پاکستان ٹیم چل جائے تو چاند تک، ورنہ تو شام تک! کامران اکمل
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
سابق کرکٹر کامران اکمل نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی غیرمستقل مزاجی کی نشاندہی کی ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیم ایسی ہے چل جائے تو چاند تک، ورنہ تو شام تک۔ ہماری ٹیم میں بہت سی خامیاں ہیں، بولنگ میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔کامران اکمل نے کہا کہ ہمارے پاس اسپنرز نہیں ہیں، اوپنرز جدوجہد کر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ سلیکٹرز اور کپتان نے کیا سوچا، ہمارے چیئرمین نے بھی اس کی منظوری دے دی، دیکھتے ہیں کہ ٹیم کتنی بیلنس ہے۔انھوں نے اسکواڈ کے انتخاب پر تنقید کی اور محمد رضوان کی قیادت میں ٹیم کے چیمپئنزٹرافی جیتنے کے امکانات پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے بھی جدوجہد کا شکار ہوسکتی ہے۔کامران اکمل نے کہا کہ ہم ایک بہتر ٹیم کا اعلان کر سکتے تھے، مجھے نہیں پتا کہ ایسی ٹیم کیوں منتخب کی گئی، چیئرمین نے اتنی کرکٹ نہیں کھیلی، شاید اس لیے انھوں نے منظوری دے دی۔سابق وکٹ کیپر کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں اس ایونٹ میںنیوزی لینڈ، انگلینڈ، بھارت اور جنوبی افریقہ سیمی فائنل میں جگہ بنائیں گے، پانچ اہم کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کی وجہ سے آسٹریلیا کے امکانات کافی کم ہوگئے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کامران اکمل
پڑھیں:
اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں سابق پاکستانی کرکٹر کی نواسی شامل
آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ کوالیفائیر کے لیے پاکستان میں موجود اسکاٹ لینڈ ویمن کرکٹ ٹیم میں پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر، مینجر اور سلیکٹر کرنل ریٹائرڈ نوشاد کی نواسی مریم فیصل بھی شامل ہیں۔
19 سالہ مریم فیصل 1 ون ڈے اور 6 ٹی ٹوئنٹی میچز میں اسکاٹ لینڈ کی نمائندگی کر چکی ہیں۔
لاہور میں نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مریم فیصل نے بتایا کہ اپنے نانا کی وجہ سے میں اور میرے جڑواں بھائی نے کرکٹ شروع کی، نانا کو میں پیار سے بابا کہتی تھی، انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بابا دبئی میں سری لنکا کے خلاف سیریز میں پاکستان ٹیم کے منیجر تھے، ہم دیکھنے گئے تھے وہاں سے مجھے کرکٹ کا شوق ہوا، ویسے تو مجھے کرکٹ بالکل پسند نہیں تھی، میچ کے دوران میں سو گئی تھی، واپس آئے تو بھائی نے کلب جوائن کیا تو پھر میں نے بھی کرکٹ شروع کر دی۔
مریم فیصل نے بتایا کہ میں انڈر 19 میں فلاپ ہو گئی تو بابا نے حوصلہ افزائی کی پھر اگلا سیزن اچھا کھیلا، بابا نے مجھے اور میرے بھائی کو کبھی زبردستی کرکٹ کھیلنے کے لیے نہیں کہا تھا، وہ چاہتے تھے کہ بس ہم کھیلوں میں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آ کر کھیلنا اچھا لگ رہا ہے، یہ ایک مختلف احساس ہے کیونکہ جہاں سے آپ کا تعلق ہو وہاں کھیلنا ایک خواب ہوتا ہے تو میرا یہ خواب پورا ہو رہا ہے۔
مریم فیصل کا کہنا ہے کہ دیسی لڑکیاں کھیل میں نہیں آتیں، شاید فیملی کی وجہ سے یا ان کی خود دلچسپی نہیں ہوتی، میرا خیال ہے کہ دیسی لڑکیوں کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ کہیں بھی جا کر کچھ بھی کر سکتی ہیں۔
Post Views: 4