر ہمیں بتایا جارہا ہے کہ ’’پاکستان معدنیاتی صنعت کے حوالے سے 300 ارب ڈالرز کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ یہ ایک معمولی اعتراف ہے وگرنہ پاکستان تو معدنی حوالے سے کرومائیٹ ،جپسم ،ماربل ،چونے کا پتھر، گیس وتیل کے وسائل بھی اس سے بڑھ کر رکھتا ہے ۔ زرخیز زمین ،دریائی و نہری نظام ،گندم ، کپاس،گنا اور چاول سوا ہیں، اس پر مستزاد دریا، بارشیں، گلیشئرز اور جنگلات و ماہی گیری کے وسائل، مگر یہ کب فائدہ آزمارہے ہیں
ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے کتنے منصوبے ان سے مستفید ہوئے ہیں اور کس دور میں ؟ریکوڈک (بلوچستان) گیس منصوبہ TAPI,CPRC منصوبہ،سینڈک ،کوہ دلانہ اور دیگر منصوبے کس کس کے شکم کی آگ بجھانے کے کام آئے ۔2008 ء سے لے کر 2013 ء تک پی پی پی کی حکومت رہی اور رینٹل پاور منصوبوں میں اربوں کی بدعنوانیاں منصہ شہود پرآئیں اوگرا کے چیئرمین کا اسکینڈل اسی زریں دور کا شاخسانہ ٹھہرا ۔2013ء سے 2018 ء تک پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کا سکہ چلا ۔شفافیت اتنی کہ چینی کمپنیز کو بغیر مسابقتی بولی کے منصوبے دان کر دیئے گئے۔ 2018ء میں انصاف کے دعویداروں کو اقتدار سونپا گیا ۔ایک ریکوڈک کے تنازع کے سفارتی حل کے سوا کوئی سہرا اس کے سر نہیں بندھا اور بے اعتدالیوں کا عالم یہ کہ بجلی اور گیس کے بحران نے ایسی شدت پکڑی کہ ابھی تک جوں کا توں ہے۔ پالیسیز میں تسلسل کے فقدان کی کوئی حد نہ رہی اور بیشتر اداروں میں بہت سارے فیصلے تاخیر کی سان پر چڑھا دیئے گئے۔
2022 ء سے 2024 ء تک وجود میں آنے والی حکومتیں معاشی بحران، قرضہ جات اور شفافیت،کی ساری حدیں پار کرگئیں اور گوادر تک سنبھلنے میں نہیں آرہا کہ ماہی گیروں میں بلا کی مایوسی سرایت کر چکی ہے ۔بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں میں پی پی پی کی حکومت پہلے درجے پر رہی اسی لئے اپنی نظریاتی شناخت مٹاتے ہوئے بے چہرہ لوگوں کی معاون و بہی خواہ ہے کہ ’’انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینے کو‘‘ بہر حال نئے سرے سے چین اور دیگر یاران بے راہ روہوں کے ساتھ معدنی وسائل کے حوالوں سے منصوبوں اور معاہدوں کی صلائے عام ہے مگر کیا اعتبار ہے کہ اب کی بار بھی سب منصوبوں اور معاہدوں کے بیچ مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے گا یا وہ حسب معمول بے دخلی اور ماحولیاتی بے رحمیوں کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں گے ؟
ہم جو سونے اور تانبے کے دنیا کے بڑے ذخائر رکھتے ہیں۔دھاتوں کی کانیں (سینڈک) ہماری معاشی حالت بدلنے کا اہم اور بڑا ذریعہ ، تھرکول ہماری توانائی کا بحران کا خاتمہ کرنے اور ہمارے مقدر کے اندھیرے مٹانے کی ضمانت، تیل ،قدرتی گیس ہائیڈرو پاور ،شمسی اور ہوائی توانائیاں کب ہمارا لیکھ بنتی ہیں ۔ میں بھی دیکھوں ،تم بھی دیکھو۔’’ وہ دن جس کا وعدہ ہے ۔‘‘