کینبرا:آسٹریلیا کی ریاست کوئینزلینڈ کے ہائی اسکول میں ایک استاد نے طلبہ اور والدین کو حیران کر دیا ہے۔ یہ استاد جو خود کو ایک بلی کے طور پر شناخت کرتا ہے، کلاس میں بلی جیسی حرکتیں کرتا ہے اور طلبہ سے بلی جیسی آوازیں نکالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس غیر معمولی رویے نے والدین میں تشویش پیدا کر دی ہے اور وہ اسکول انتظامیہ سے اس معاملے پر فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

برسبین کے مارسڈن اسٹیٹ ہائی اسکول میں ملازم یہ استاد طلبہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسے ’’مس پَر‘‘کہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں اسے بلی کے کانوں جیسے ہیڈبینڈ پہنے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ اس کے گلے میں ایک ڈوری بندھی ہوئی ہے جس پر لفظ ’’purr‘‘(بلی کی آواز) لکھا ہوا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ یہ استاد طلبہ پر زور ڈالتا ہے کہ وہ اسے ’’مس پَر‘‘کہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ بلیوں کی طرح چیختا اور غراتا ہے۔

والدین نے بتایا کہ یہ استاد کلاس میں بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو چاٹتا ہے جو طلبہ کے لیے نہ صرف عجیب بلکہ ناگوار بھی ہے۔ ایک والد نے کہا یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ ہمارے بچوں کو ایسے ماحول میں پڑھنا چاہیے جو تعلیمی اور اخلاقی طور پر مناسب ہو۔ اس بارے میں فوری طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

والدین نے اسکول انتظامیہ سے اس معاملے پر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے رویے سے نہ صرف طلبہ کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ ان کے لیے نفسیاتی طور پر بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے، تاہم اب تک اسکول انتظامیہ کی جانب سے کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ معاملہ وائرل ہو چکا ہے اور صارفین نے اس پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے اظہاری آزادی قرار دیتے ہوئے اساتذہ کے حقوق کا دفاع کیا ہے جب کہ دوسروں نے اسے  ناپسندیدہ اور  غیر پیشہ ورانہ قرار دیا ہے۔ بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ اسکول انتظامیہ کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور طلبہ کے مفادات کو ترجیح دینا چاہیے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے رویے طلبہ کے لیے الجھن کا باعث بن سکتے ہیں خاص طور پر اگر انہیں اساتذہ سے مناسب رہنمائی نہ ملے۔ ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو اپنے پیشہ ورانہ رویے کو برقرار رکھنا چاہیے اور طلبہ کے سامنے ایک مثالی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ یہ استاد کرتا ہے طلبہ کے

پڑھیں:

کیا پاکستان باسمتی چاول کے حقوق کا اکیلا مالک بن گیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) چند روز قبل آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا، جس میں اس نے باسمتی چاول کی برانڈنگ اور پیداوار کے خصوصی حقوق کو تسلیم کرنے کی اپیل کی تھی۔ پاکستان اور بھارت چاول کی اس اہم قسم پر ملکیت کا حق جتاتے ہیں۔ بھارت نے سن 2019 میں ان دونوں ممالک یہ درخواست دی تھی کہ باسمتی چاول پر ان کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔

اس کیس کا تاریخی پس منظر

بین الاقوامی سطح پر یہ ''قانونی جنگ‘‘ بھارت نے اس وقت چھیڑی، جب اس نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپی یونین میں باسمتی چاول پر اپنے حق ملکیت کی درخواست دی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کی یہ درخواست مسترد کر دی ہے، تاہم یورپی یونین میں اس کا کیس ابھی زیر التوا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستانی میڈیا کی چند ایک رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کی درخواست مسترد کر کے پاکستان کو باسمتی چاول کے خصوصی حقوق دے دیے ہیں، لیکن اس معاملے سے باخبر اور اس تناظر میں حکومت پاکستان کو ڈیٹا فراہم کرنے والے ڈاکٹر محمد اعجاز کہتے کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔

ڈاکٹر اعجاز کالا شاہ کاکو میں رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل سائنٹسٹ اور ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے مطابق، ''حالیہ فیصلے باسمتی چاول پر دونوں ممالک کے حقوق کو تسلیم کرتے ہیں اور دونوں ہمسایہ ممالک کو اسے ایک مشترکہ ورثہ ماننا پڑے گا۔‘‘

ایک اور زرعی شعبے کے ماہر حامد ملک، جو کہ ایگریکلچر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا نے سن 2023 میں ہی باسمتی چاول پر انڈیا کا خصوصی حق ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کے مطابق نیوزی لینڈ نے بھی اب چند دن پہلے یہی فیصلہ کیا ہے کہ انڈیا اکیلا باسمتی چاول کا ٹیگ استعمال کرنے کا حقدار نہیں۔ بھارت نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے۔

حامد ملک کہتے ہیں کہ یہ عدالتی فیصلے ''ایک طرح سے پاکستان کے حق‘‘ میں ہیں کیونکہ اگر فیصلہ بھارت کے حق میں آتا تو پاکستان کو اقتصادی طور پر بڑا نقصان ہوتا۔

وہ کہتے ہیں کہ باسمتی چاول کو دیگر اقسام کے مقابلے میں بہتر چاول سمجھا جاتا ہے اور اس نام کے تحت برآمدات پر پابندی کی صورت میں پاکستان کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔

باسمتی چاول کی پہلی قسم کب اور کہاں تیار ہوئی؟

ڈاکٹر محمد اعجازکہتے ہیں، ''باسمتی چاول کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے کچھ پاکستان میں تیار کی گئی ہیں اور یہ خاص طور پر اپنی خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے مشہور ہیں۔

‘‘

چاول کا نیا جین دریافت، 20 فیصد زیادہ پیداوار

ڈاکٹر اعجاز کا باسمتی کی ابتدا سے متعلق بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ اس چاول کی پہلی قسم سن 1933 میں پنجاب کے علاقے حافظ آباد میں تیار کی گئی تھی، جو اب پاکستان کی جغرافیائی حدود میں آتا ہے۔ تاہم اس وقت پنجاب ایک مشترکہ علاقہ تھا اور اسی تناظر میں بھارت بھی باسمتی چاول کے ٹیگ کو اُن اقسام کے لیے استعمال کر رہا ہے، جو ابتدا میں تیار کی گئی تھیں اور جن میں باسمتی 370 کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز نے مزید بتایا کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد ابھی یورپی یونین کی عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہے، ''پاکستان نے اس حوالے سے پراڈکٹ کے جغرافیائی انڈیکس کی بنیاد پر تمام شواہد فراہم کیے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ بھارت یورپ میں بھی ایک بار پھر باسمتی چاول کے خصوصی حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔‘‘

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فیصلوں کے بھارت پر اثرات

ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فیصلوں کی وجہ سے بھارت دباؤ محسوس کر رہا ہے کیونکہ یورپی یونین بھی انہی شواہد کو اہمیت دے سکتی ہے، جو ان دونوں ممالک کو فراہم کیے گئے تھے۔

حامد ملک کہتے ہیں، ''اصل بات یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے باسمتی چاول کا جغرافیائی انڈیکیٹر اسٹیٹس حاصل کرنے کی غیر منطقی اور بے بنیاد کوشش میں شکست کھائی ہے۔ بھارتی مصنف چندرشکرن، ڈاکٹر راج بیر سنگھ اور سوم ناتھ موہندرو، جو باسمتی پر کتاب کے مصنفین ہیں، نے بھی تسلیم کیا ہے کہ جغرافیائی طور پر باسمتی کا تعلق پاکستان کے اس علاقے سے ہے، جو اس وقت متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا۔

‘‘ پاکستان باسمتی چاول سے کتنا زرمبادلہ کماتا ہے؟

ماہرین سمجھتے ہیں کہ انڈیا اگر کسی صورت بین الاقوامی سطح پر یہ ثابت کر دیتا کے باسمتی چاول انڈیا کی ملکیت ہے تو پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا۔

ڈاکٹر اعجاز کا کہنا ہے کہ پاکستان تمام اقسام کے چاول کی برآمد سے سالانہ تقریباً چار ارب ڈالر کماتا ہے اور ان میں سے تقریباً ایک ارب ڈالر باسمتی چاول کی برآمد سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

زرعی مصنوعات کی برآمد سے وابستہ افراد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فیصلوں کو سراہتے ہیں کہتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں ان کا پاکستان کی برآمدات پر مثبت اثر پڑے گا، کیونکہ اب دنیا کو زیادہ وضاحت کے ساتھ معلوم ہو گیا ہے کہ باسمتی چاول کا اصل پیداواری مرکزکہاں ہے؟

زرعی ماہر اور برآمد کنندہ عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں، ''ہم جلد ہی ان فیصلوں کے مثبت نتائج دیکھیں گے اور فائدہ ان کسانوں تک پہنچے گا، جو کھیتوں میں محنت کرتے ہیں۔‘‘

عامر حیات کو امید ہے کہ آئندہ برسوں کے دوران باسمتی چاول کی پیداوار اور برآمدات دونوں میں اضافہ ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا پاکستان باسمتی چاول کے حقوق کا اکیلا مالک بن گیا؟
  • زمین زادوں کا آسمانی رشتہ
  • یونیورسٹی آف میرپورخاص میں کلاسزمیں طلبہ کے بیٹھنے کیلیے مناسب کرسیاںتک موجود نہیں،عبدالرحیم خان
  • عارف والا؛ تین طلبہ ڈوبے نہیں تھے، قتل کا انکشاف
  • جیل کاٹنے والوں کو کندن بنا کر رکھ دیتی ہے، خواجہ سعد رفیق
  • امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث
  • تصوف کا سفر پروفیسر احمد رفیق اختر! زمرد خان
  • ملاکنڈ کی یونیورسٹی میں استاد کی طرف سے ہراسانی کا واقعہ
  • آسٹریلیا کے اسکول میں پڑھانے والا ٹیچر جو خود کو بِلی سمجھتا ہے